دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Seerat e Rasool e Arabi صلی اللہ تعالی علیہ وسلم | سیرتِ رسُولِ عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

book_icon
سیرتِ رسُولِ عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

کہ مضبوط زرہ مدینہ ہے۔ تلوار ([1]) کی شِکَستگی ذات شریف پر مصیبت ہے۔ گائے آپ کے وہ اصحاب ہیں جو شہید ہوں گے اور مینڈھا ’’  کَبْش ([2])  الْکَتِیبَہ  ‘‘  ہے جسے اللّٰہ تعالٰی قتل کرے گا۔ اس خواب کے سبب سے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رائے تھی کہ لڑائی کے لئے مدینہ سے باہر نہ نکلیں ۔ عبداللّٰہ بن اُبی کی بھی یہی رائے تھی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا تو اکابر مہاجرین و انصار بھی آپ سے متفق ہوگئے مگر وہ نوجوان جو جنگ بَدْر میں شامل نہ تھے آپ سے درخواست کرنے لگے کہ مدینہ سے نکل کر لڑنا چاہیے ان کے اصرار پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نکلنے کی طرف مائل ہوئے نماز جمعہ کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وعظ فرمایا،  اہل مدینہ و اہل عوالی جمع ہوگئے۔ آپ دولت خانہ میں تشریف لے گئے اور دوہری زِرہ پہن کر نکلے یہ دیکھ کر وہ نوجوان کہنے لگے کہ ہمیں زیبا نہیں کہ آپ کی رائے کے خلاف کریں اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ’’ پیغمبر خدا کو شایاں  نہیں کہ جب وہ زِرَہ پہن لے تو اسے اتار دے یہاں تک کہ اللّٰہ تعالٰی اس کے اور دشمن کے درمیان فیصلہ کردے اب جو میں حکم دوں وہی کرو اور خدا کا نام لے کر چلو اگر تم صبر کروگے تو فتح تمہاری ہوگی۔ ‘‘  پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین جھنڈے تیار کیے۔ اَوس کا جھنڈا حضرت اُسید بن حضیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اور خزرج کا جھنڈا حضرت حُباب بن مُنذِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو عطا فرمایا اس طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ نکلے جن میں سے ایک سو نے دوہری زِرَہ پہنی ہوئی تھی۔ حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا زرہ پہنے ہوئے آپ کے آگے چل رہے تھے جب آپ  ثَنِیَّۃُ الْوَدَاع کے قریب پہنچے تو ایک فوج نظر آئی آپ کے دریافت فرمانے پر صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ یہ یہود میں سے ابن اُبی کے حلیف ہیں جو آپ کی مدد کو آئے ہیں آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ لوٹ جائیں کیونکہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیتے۔ جب آپ موضع شَیْخَان ([3]) میں اترے تو عرضِ لشکر کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بعض صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بوجہ صغر سنی ([4]) واپس کردیا۔ چنانچہ اُسامہ بن زید،  ابن عمر،  زید بن ثابت،  براء بن عازب،  عمروبن حزم،  اُسید بن ظُہَیر انصاری،  ابو سعید خُدری،  عَرَابہ بن اَوس،  زید بن ارقم،  سعد بن عُقَیب،  سعد بن حَبْتَہ،  زید بن جاریہ انصاری اور جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم واپس ہوئے۔ حضرت سَمُرَہ بن جندب اور رافع بن خَدِیج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جو پندرہ پندرہ سال کے تھے پہلے روک دیئے گئے پھر عرض کیا گیا کہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رافع اچھا تیر انداز ہے اس لئے وہ بھی رکھ لئے گئے پھر سَمُرَہ کی نسبت کہا گیا کہ وہ کشتی میں رافع کو پچھاڑدیتے ہیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ دونوں کشتی لڑیں چنانچہ سمرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا،  اس طرح حضرت سمرہ بھی رکھ لئے گئے۔ رات یہیں بسر ہوئی دوسرے روز باغ شَوط میں جو مدینہ اور اُحُد کے درمیان ہے فجر کے وقت پہنچے اور نماز باجماعت ادا کی گئی اسی جگہ ابن اُبی اپنے تین سو آدمی لے کر لشکر اسلام سے علیحدہ ہوگیا اور یہ کہہ کر مدینہ کو چلا آیا کہ ’’ حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا کہا مانا میرا کہا نہ مانا،  پھر ہم کس لئے یہاں جان دیں ۔ ‘‘  جب یہ منافقین واپس ہوئے توصحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایک گروہ نے کہاکہ ہم ان سے قتال کرتے ہیں اور دوسرے گروہ نے کہا کہ ہم قتال نہیں کرتے کیونکہ یہ مسلمان ہیں اس پر آیت نازل ہوئی:

فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْاؕ-اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا (۸۸)      (نساء، ع۱۲)

پس کیا ہے واسطے تمہارے بیچ منافقوں کے دو فرقے ہو رہے ہو اور اللّٰہ نے الٹا کیا ان کو بسبب اس چیز کے کہ کمایا انہوں نے ۔ کیا ارادہ کرتے ہو تم یہ کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا اللّٰہ نے ؟  اور جس کو گمراہ کرے اللّٰہ پس ہر گز نہ پاوے گا تو واسطے اس کے راہ۔ ([5])

            ابن اُبی کا قول سن کر خزرج میں سے بنو سلمہ اور اوس میں سے بنو حارثہ نے دل میں لوٹنے کی ٹھہرائی مگر اللّٰہ تعالٰی نے ان کو بچالیا چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

اِذْ  هَمَّتْ  طَّآىٕفَتٰنِ  مِنْكُمْ  اَنْ  تَفْشَلَاۙ-وَ  اللّٰهُ  وَلِیُّهُمَاؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ (۱۲۲)   (آلِ عمران: ۱۳)

جب قصد کیا دو فریقوں نے تم میں سے یہ کہ نامردی کریں اور دوستدار تھا ان کا اللّٰہاور اوپر اللّٰہ کے پس چاہیے کہ توکل کریں ایمان والے۔  ([6])

            اب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سات سو آدمی اور دو گھوڑے رہ گئے۔ آپ نے ابو خَیْثمہ انصاری کو بطورِ بدرَقَہ  ([7]) ساتھ لیا تاکہ نزدیک کے راستے سے لے چلے۔ اس طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حرہ بنی حارثہ اور ان کے اموال کے پاس سے گز رتے ہوئے مِرْبَع بن قَیْظِی منافق کے باغ کے پاس پہنچے وہ نا بینا تھا۔ اس نے جب لشکر اسلام کی آہٹ سنی تو ان پر خاک پھینکنے لگا اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہنے لگا کہ اگر تو اللّٰہ کا رسول ہے تو میں تجھے اپنے باغ میں  داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ سن کر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اسے قتل کرنے دوڑے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرو یہ آنکھ کا اند ھا دل کا بھی اند ھا ہے۔ مگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے منع کر نے سے پہلے ہی سعد بن زید اَشْہَلی نے اس پر کمان ماری اور سر توڑ دیا۔ یہاں سے روانہ ہو کر لشکر اسلام نصف شوال یوم شنبہ ([8])  کو کوہِ احد کی شعب  (درہ )  میں کَرانہ وادی ([9]) میں پہاڑ کی طرف اُترا۔ ([10]) حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صف آرائی کے لئے پہاڑ کو پس پشت اور کوہ عینَین کو جوواد یٔ قَنات میں ہے اپنی بائیں طرف رکھا۔ کوہِ عَینَین میں ایک شگاف یا درہ تھاجس میں سے دشمن عَقْب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتا



[1]     طبقات ابن سعد، بخاری شریف میں ہے کہ تلوار کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا جس کی تعبیراصحاب کرام کی شکستگی و ہز یمت تھی۔۱۲منہ

[2]     طلحہ بن ابی طلحہ کو کَبْشُ الْکَتِیبَہ کہاکرتے تھے۔۱۲منہ

[3]     مدینہ منورہ کی ایک بستی کا نام۔

[4]     کم عمری۔

[5]     ترجمۂکنز الایمان:تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہوگئے اور اللّٰہ نے انہیں اوندھا کردیا ان کے کوتکوں کے سبب کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللّٰہ نے گمراہ کیا اور جسے اللّٰہ گمراہ کرے تو ہرگز تواس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔ (پ۵، النساء:۸۸) علمیہ  

[6]     ترجمۂکنز الایمان:جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کرجائیں اور اللّٰہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللّٰہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۲۲) علمیہ          

[7]     راستہ بتانے والا۔       

[8]     بروز ہفتہ۔

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن