30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لَمْ اَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ قَالَ فَاطْلُبْنِیْ عِنْدَ الْمِیزَانِ قُلْتُ فَاِنْ لَمْ اَلْقَکَ عِنْدَ الْمِیْزَانِ قَالَ فَاطْلُبْنِیْ عِنْدَ الْحَوْضِ لَا اُخْطِیئُ ہَذِہِ الثَّلَاثَ مَوَاطِنَ ([1] ) (مشکوٰۃ شریف بحوالہ ترمذی، باب الحوض والشفاعۃ)
حضرت اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ آپ قیامت کے دن میری شفاعت فرمادیجئے۔ فرمایا: ’’ میں کردوں گا۔ ‘‘ میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں آپ کو کہاں ڈھونڈوں ؟ فرمایا: ’’ پہلے مجھے صراط پر ڈھونڈنا۔ ‘‘ میں نے عرض کیا: اگر میں آپ کو وہاں نہ پاؤں ؟ فرمایا کہ پھر میزان کے پاس ڈھونڈنا۔ میں نے عرض کیا: اگر میزان کے پاس آپ کو نہ پاؤں ؟ فرمایا: ’’ تو پھر حوض کے پاس مجھے ڈھونڈنا کیونکہ میں ان تین جگہوں کو نہ چھوڑوں گا۔
{۲} …حضرت سَواد بن قارِب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایمان لاتے ہوئے عرض کرتے ہیں : وَکُنْ لِیْ شَفِیْعًا یَوْمَ لَا ذُوْشَفَاعَۃٍ بِمُغْنٍ فَتِیْـلاً عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِب ۔ ([2] ) (استیعاب لابن عبد البر) اورآپ میرےشفیع بنیں جس دن سوادبن قارب کو کوئی شفاعت کرنے والا ذرا بھی فائدہ نہ پہنچاسکے گا۔
{۳} … حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حسب عادت تجارت کے لئے یمن گئے ہوئے تھے۔ آپ کی غیر حاضری میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مبعوث ہوئے۔ عسکلان بن عواکن حمیری ([3] ) نے سن کر اپنے ایمان کا اظہار اشعار میں کیا۔ وہ اشعار حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وساطت سے خدمت اقدس میں ارسال کیے۔ ان میں سے د و شعر یہ ہیں :
اشھد باللّٰہ ربّ موسٰی انک ارسلت بالبطاح
فکن شفیعی الی ملیک یدعو البرایا الی الصّلاح
میں اللّٰہ کی قسم کھاتاہوں جو موسیٰ کارب ہے کہ آپ وادیٔ مکہ میں رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ پس آپ میرے شفیع بنیں اس بادشاہ کی طرف جو خلائق کو نیکی کی طرف بلاتاہے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ اشعار سن کر فرمایا : اَمَا اِنَّ اَخَا حِمْیَرْ مِنْ خَوَّاصِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ رُبَّ مُؤْمِنٌ بِیْ وَ لَمْ یَرَ نِیْ وَ مُصَدِّقٌ بِیْ وَ مَا شَھِدَ نِیْ اُولٰئِکَ اِخْوَانِیْ حقًّا ۔ ([4] ) (اصابہ، ترجمہ عسکلان۔ نیز کنز العمال، سادس، ص۴۲۱)
آگاہ رہو! بے شک حمیری بھائی خواص مومنین سے ہیں اور بعض مجھ پر ایمان لانے والے ہیں حالانکہ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور میری تصدیق کرنے والے ہیں حالانکہ و ہ میرے پاس حاضر نہیں ہوئے وہ حقیقت میں میرے بھائی ہیں ۔
{۴} …حضرت مازِن بن غَضُوبہ طائی خطامی ([5] ) عمان کی ایک بستی میں ایک بت کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بعثت کی خبر سن کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے۔ آپ نے بارگاہ رسالت میں اپنی بے اعتدالیوں کا ذکر کیا اور طالب دعا ہوئے۔ چنانچہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا کی برکت سے وہ رذائل مبدل بفضائل ہوگئے۔ اس بارے میں آپ نے یہ اشعار کہے ہیں :
الیک رسول اللّٰہ خبت مطیتی تجوب الفیافی من عُمان الی العَرج
لتشفع لی یاخیرمن وطیء الحصا فیغفر لی ربی و ارجع بالفلج
الی معشر جانبت فی اللّٰہ دینھم فلا دینہم دینی ولا شرجھم شرجی
( اصابہ بحوالہ طبرانی وبیہقی وغیرہ۔ نیزاستعیاب ابن عبدالبر ) ([6] )
یا رسول اللّٰہ ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں نے اپنی اونٹنی آپ کی طرف دوڑائی جو عمان سے عرج تک بیابانوں کو طے کرتی تھی تاکہ آپ میری شفاعت فرمائیں ۔ اے بہترین ان میں کے جنہوں نے سنگریزوں کو پامال کیا پس میرا رب میرے گناہ بخش دے اور میں کامیاب ہوکر اس گروہ کی طرف جاؤں جن کے دین سے میں اللّٰہ کے واسطے کنارہ کش ہوگیا۔ پس ان کی رائے میری رائے نہیں اور نہ ان کاطریق میرا طریق ہے۔
{۵} … حضرت عثمان بن حنیف صحابی کا بیان ہے کہ ایک نابینا پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا کہ آپ اللّٰہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت بخشے۔ حضور نے فرمایا کہ اگر تو چاہے میں دعا کر دیتا ہوں او ر اگر چاہے تو صبر کر، صبر تیرے واسطے اچھا ہے۔ اس نے عرض کیا کہ خدا سے دعا فرمائیے! آپ نے اس سے ارشاد فرما یا کہ اچھی طرح وضو کرکے یوں دعا کرنا: ’’ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ محمد نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامحمد ([7] ) اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ ۔ ‘‘ یااللّٰہ ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتاہوں اور تیرے نبی نبی الرحمۃ کا وسیلہ پیش کرتاہوں ۔ یا محمد ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں
[1] مشکاۃالمصابیح،کتاب احوال القیامۃوبدء الخلق،باب الحوض والشفاعۃ،الحدیث:۵۵۹۵،ج۲،ص۳۲۶۔علمیہ
[2] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حرف السین،باب سواد،ترجمۃ۱۱۱۴، ج۲،ص۲۳۴۔علمیہ
[3] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ حیری ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے، صحیح ’’ حِمْیَرِی ‘‘ہے اصابہ وغیرہ میں اسی طرح ہے خود مصنف نے بھی آگے عربی عبارت ’’ اما ان اخا حمیر من خواص ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ ‘‘ میں حمیر لکھا ہے ۔علمیہ
[4] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۴۴۳-عسکلان بن عواکن الحمیری،ج۵ ، ص۹۸۔علمیہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع