30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اس میں یہ پیشین گوئی ہے کہ یہود کے مختلف فرقے ہوں گے جن میں عداوَت و بغض قیامت تک رہے گا۔ اس پیشین گوئی کے پورا ہونے میں کلام نہیں کیونکہ یہود کے مختلف فرقوں میں اب تک عداوت ہے اور آئندہ رہے گی۔
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ (۶۷) (مائدہ، ع ۱۰)
اے رسول پہنچا جو کچھ اتارا گیا ہے تیری طرف تیرے رب سے اور اگر تونے نہ کیا پس تونے نہ پہنچایا اس کا پیغام اوراللّٰہ تجھ کوبچائے گا لوگوں سے اللّٰہ ہدایت نہیں کرتا منکر قوم کو۔ ([1] )
یہ آیت بقولِ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ ذَاتُ الرِّقاع (۴ ھ) میں نازل ہوئی۔ ([2] ) اس آیت کے نزول سے پہلے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاسبانی کیاکرتے تھے مگر جب یہ آیت اتری تو حراست موقوف کردی گئی کیونکہ اس میں خود اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زندگی میں اس پیشین گوئی کا پورا ہونا ظاہر ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین باوجود کینہ و عداوت کے آپ کے قتل پر قادر نہ ہوئے۔ چونکہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم و فات شریف کے بعد جسد مبارک کے ساتھ مرقد منور میں حقیقۃً زندہ ہیں اس لئے یہ وعدہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔ ذیل میں ہم علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب ’’ وَفَائُ الوَفَاء بِاِخْبَارِ دارِ المُصْطَفٰی ‘‘ سے صرف ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے ناظرین اندازہ لگا سکیں گے کہ وفات شریف کے بعد اَعدائے اسلام نے ہمارے آقا، ہمارے مالک ، حضور شہنشاہ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کس طرح اذیت پہنچانی چاہی اور کس طرح یہ وعدہ پورا ہوا۔ واقعہ مذکورہ کو علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہیوں بیان فرماتے ہیں :
جان لے کہ مجھے علامہ جمال الدین ([3] ) اِسْنَوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تصنیف سے ایک رسالہ معلوم ہوا ہےجس میں نصاریٰ کو حاکم بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض نے اس رسالے کا نام ’’ اِنْتِصارات اسلامیہ ‘‘ رکھاہے۔ میں نے اس پر علامہ موصوف کے شاگرد شیخ زَین ا لدِّین مَرَاغی کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا ہے اور وہ یہ ہے: ’’ نصیحۃ اولی الالباب فی منع استخدام النصاری کتاب لشیخنا العلامۃ جمال الدین اسنوی ‘‘ استاد نے اس رسالے کا نام نہ رکھا تھا، میں نے آپ کے سامنے یہ نام عرض کیا، جسے آپ نے برقرار رکھا، انتہی۔ پس میں نے اس رسالے میں یہ عبارت دیکھی:
سلطانِ عادِل نور الدین شہید کے عہد سلطنت میں نصاریٰ کے نفسوں نے انہیں ایک بڑے اَمر پر آمادہ کیا۔ ان کا گمان تھا کہ وہ پورا ہوجائے گا۔ اور اللّٰہ اپنی روشنی پورا کیے بغیر نہیں رہتا خواہ منکر برا مانیں ۔ وہ امر یہ ہے کہ سلطان مذکو ر رات کو تہجد اور وظائف پڑھا کرتا تھا ایک روز تہجد کے بعد سوگیا خواب میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھا کہ دوسرخ رنگ شخصوں کی طرف اشارہ کر کے فرمارہے ہیں : میری مدد کر اور مجھے ان دو سے بچا۔ وہ ڈر کر جاگ اٹھاپھر وضو کیا نماز پڑھی اور سو گیا پھر اس نے وہی خواب دیکھا جاگ اٹھا اور نماز پڑھ کر سوگیا پھر تیسری بار وہی خواب دیکھا پس جاگ اٹھا اور کہنے لگا: نیند باقی نہیں رہی۔ اس کا وزیر ایک صالح شخص تھا جس کا نام جمال الدین موصلی تھا رات کو اسے بلایااور تمام ماجرا اسے کہہ سنایا اس نے کہا: تم کیسے بیٹھے ہو اسی وقت مدینۃ النبی کی طرف روانہ ہوجاؤاور اپنے خواب کو پوشیدہ رکھو۔ یہ سن کر اس نے بقیہ شب میں تیاری کرلی اور سبکسار ([4] ) سواریوں پر بیس آدمیوں کے ساتھ نکلا۔ وزیر مذکور اور بہت سامال بھی اس کے ساتھ تھا۔ سولہ دن میں وہ مدینے پہنچا۔ شہر سے باہر غسل کیا اور داخل ہوا، روضۂ منورہ میں نماز پڑھی اور زیارت کی پھر بیٹھ گیا حیران تھا کہ کیا کرے۔ جب اہل مدینہ مسجد میں جمع تھے تو وزیر نے کہا: سلطان نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زیارت کے ارادے سے آیاہے اور خیرات کے لئے اپنے ساتھ بہت سامال لایا ہے جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان کے نام لکھو۔ اس طرح تمام اہل مدینہ کے نام لکھے۔ سلطان نے سب کوحاضر ہونے کا حکم دیا جو صدقہ لینے آتا سلطان اسے بغور دیکھتا تاکہ وہ صفت و شکل جو نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے دکھائی تھی معلوم کرے۔ جس میں وہ حلیہ نہ پاتا اسے صدقہ دے کر کہتاکہ چلے جاؤ یہاں تک کہ سب لوگ آچکے۔ سلطان نے پوچھا کہ کیا کوئی باقی رہ گیا ہے جس نے صدقہ نہ لیا ہو۔ انہوں نے عرض کی نہیں ۔ سلطان نے کہا: غوروفکر کرو۔ اس پر انہوں نے کہا اور تو کوئی باقی نہیں مگر دو مغربی شخص جو کسی سے کچھ نہیں لیتے وہ پارسا اور دولت مندہیں اور محتاجوں کو اکثر صدقہ دیتے رہتے ہیں ۔ یہ سن کر سلطان خوش ہوگیا اور حکم دیا کہ ان دونوں کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ وہ لائے گئے۔ سلطان نے انہیں وہی دو شخص پایا جن کی طرف نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ میری مدد کراور مجھے ان سے بچا۔ پس ان سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ انہوں نے کہا: ہم دیار مغرب سے حج کرنے کے لئے آئے ہیں اس لئے اس سال ہم نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُجَاوَرَت ([5] ) اختیار کی ہے۔ سلطان نے کہا: سچ بتاؤ۔ مگر وہ اپنی بات پر قائم رہے۔ پھر لوگوں سے پوچھا: یہ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ عرض کیا گیا کہ حجرہ شریف کے قریب رباط ([6] ) میں رہتے ہیں ۔ یہ سن کر سلطان نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے مکان میں آیا۔ وہاں بہت سا مال، دو قرآن مجید اور وعظ و نصیحت کی کتابیں پائیں ۔ ان کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔ اہل مدینہ نے ان کی بڑی تعریف کی کہ یہ بڑے سخی اور فیاض
[1] ترجمۂکنزالایمان: اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللّٰہتمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بیشک اللّٰہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔ (پ۶، المائدۃ:۶۷)۔علمیہ
[2] اتقان للسیوطی، جز ء اول، ص۱۶۔ (الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثانی: معرفۃ الحضری والسفری،ج۱،ص۲۷۔علمیہ)
[3] شیخ جمال الدین عبدالرحیم اِسْنَوی شافعی شہر اِسنا وا قع ملک مصر میں ذی الحجہ ۷۰۴ھ میں پیدا ہوئے۔ ۷۲۱ھ میں قاہرہ آئے اور وہاں مختلف استادوں سے ادب، نحو، اصول فقہ اور حدیث میں تعلیم پائی۔ اپنے وقت میں فقہ شافعی میں یگانہ تھے صاحب تدریس و تصنیف تھے۔ فقہ واصول و نحومیں بہت سی کتابیں آ پ کی تصنیف ہیں ۔ آپ کا وصال جُمَادَی الا ُولیٰ ۷۷۲ھ میں ہوا۔ آپ کے جنازے پر انوارِ ولایت نمایاں تھے۔ (تفصیل کے لئے دیکھو ’’ بعیۃ الدعا اورحسن المحاضرہ‘‘۔ہر دو مصنفہ جلال الدین سیوطی) رسالہ ’’ نصیحۃ اولی الالباب فی منع استخدام النصاریٰ‘‘ آپ کی ہی تصنیف ہے جیسا کہ مصنف کے بیان سے ظاہر ہے۔ کشف الظنون میں ہے کہ علامہ سیوطی نے اس رسالہ کا اختصار کیاہے اور اس کا نام ’’جہد القریحۃ فی تجرید النصیحۃ‘‘ ہے۔ علامہ جمال الدین اِسْنَوی کے قلم سے اسی قسم کے ایک رسالہ ’’$&'); container.innerHTML = innerHTML; }
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع