30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لَا یَغْلِبَنَّ صَلِیْبُہُمْ وَمِحَالُہُمْ غَدْوًا مِحَالَکْ
اِنْ کُنْتَ تَارِکَہُمْ وَقِبْلَتَنَا فَائَمْرٌ مَّا بَدَا لَک
ترجمہ اَشعار: اے اللّٰہ! بندہ اپنے گھر کو بچایا کر تا ہے تو بھی اپنا گھر بچا، ایسا نہ ہو کہ کل کو ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب آجائے، اگر تو ہمارے قبلہ کوان پر چھوڑنے لگا ہے تو حکم کر جو چاہتاہے۔
اِدھر عبدالمُطَّلِب یہ دعا کر کے اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں کے دَرِّے ([1]) میں پناہ گزیں ہوا، اُدھر صبح کو اَبْرَہَہ خانہ کعبہ کو ڈھا نے کے لئے فوج اور ہاتھی لے کر تیار ہوا۔ جب اس نے ہاتھی کا منہ مکہ کی طرف کیا تو وہ بیٹھ گیا، بُہتیرے آنکسمارے مگر نہ اٹھا، آخرمکہ کی طرف سے اس کامنہ موڑ کر اٹھایا تو اٹھا اور تیزبھاگنے لگا، غرض جب مکہ کی طرف اس کا منہ کرتے تو بیٹھ جاتا اور کسی دوسری طرف کرتے تو اٹھ کر بھاگتا، اسی حال میں اللّٰہ تعالٰی نے سمُندر کی طرف سے اَبابیلوں کے غول کے غول بھیجے، جن کے پاس کنکریاں تھیں ، ایک ایک چونچ میں اور دودوپنجوں میں انہوں نے کنکروں کا مینہ برسانا شروع کیا، جس پرکنکر گرتی ہلا ک ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر اَبْرَہَہ کا لشکر بھاگ نکلا۔اس طرح اللّٰہ تعالٰی نے اپنا گھر دشمن سے بچا لیا، قرآن مجید سورۂ فیل میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ([2])
قصہ ٔ اَصحاب فیل میں دو طرح سے حضرت کی کر امت ظاہر ہے، ایک تو یہ کہ اگر اصحاب فیل غالب آتے تو وہ حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کی قوم کو قید کر لیتے اور غلام بنا لیتے، اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے اَصحابِ فیل کو ہلاک کر دیاتاکہ اس کے حبیبِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر حمل و طُفُوْلِیَّت کی حالت میں اَسیر ی وغلامی کا دھبہ نہ لگے۔ دوسرے یہ کہ اصحاب فیل نصاریٰ اہل کتاب تھے جن کا دین قریش کے دین سے جو بت پر ست تھے یقینا بہتر تھا مگر یہ کہ حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کے وُجود ِباجودکی برکت تھی کہ اللّٰہ تعالٰی نے بیت اللّٰہ شریف کی حرمت قائم رکھنے کے لئے قریش کو باوجودبت پر ست ہو نے کے اہل کتاب پر فتح دی۔یہ واقعہ حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی نبوت کا پیش خیمہ تھا کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دین میں اسی بیت اللّٰہ کی تعظیم اسی کے حج اور اسی کی طرف نماز کا حکم ہوا۔
جب حمل شریف کو چاند کے حساب سے پورے نو مہینے ہوگئے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارہ ربیع الاوّل کو دو شنبہ کے دن فجر کے وقت کہ ابھی بعض ستارے آسمان پر نظر آرہے تھے پیدا ہوئے۔دونوں ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے، سر آسمان کی طرف اٹھا ئے ہوئے (جس سے آپ اپنے علو مرتبہ کی طرف اشارہ فرمارہے تھے ) ، بدن بالکل پاکیزہ اور تیزبو کستور ی کی طرح خوشبودار، ختنہ کیے ہو ئے، ناف بُرِیدہ ([3]) ، چہر ہ چودہویں رات کے چاند کی طرح نورانی، آنکھیں قدر ت الٰہی سے سرمگیں ، دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت دَرَخشاں ([4]) ، آپ کی والد ہ نے آپ کے دادا عبدالمُطَّلِب کو جواس وقت خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے بُلا بھیجا۔وہ حضرت کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بیت اللّٰہ شریف میں لے جاکر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے صدقِ دل سے دعا کی اور اللّٰہ تعالٰیکی اس نعمت عظمیٰ کا شکریہ ادا کیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے چچا ابو لَہَب کی لونڈی ثُوَیْبَہ نے ابو لَہَب کو تو لد شریف کی خبر دی تو اُس نے اس خوشی میں ثُوَیْبَہ کو آزاد کر دیا۔
حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) جس مہینے میں پیدا ہو ئے اس کانام تو ربیع تھا ہی مگر وہ موسم بھی ربیع (بہار ) کا تھا۔کسی نے کیا خوب کہاہے ؎
رَبِیْعٌ فِیْ رَبِیْعٍ فِیْ رَبِیْعٍ وَ نُوْرٌ فَوْقَ نُوْرٍ فَوْقَ نُوْرٍ
تَوَلُّد شریف کی خوشی کا ثمرہ
ابو لَہَب کی موت کے ایک سال بعد حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خواب میں ابو لہب کو برے حال میں دیکھا، پوچھا : تجھے کیا ملا ؟ ابو لہب نے جواب دیا: ’’ لَمْ اَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ اَ نِّی سُقِیْتُ فِی ہٰذِہِ بِعَتَاقَتِی ثُوَیْبَۃَ ۔ ([5]) ‘‘ تمہارے بعد مجھے کچھ آرام نہیں ملا سوائے اس کے کہ ثُوَیْبَہ کو آزاد کر نے کے سبب سے بمقدار اس مُغَاک (میانِ اِبْہَام وسبابہ) ([6]) کے پانی مل جاتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں ۔
اس حدیث ([7]) عروہ بن زبیر کا مطلب یہ ہے کہ ابو لہب بتا رہا ہے کہ میرے تمام اعمال رائگا ں گئے سوائے ایک کے اور وہ یہ کہ میں نے حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی ولا دت کی خوشی میں اپنی لو نڈی ثُوَ ْ َیبہ کو آزاد کر دیا تھا، اس ایک عمل کا فائد ہ باقی رہ گیا اور وہ یوں ہے کہ اسکے بدلے ہر دوشنبہ کو ابہام و سبابہ کے درمیانی مغاک کی مقدار مجھے پانی مل جاتا ہے جسے میں انگلیوں سے چو س لیتا ہوں اور عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔یہ حضور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خصوصیات سے ہے، ورنہ کا فر کا کوئی عمل فائدہ نہ دے گا۔
فقیر توکُّلی ([8]) گزارش کرتا ہے کہ جب حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تو لد شریف پر خوشی منانے سے ایک کا فر کو یہ فائدہ پہنچا تو قیاس کیجئے کہ ایک مسلمان جو ہر سال مو لود شریف کراتا اور حضور احمد مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے تولد شریف پرخوشیاں مناتا اس دارِ فانی سے رخصت ہوجائے تواسے کس قدر فائدہ پہنچے گا۔
[1] دو پہاڑوں کے درمیان گھاٹی۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، امر الفیل وقصۃ النسأۃ، ص۲۲۔۲۶ملخصاً علمیہ۔
[3] یعنی صحیح وسلامت بنی ہوئی ناف۔
[4] چمکتی ہوئی۔
[5] صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب وامہاتکم اللا تی ارضعنکم،الحدیث:۵۱۰۱،ج۳،ص۴۳۲ وشرح الزرقانی علی المواہب،ذکر رضاعہ وما معہ،ج۱،ص۲۶۰ علمیہ۔
[6] یعنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان گڑھایا گوشت۔
[7] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب وامھتکم اللا تی ارضعنکم، نیز زرقانی علی المواہب ( جز اَوَّل، ص ۳۸)۔
[8] یع راقم الحروف۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع