30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
جب حضرت جویریہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نکاح میں آئیں تو ان کی عمر بیس سال تھی۔ ان کا نام برہ تھا حضورانور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدل کر جویریہ رکھا۔ربیع الاوَّل ۵۰ ھ میں انتقال فرماگئیں اور مدینہ منورہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ ان کی روایت سے سات حدیثیں منقول ہیں جن میں سے دو بخاری میں اور دومسلم میں اور باقی دیگر کتب میں ہیں ۔ ([1] )
حضرت صفیہ اسرائیلیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
باپ کا نام حیی بن اَخطب تھاجو بنو نضیر کا سردار تھا۔ ماں کا نام ضرر تھاجو بنو قریظہ کے سردار سموال کی بیٹی تھی۔ حضرت صفیہ کی پہلی شادی سلام بن مشکم قریظی سے ہوئی۔ طلاق کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں آئیں ۔ جب غزوۂ خیبر ( ۷ھ) میں آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنو ابی الحقیق کا قلعہ قموص فتح کیا تو کنانہ قتل ہوا۔ حضرت صفیہ کا باپ اور بھائی کام آئے خود بھی گرفتار ہوئیں ۔جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے تو دحیہ کلبی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ایک لونڈی کی درخواست کی۔ حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا کہ جاؤ ایک لونڈی لے لو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت صفیہ کو لے لیا۔ ایک صحابی نے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’ یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ نے صفیہ جو رئیسۂ قریظہ و نضیر تھی دِحیہ کو عطا فرما دی وہ تو آپ ہی کے لائق ہے۔ ‘‘ اس پر حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دحیہ کلبی کو دوسری لونڈی عطا فرمادی اور خود صفیہ کو آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔جب خیبر سے روانہ ہوکر صَہْبَاء میں پہنچے تو رسم عروسی ادا کی گئی اور لوگوں سے ماحضر جمع کر کے دعوتِ وَلیمہ دی گئی۔
حضرت صفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں ۵۰ ھ میں انتقال فرمایااور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ ان کی روایت سے دس حدیثیں منقول ہیں جن میں صرف ایک متفق علیہ ہے۔ ([2] )
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولادِ کرام
پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اولاد سوائے ابراہیم کے جو حضرت ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بطن مبارک سے تھے حضرت خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے تھی۔ صاحبزادیاں بالاتفاق چار تھیں ۔ چاروں نے زمانہ اسلام پایا اور شرف ہجرت حاصل کیا مگر صاحبزادوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ قاسم و ابراہیم پر اتفاق ہے۔ بقول زُبیر بن بکار (متوفی۲۵۶ھ) صاحبزادے تین تھے۔ قاسم ، عبد الرحمن (جن کو طیب وطاہر بھی کہتے تھے) ، ابراہیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ اکثر اہل نسب کی یہی رائے ہے۔ ([3] )
حضرت قاسم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولاد کرام میں حضرت قاسم بعثت سے پہلے پیدا ہوئے اور قبل بعثت ہی سب سے پہلے انتقال فرماگئے۔ابن سعد نے بروایت محمد بن جبیر بن مطعم نقل کیا ہے کہ دو سال زندہ رہے۔ بقولِ مجاہد سات دن اور بقولِ مفضل بن غسان غلابی تیرہ مہینے زندہ رہے۔ ابن فارس کہتے ہیں کہ سن تمیز کو پہنچ گئے تھے۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی کنیت ابو القاسم ان ہی کے نام پر ہے۔ ([4] )
حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں ۔بعثت سے دس سال پہلے جب آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عمر مبارک تیس سال کی تھی پیدا ہوئیں ۔ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص بقیط بن ربیع سے ہوئی۔ ابو العاص حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی بہن ہالہ کے بطن سے تھے۔حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے کہنے سے ان کا نکاح بعثت سے پہلے حضرت زینب سے کردیا تھا۔ جب حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو منصب رسالت عطا ہوا تو حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیاں آپ پر ایمان لائیں مگر ابوالعاص شرک پر قائم رہا۔ اسی طرح حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بعثت سے پہلے اپنی صاحبزادی رُقیہ کا نکاح عُتْبَہ بن ابی لہب سے اور ام کلثوم کا نکاح عتیبہ بن ابی لہب سے کردیا تھا۔
جب آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو قریش نے آپس میں کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی بیٹیاں چھوڑدو اور ان کو اس طرح تکلیف پہنچاؤ۔ چنانچہ وہ ابو العاص سے کہنے لگے کہ تو زینب کو طلاق دیدے ہم تیرا نکاح قریش کی جس لڑکی سے تو چاہے کرادیتے ہیں ۔ ابو العاص نے انکار کیا مگر ابو لہب کے بیٹوں نے حضرت رُقیہ و اُم کلثوم کو ہم بستری سے پیشتر طلاق دے دی۔
اگر چہ اسلام نے حضرت زینب و ابو العاص میں تفریق کردی تھی مگر مسلمانوں کے ضعف کے سبب سے عمل درآمد نہ ہوسکا یہاں تک کہ ہجرت وقوع میں آئی۔ جب قریش جنگ کے لئے بدر آئے تو ابو العاص بھی ان کے ساتھ آئے اور گرفتار ہوگئے۔ حضرت زینب نے ان کے بھائی عَمْرو کے ہاتھ مکہ سے ان کا فدیہ بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پہنا کر پہلے پہل ابو العاص کے ہاں بھیجا تھا۔ جب حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر نہایت رقت طاری ہوگئی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا زمانہ یاد آگیا۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد سے صحابہ کرام نے فدیہ واپس کردیا اور ابو العاص کو بھی چھوڑ دیا۔ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابوالعاص سے وعدہ لیا کہ مکہ جاکر حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو مدینہ بھیج دیں گے۔
[1] شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات ۔۔۔ إلخ ،ج۴، ص۴۲۴۔۴۲۸۔علمیہ
[2] شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ ، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات ۔۔ ۔إلخ ،ج۴، ص،۴۲۸۔۴۳۶۔علمیہ
[3] شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ ، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام ۔۔۔ إلخ ، ج۴، ص ۳۱۳۔۳۱۴۔علمیہ
[4] شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ ، المقصد الثانی ۔۔۔ إلخ ، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام ۔۔۔ إلخ ، ج۴، ص ۳۱۶۔۳۱۷۔علمیہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع