Null
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat ul Anbiya | سیرتُ الانبیاء

book_icon
سیرتُ الانبیاء
            
باب:4

قوم نوح پر عذابِ الہٰی

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم میں950 سال رہے، اس پوری مدت میں انہوں نے قوم کو توحید اور ایمان کی دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور ایذاؤں پر صبر کیا۔جب قوم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی اورایمان لانے کی بجائے کفر پر اَڑی رہی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ آپ کی قوم کے جن لوگوں سے ایمان قبول کرنے کی توقع تھی وہ تو ایمان قبول کر چکے ، ان کے علاوہ جو لوگ اپنے کفر پر ہی قائم ہیں وہ اب کسی صورت ایمان قبول نہیں کریں گے لہٰذا اس طویل مدت کے دوران کفار کی طرف سے آپ کو جس تکذیب، اِستہزاء اور اَذِیَّت کا سامنا ہوا اس پر غم نہ کرو ، ان کفارکے کرتوت ختم ہو گئے اور اب ان سے انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ اس کا ذکر درج ذیل آیات میں ان الفاظ سے کیا گیا ہے: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ- (1) ترجمہ :اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے۔ اور ارشاد فرمایا: وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ(۳۶) (2) ترجمہ :اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تمہاری قوم میں سے مسلمان ہوجانے والوں کے علاوہ کوئی اور (اب) مسلمان نہیں ہوگاتو تم اس پر غم نہ کھاؤ جو یہ کررہے ہیں۔

کشتی بنانے کا حکم:

کفارپر عذاب چونکہ کئی طریقوں سے آ سکتا تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو بتا دیا کہ وہ عذاب ڈبو دئیے جانے کی صورت میں ہو گا اور ڈوبنے سے نجات کی صورت صرف کشتی کے ذریعے ممکن تھی ا س لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآنِ کریم میں دو مقامات پر اس حکم کا ذکر کیا گیا ہے،چنانچہ سورۂ ہود میں ہے: وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷) (3) ترجمہ :اور ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ اور (اب) ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا۔ بیشک انہیں ضرور غرق کیا جائے گا۔ یعنی ہماری حفاظت میں اور ہمارے سکھانے سے کشتی بناؤ اور ظالموں سے عذاب دور کرنے کی ہم سے سفارش نہ کرنا کیونکہ اب انہیں غرق کرنے کا وقت آچکا ہے۔ (4) اور سورۂ مؤمنون میں ہے: فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا (5) ترجمہ :تو ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا۔ کشتیِ نوح کی تیاری: مروی ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ساج کے درخت بوئے ،بیس سال میں یہ درخت تیار ہوئے، اس عرصہ میں مُطْلَقاً کوئی بچہ پیدا نہ ہوا ، اس سے پہلے جو بچے پیدا ہوچکے تھے وہ بالغ ہوگئے اور اُنہوں نے بھی حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کشتی بنانے میں مشغول ہوگئے۔(6)

سردارانِ قوم کا مذاق اور انہیں جواب:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کشتی بناتے رہے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جب کبھی کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ اے نوح ! عَلَیْہِ السَّلَام ، کیا کررہے ہو؟ آپ فرماتے:’’ ایسا مکان بنا رہا ہوں جو پانی پر چلے۔ یہ سن کر وہ ہنستے کیونکہ آپ کشتی جنگل میں بنا رہے تھے جہاں دور دور تک پانی نہ تھا اور وہ لوگ مذاق کے طور پر یہ بھی کہتے تھے کہ پہلے تو آپ نبی تھے اب بڑھئی ہوگئے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا ، کسی وقت ہم بھی تمہیں ہلاک ہوتا دیکھ کر تم پر ایسے ہی ہنسیں گے جیسے تم کشتی دیکھ کر ہنس رہے ہو۔تمہیں جلد ہی رُسواکن اور دائمی عذاب کا پتہ چل جائے گا۔ قرآنِ کریم میں یہ مکالمہ ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے: وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَؕ(۳۸) فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (7) ترجمہ :اور نوح کشتی بناتے رہے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جب کبھی کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا۔ (نوح نے)فرمایا: اگر تم ہمارے اوپر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم بھی تم پر ایسے ہی ہنسیں گے جیسےتم ہنستے ہو۔ تو عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل و رسوا کردے گا اور کس پر ہمیشہ رہنے والا عذاب اترتا ہے۔ آیت39 میں پہلے عذاب سے دنیا میں غرق ہونے کا عذاب مراد ہے اور دوسرے عذاب سے مراد آخرت میں جہنم کا عذاب ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ (8)

کشتی کی نوعیت اور اس کےتیار ہونے کی مدت:

مروی ہے کہ یہ کشتی دو سال میں تیار ہوئی، اس کی لمبائی تین سو گز، چوڑائی پچاس گز، اُونچائی تیس گز تھی، اس میں اور بھی اَقوال ہیں۔ اس کشتی میں تین درجے بنائے گئے تھے، نیچے والے درجے میں جنگلی جانور ، درندے اور حَشراتُ الارض تھے اور درمیانی درجے میں چوپائے وغیرہ اور اوپر والے درجے میں خود حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ، آپ کے ساتھی اور حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کا جسد مبارک جوعورتوں اور مَردوں کے درمیان حائل تھا اور کھانے وغیرہ کا سامان تھا، پرندے بھی اُوپر والے درجہ میں ہی تھے۔(9)اس سے متعلق مزید تفصیل آگے مذکور ہے۔

وقتِ عذاب کی علامت اور حضر ت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کواحکامِ الٰہی:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کشتی بنانے میں مصروف رہے یہاں تک کہ ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا ، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تنور میں سے پانی جوش مارتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ عذاب کے نزول کا وقت آ پہنچا ۔ (10)چنانچہ جب تنور میں سے پانی نے جوش مارا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو تین طرح کی چیزیں کشتی میں سوار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ (1) ہر جنس میں سے نر اور مادہ کا ایک ایک جوڑا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں:’’حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے ساتھ ان تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لیا جو بچے جنتے ہوں یا انڈے دیتے ہوں۔‘‘ جانور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس آتے اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام دائیں ہاتھ سے نر اور بائیں ہاتھ سے مادہ کو پکڑکرسوار کرتے جاتے تھے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ سانپ اور بچھو نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ سوار کر لیں۔ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے فرمایا: تمہاری وجہ سے ہم کہیں مصیبت کا شکار نہ ہوجائیں ا س لئے میں تمہیں سوار نہیں کروں گا۔ انہوں نے عرض کی: آپ ہمیں سوار کر لیں ،ہم آپ کو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ جو آپ کا ذکر کرے گا ہم اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔‘‘ لہٰذا جسے سانپ اور بچھو سے نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو وہ یہ آیت پڑھ لے : سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ(۷۹) (11) ترجمہ :تمام جہان والوں میں نوح پر سلام ہو۔ اسے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ سانپ اور بچھو سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ (2)حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے اہلِ خانہ، یہ کل سات افراد تھے، حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ، ان کے تین بیٹے سام، حام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں۔ (3)وہ لوگ جو حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لائے۔یہ کل 80اَفرادتھے۔ ان کی تعداد کے بارے میں اور بھی اَقوال ہیں ، صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔(12) عذاب کی مذکورہ بالا علامت اور کشتی میں سواری کا ذکر سورۂ ہود میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے: حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَؕ-وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ(۴۰) (13) ترجمہ :یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور اُبلنے لگا تو ہم نے فرمایا: ہر جنس میں سے (نر اور مادہ کا) ایک ایک جوڑا اور جن پر (عذاب کی ) بات پہلے طے ہوچکی ہے ان کے سوا اپنے گھروالوں کو اور اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے تھے۔ اور سورۂ مؤمنون میں ان الفاظ سے کیا گیا ہے: فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-فَاسْلُكْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْۚ-وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۲۷) (14) ترجمہ : تو ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا پھر جب ہمارا حکم آئے اور تنور ابل پڑے تو کشتی میں ہر جوڑے میں سے دو اور اپنے گھر والوں کو داخل کرلو سوائے اِن میں سے اُن لوگوں کے جن پر بات پہلے طے ہوچکی ہے اور ان ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے بات نہ کرنا،یہ ضرور غرق کئے جانے والے ہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس تنور سے روئے زمین مراد ہے اورایک قول یہ ہے کہ اس سے یہی تنور مراد ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے ۔ (15) آیت میں جو فرمایا کہ آپ کے گھر میں سے ان پر عذاب آئے گا ’’جن پر بات پہلے طے ہو چکی‘‘ ان سے مراد حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی بیوی واعلہ ہے جو ایمان نہ لائی تھی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا بیٹا کنعان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا بھی فیصلہ فرما دیا۔

اہلِ ایمان کو کشتی میں سواری کا حکم:

ہر جنس میں سے نر اور مادہ کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کرنے کے بعد حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نےاہلِ ایمان سے فرمایا: تم اس کشتی میں یہ کہتے ہوئے سوار ہو جاؤ کہ کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا اللہ ہی کے نام پر ہے۔ بیشک میرا رب بخشنے والا اور مہربان ہے۔ قرآنِ پاک میں بیان ہوا : اِرْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۴۱) (16) ترجمہ :اس میں سوار ہو جاؤ۔ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ ہی کے نام پر ہے۔ بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔ حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام چاہتے تھے کہ کشتی چلے تو بِسْمِ اللہ فرماتے، کشتی چلنے لگتی اور جب چاہتے تھے کہ ٹھہر جائے تو بِسْمِ اللہ فرماتے ، کشتی ٹھہر جاتی تھی۔ اس آیت میں یہ تعلیم بھی ہے کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہے تو اسے بِسْمِ اللہ پڑھ کر شروع کرے تاکہ اس کام میں برکت ہو اور وہ کامیابی کے حصول کا سبب ہو۔ (17)

کشتی میں سوار ہوتے وقت حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو حکمِ الٰہی :

کشتی میں سوار ہوتے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: جب تم اور تمہارے ساتھ والے کشتی میں صحیح طرح بیٹھ جاؤتو تم کہنا’’تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ظالم لوگوں کو ہلاک کر کے ہمیں ان سے نجات دی‘‘اور کشتی سے اترتے وقت یوں دعا کرنا:اے میرے رب!مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے: فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۲۸) وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۲۹) (18) ترجمہ :پھر جب تم اور تمہارے ساتھ والے کشتی پر ٹھیک بیٹھ جاؤ تو تم کہناتمام تعریفیں اس اللّٰہ کیلئے جس نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی۔ اور عرض کرنا: اے میرے رب !مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔

طوفان کی شدت اور سیلابی موجوں کی کیفیت:

جب حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم پر عذاب آیاتوآسمان سے زبردست بارش برسی اور یہ لگاتار چالیس دن رات برستی رہی ۔اس دوران زمین سے بھی اس قدر پانی نکالاکہ زمین چشموں کی طرح ہوگئی۔ پانی پہاڑوں سے اونچا ہو گیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی اور ہوا اس شدت سے چل رہی تھی کہ اس وجہ سے پہاڑوں کی مانند اونچی لہریں بلند ہو رہی تھیں اور انہی لہروں کے درمیان حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی کشتی رواں دواں تھی۔ اس کا ذکر قرآنِ پاک میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے: فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْهَمِرٍ٘ۖ(۱۱) وَّ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَآءُ عَلٰۤى اَمْرٍ قَدْ قُدِرَۚ(۱۲) وَ حَمَلْنٰهُ عَلٰى ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍۙ(۱۳) تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَاۚ-جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ(۱۴) (19) ترجمہ :تو ہم نے زور کے بہتے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دئیے۔ اور زمین کو چشمے کرکے بہا دیا تو پانی اس مقدار پرمل گیا جو مقدر تھی۔ اور ہم نے نوح کو تختوں اور کیلوں والی (کشتی)پر سوار کیا ۔ جوہماری نگاہوں کے سامنے بہہ رہی تھی (سب کچھ)اس ( نوح )کو جزا دینے کیلئے(ہوا) جس کے ساتھ کفر کیا گیا تھا۔

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے کافر بیٹے کی غرقابی:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کاایک بیٹا کنعان تھا،آپ اسے اظہارِ اسلام کی وجہ سے مسلمان سمجھتے تھے لیکن در حقیقت یہ منافق تھا۔طوفان کے وقت یہ کشتی سے باہر ایک کنارے پر کھڑا تھا،آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اسے پکار کر کہا: اے میرے بیٹے! تو ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجااور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی پکار سن کر کنعان نے کشتی میں سوار ہونے کی بجائے یہ جواب دیا کہ میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں جومجھے پانی سے بچالے گا۔حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے فرمایا:آج کے دن عذاب الٰہی سے کوئی بچانے والا نہیں، صرف وہی ڈوبنے سے بچ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرما دے۔پھر حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے بیٹے کنعان کے درمیان ایک لہربلند ہوکر حائل ہوئی اور کنعان اس میں ڈوب کر اپنے انجام کو پہنچا ۔(20) اس واقعہ کا ذکر قرآنِ کریم میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے: وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ- وَ نَادٰى نُوْ حُ-ﰳابْنَهٗ وَ كَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ(۴۲) قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِؕ-قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَۚ-وَ حَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ(۴۳) (21) ترجمہ :اور وہ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے کر چل رہی تھی اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس (کشتی) سے (باہر) ایک کنارے پر تھا : اے میرے بیٹے! تو ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ بیٹے نے کہا: میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔ (نوح نے) فرمایا: آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر (وہی بچے گا) جس پر وہ رحم فرمادے اور ان کے درمیان میں لہرحائل ہوگئی تو وہ بھی غرق کئے جانے والوں میں سے ہوگیا۔

بیٹے کی نجات کے لئے دعائے نوح:

لہر حائل ہونے پر حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے بیٹے کی نجات طلب کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی:اے میرے رب! عَزَّ وَجَلَّ ، میرا بیٹا بھی تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تو نے مجھ سے میری اور میرے گھر والوں کی نجات کا وعدہ فرمایا ہے۔ بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور اس وعدے کے پورا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بیشک توسب حاکموں سے بڑھ کر جاننے والا اور سب سے زیادہ عدل فرمانے والا ہے۔ان کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نوح! تیرا بیٹا تیرے گھر والوں(یعنی اہلِ ایمان یا وعدۂ نجات میں شامل گھر والوں) میں سے ہرگز نہیں، اس کا عمل درست نہیں ہے (کیونکہ وہ بیٹا حقیقت میں کافر تھا) لہٰذا ایسے شخص کی سفارش نہ کرو جس کاتمہیں علم نہیں۔یہ سن کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عاجزی کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی : اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کے بارے میں مجھے یہ علم نہیں کہ اس کا حصول حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں اور اگر تو نے میرے اُس سوال پر میری مغفرت نہ فرمائی اور میری عرض قبول فرما کر میرے اوپر رحم نہ فرمایا تو میرا شمار بھی نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائے گا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآنِ کریم میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے: وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ(۴۵) قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَۚ-اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﲦ فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(۴۶) قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْــٴَـلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌؕ-وَ اِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَ تَرْحَمْنِیْۤ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(۴۷) (22) ترجمہ :اور نوح نے اپنے رب کو پکارا تو عرض کی: اے میرے رب! میرا بیٹا بھی تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ ( اللہ نے) فرمایا: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں ہرگز نہیں ، بیشک اس کا عمل اچھا نہیں ، پس تم مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ تو ان لوگوں میں سے نہ ہو جو جانتے نہیں۔عرض کی: اے میرے رب ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی بیوی’’واعلہ ‘‘ کا انجام:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی ایک بیوی کافرہ تھی،جواپنی قوم سے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں کہتی تھی کہ وہ مجنون ہیں۔ یہ بھی اسی طوفان میں غرق ہو گئی اوراسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے ایک عبرتناک مثال بنا دیا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام جیسے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کے نکاح میں ہونے کے باوجود جب اس نے دین کے معاملے میں ان کے ساتھ خیانت اور ایمان کی بجائے کفر کو اختیار کیا توآپ عَلَیْہِ السَّلَام سے قرابت داری اس کے کوئی کام نہ آئی اور موت کے وقت واعلہ سے فرما دیا گیایا قیامت کے دن فرما یاجائے گا کہ تم اپنی قوم کے کفار کے ساتھ جہنم میں جاؤ کیونکہ تمہارے اور حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے درمیان تمہارے کفر کی وجہ سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔معلوم ہوا کہ کافرکو مقرب بندوں سے رشتہ داری کوئی کام نہ آئے گی، ہاں مسلمان کو کام دے گی اگرچہ گناہگار ہو جیسے اسی باب میں آگے صفحہ197 پر ہم اسے بیان کریں گے۔ اس مثال کا ذکر قرآنِ پاک میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے: ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍؕ-كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ(۱۰) (23) ترجمہ : اللہ نے کافروں کیلئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کو مثال بنادیا، وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان دونوں عورتوں نے ان سے خیانت کی تو وہ(صالح بندے) اللہ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ آئے اور فرما دیا گیا کہ جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں جاؤ۔

قومِ نوح کی ہلاکت کے کام کی تکمیل:

جب طوفان اپنی اِنتہا پر پہنچا اور حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کو غرق کر دیاگیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کو حکم ہوا: اے زمین!ا پنا پانی نگل جا اور آسمان کو حکم ہوا: اے آسمان! تھم جا۔ اس کے بعد زمین خشک کر دی گئی ، یوں حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی کافرقوم مکمل طور پر ہلاک ہوگئی جبکہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی کشتی چھ مہینے زمین میں گھوم کر مُوصل یا شام کی حدود میں واقع جودی پہاڑ پر ٹھہرگئی ۔ اس کا ذکر قرآنِ پاک میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے: وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۴۴) (24) ترجمہ :اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوگیا اور وہ کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہرگئی اور فرما دیا گیا: ظالموں کے لئے دوری ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کو(عراق کے ایک علاقے)جزیرہ کی سرزمین میں اور بعض مفسرین کے نزدیک جو دی پہاڑ پر مدتوں باقی رکھا یہاں تک کہ ہماری اُمت کے پہلے لوگوں نے بھی اس کشتی کو دیکھا۔ (25) قومِ نوح کی ہلاکت کا سبب اور بعدِ ہلاکت بھی عذاب: حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کے لوگ اپنی خطاؤں کی وجہ سے طوفان میں ڈبودیئے گئے، پھر غرق ہونے کے بعد عذاب ِ برزخ کی آگ میں داخل کیے گئے، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے: مِمَّا خَطِیْٓــٴٰـتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ﳔ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا(۲۵) (26) ترجمہ :وہ اپنی خطاؤں کی وجہ سے ڈبودیئے گئے پھر آگ میں داخل کیے گئے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پائے۔

قومِ نوح کی ہلاکت نشانِ عبرت ہے:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوم کے واقعات میں عبرت و نصیحت کا ایک خزانہ موجود ہے ۔اس میں متکبروں اور غریب مسلمانوں کو حقیر جاننے والوں کے لئے عبرت ہے ۔یونہی کفار کے لئے عبرت ہے کہ جو لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول کو جھٹلائیں گے ان پر ویسا عذاب آ سکتا ہے جیسا قوم ِ نوح پر آیا ۔اس میں ایمان والوں کے لئے بھی درس ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم رہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام پر ایمان لانے والوں کو مخالفین کے شر سے نجات دی اسی طرح انہیں بھی مخالفین کے شر سے بچائے گا۔نیز یہ سارا واقعہ اپنے کئی پہلوؤں کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر بھی دلیل ہے ۔ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر اس کے یہ پہلو بیان کیے گئے ہیں چنانچہ ایک مقام پرارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ۠(۶۴) (27) ترجمہ :تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے سب کونجات دی اور ہماری آیتیں جھٹلانے والوں کو غرق کر دیا بیشک وہ اندھے لوگ تھے۔ اور ارشاد فرمایا: اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ(۳۰) (28) ترجمہ :بیشک اس میں ضرو ر نشانیاں ہیں اور بیشک ہم ضرور آزمانے والے تھے۔ اور ارشاد فرمایا: فَاَنْجَیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۚ(۱۱۹) ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَؕ(۱۲۰) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۲۱) (29) ترجمہ :تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھ والوں کو بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا۔ پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔ بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔ اور ارشاد فرمایا: فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۵) (30) ترجمہ :تو ہم نے نوح اور کشتی والوں کوبچالیا اور اس کشتی کو سارے جہانوں کے لیے نشانی بنادیا۔ اور ارشاد فرمایا: وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةًؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًاۚۖ(۳۷) (31) ترجمہ :اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایاتو ہم نے انہیں غرق کردیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشانی بنادیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اورارشاد فرمایا: فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ جَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓىٕفَ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ(۷۳) (32) ترجمہ :تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا تو ہم نے اسے اور کشتی میں اس کے ساتھ والوں کو نجات دی اور انہیں ہم نے جانشین بنایااور جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی انہیں ہم نے غرق کردیا تو دیکھو ان لوگوں کا کیسا انجام ہوا جنہیں ڈرایا گیا تھا۔ اورارشاد فرمایا: وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(۱۵) فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَ نُذُرِ(۱۶) (33) ترجمہ :اور ہم نے اس واقعہ کو نشانی بناچھوڑا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ تومیرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا؟ متعلقات یہاں مذکورہ بالا باب میں ذکر کردہ امورسے متعلق 4 باتیں ملاحظہ ہوں:

بیٹے کی نجات کا سوال منصبِ نبوت کے منافی نہیں:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کے بیٹے کی نجات سے متعلق سوال سے منصبِ نبوت میں کوئی حَرج واقع نہیں ہوتا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام اپنے بیٹے کے اظہار ِاسلام کی وجہ سے اسے مسلمان سمجھتے تھے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ظاہر پر ہی حکم لگاتے تھے۔ شیخ ابومنصور ماتریدی نے فرمایا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا بیٹا کنعان منافق تھا اور آپ کے سامنے اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتا تھا اگر وہ اپنا کفر ظاہر کردیتا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ سے اس کی نجات کی دعا نہ کرتے۔(34)

مغفرت کا سوال گناہ گار ہونے کی دلیل نہیں:

حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا مغفرت و رحمت طلب کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا۔ علامہ احمد صاوی فرماتے ہیں:’’اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام سے اُ س چیز کا مطالبہ کر کے جس کے بارے میں وہ جانتے نہ تھے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اور حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے جو اپنے بیٹے کی نجات کا سوال کیا ا س کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کے گھر والوں کو نجات عطا فرمائے گا، اس سے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام نے یہ سمجھا کہ ان کابیٹا بھی چونکہ ان کے گھر والوں میں سے ہے اس لئے یہ بھی ان نجات پانے والوں میں شامل ہے، جب اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تربیت فرمائی تو حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنے فعل پر دل میں ندامت محسوس ہوئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا سوال کیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کا درخت سے کھانے والا معاملہ اوریہ گناہ نہیں بلکہ ان کا تعلق حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْن (نیکوں کی نیکیاں مقربین کے شایانِ شان نیکیوں سے کم تر ہونے کی وجہ سے انہیں گناہ کی طرح لگتی ہیں)سے ہے۔(35)

قبر کا عذاب برحق ہے:

قبر کا عذاب برحق ہے کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم غرق ہونے کے فوراًبعد ہی آگ میں داخل کر دی گئی اور یہ بات واضح ہے کہ یہ جہنم کی آگ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس آگ میں کفار قیامت کے دن ہی داخل کئے جائیں گے اور ابھی قیامت واقع نہیں ہوئی تو آگ عذاب ِ قبر کی صورت میں ہی ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ بعض گناہگار مسلمانوں یا کفار پر ہونے والا قبر کا عذاب زمین میں دفن ہونے پر ہی موقوف نہیں بلکہ جس انسان کو عذاب ہونا ہے وہ جہاں بھی مرے اور مرنے کے بعد اس کاجسم کہیں بھی ہو اسے عذاب ہو گا کیونکہ عذابِ قبر سے مراد وہ عذاب ہے جو مرنے کے بعد ہو چاہے مردہ زمین میں دفن ہو یا نہ ہو اور اس عذاب کو عذابِ قبر اس لئے کہتے ہیں کہ زیادہ تر مردے زمین میں ہی دفن کئے جاتے ہیں۔

نبی کی قرابتداری سے فائدہ ہو گا یا نہیں؟

نبی کے ساتھ نسبی تعلق اور قرابتداری سے دنیا میں بھی برکتیں ملتی ہیں اور آخرت میں بھی اس کا فائدہ ہو گا البتہ آخرت کے فائدہ کی شرط ’’ایمان‘‘ہے۔کافر کو نسبت ِ قرابت سے فائدہ نہ ہوگا اور مومن کو حدیث کے فرمان اور ائمہِ دین کی تصریحات کے مطابق عذابِ جہنم سے نجات ،دخولِ جنت اور درجات میں اضافےکی صورت میں فائدہ ہوگا۔ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نےنبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کومنبر پریہ فرماتے ہوئے سنا: ان لوگوں کا کیا حال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے رشتہ داری روزِ قیامت ان کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گی؟ کیوں نہیں!(ضرور فائدہ دے گی) اللہ کی قسم!مجھ سے رشتہ داری دنیا و آخرت دونوں میں جڑی ہوئی ہے۔(36) انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کا رتبہ تو بہت بلند ہے ،ایک نیک و صالح مسلمان کا حال یہ ہے کہ اس کے ساتھ نسبی تعلق اس کی اولاد کو فائدہ دے گا ،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ- (37) ترجمہ :اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم نے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملادیا اور اُن( والدین)کے عمل میں کچھ کمی نہ کی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان فرماتے ہیں :جب عام صالحین کی صلاح (یعنی نیکو کاری )،ان کی نسل و اولاد کو دین و دنیا و آخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق و فاروق وعثمان و علی وجعفر و عباس و انصارِ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کی صلاح(نیکوکاری) کا کیا کہنا، جن کی اولاد میں شیخ،صدیقی و فاروقی و عثمانی و علوی و جعفری و عباسی و انصاری ہیں ، یہ کیوں نہ اپنے نسب کریم سے دین و دنیا و آخرت میں نفع پائیں گے ۔پھر اَللہُ اَکْبَر ! حضراتِ عُلیہ ساداتِ کرام، اولادِ اَمجاد حضرت خاتونِ جنّت، بتول زہرا کہ حضور پُر نور،سید الصالحین،سید العالمین،سید المرسلین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم کے بیٹے ہیں کہ ان کی شان تو اَرْفَع و اعلیٰ و بلند و بالا ہے(یہ تو سب سے زیادہ اپنے نسب کریم سے نفع اٹھائیں گے)۔ (38)

درس و نصیحت

یہاں یہ نصیحت بہت قابل ِ توجہ ہے کہ کنعان آغوشِ نبوت میں پرورش پانے کے باوجود ایمان نہ لاسکا اور آخر کار طوفان میں غرق ہو کرعبرتناک انجام سے دوچار ہوا۔اس کا سبب بری صحبت میں رہنا اور کفار کے ساتھ تعلق قائم رکھنا تھا اور کنعان ایسی ہی بری صحبت کا شکار تھا۔ایمان کی حفاظت کیلئے بری صحبت اور برے ماحول سے بچنااور نیک لوگوں کی صحبت اور اچھے ماحول کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
1…پ۲۰،العنكبوت:۱۴. 2…پ۱۲،هود:۳۶. 3…پ۱۲،هود:۳۷. 4… تفسير كبير،هود،تحت الاٰية:۳۷، ۶/۳۴۴،مدارك،هود،تحت الاٰية:۳۷ ،ص۴۹۶،ملتقطاً. 5… پ۱۸،المؤمنون:۲۷. 6… روح البيان،هود،تحت الاٰية:۳۷، ۴/۱۲۳. 7…پ۱۲،هود:۳۸، ۳۹. 8… خازن،هود،تحت الاٰية:۳۹، ۲/۳۵۱. 9… خازن،هود،تحت الاٰية:۳۸، ۲/۳۵۱، مدارك،هود،تحت الاٰية:۳۸ ،ص۴۹۶،ملتقطاً. 10…تفسير كبير،هود،تحت الاٰية:۴۰، ۶/۳۴۷،ملخصاً. 11…پ۲۳،الصافات:۷۹. 12… صاوى،هود،تحت الاٰية:۴۰، ۳/۹۱۲، ۹۱۳، تفسير كبير،هود،تحت الاٰية:۴۰، ۶/۳۴۷، ۳۴۸،ملتقطاً. 13…پ۱۲،هود:۴۰. 14…پ۱۸،المؤمنون:۲۷. 15… خازن،هود،تحت الاٰية:۴۰،۲/۳۵۱ ، ۳۵۲، ملخصاً. 16…پ۱۲،هود:۴۱. 17… خازن،هود،تحت الاٰية:۴۱،۲/۳۵۳. 18…پ۱۸،المؤمنون:۲۸، ۲۹. 19… پ۲۷،القمر:۱۱- ۱۴. 20… صاوى،هود،تحت الاٰية:۴۲ ،۴۳ ،۳/۹۱۴ ، خازن،هود،تحت الاٰية: ۴۲ ،۴۳ ، ۲/۳۵۳ ، ملتقطًا . 21…پ۱۲،هود:۴۲، ۴۳. 22…پ۱۲،هود:۴۵- ۴۷. 23…پ۲۸،التحريم:۱۰. 24… پ۱۲،هود:۴۴. 25… خازن،القمر،تحت الاٰية:۱۵،۴/۲۰۳،مدارك،القمر،تحت الاٰية:۱۵،ص۱۱۸۷، ملتقطاً. 26…پ۲۹،نوح:۲۵. 27… پ۸،الاعراف:۶۴. 28…پ۱۸،المؤمنون:۳۰. 29… پ۱۹،الشعراء:۱۱۹- ۱۲۱. 30…پ۲۰،العنكبوت:۱۵. 31…پ۱۹،الفرقان:۳۷. 32…پ۱۱،يونس:۷۳. 33… پ۲۷،القمر:۱۵، ۱۶. 34… تاويلات اهل السنة،هود،تحت الاٰية:۴۶، ۲/۵۲۹. 35… صاوى،هود،تحت الاٰية:۴۷،۳/۹۱۶. 36… مسند امام احمد، مسند ابی سعید خدری ، ۴/۱۲۴،حدیث:۱۱۵۹۱. 37…پ۲۷،الطور:۲۱. 38… فتاویٰ رضویہ، ۲۳/۲۴۳، ۲۴۴.

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن