30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
’’ اپنے نئے پیدا ہو ئے بچوں کے باہر پھینک آنے یا قتل کر نے کی خوفناک رسم جس سے قُدَمَاء خوب آشنا تھے رُومۃ الکبرٰی کے صوبہ جات بالخصوص اِطالیہ میں روز بروز کثیر الو قوع ہو تی جاتی تھی۔ اس کا باعث اَفلاس تھا اور اَفلاس کے بڑے اَسباب ٹیکسو ں کا ناقابل بر داشت بو جھ اور مفلس مَدیونوں ([1] ) کے خلاف محکمۂ مَال کے اَفسروں کے تکلیف دہ اور بے درد ([2] ) مقدمات تھے۔ نوع انسان کے کم مالدار یا کم محنت کش حصہ نے عیال میں اضافہ کی خوشی منانے کی بجائے شفقت پدری کا مقتضایہ سمجھا تھا کہ اپنے بچوں کو ایسی زندگی کی آنے والی تکلیفوں سے چھڑادیا جائے جسے وہ خود نباہنے کے قابل نہ تھے۔ قسطنطین (متوفی ۲۲مئی ۳۳۷ئ) کی مر وت شاید مایوسی کے بعض تا زہ غیر معمولی واقعات سے حرکت میں آئی کہ اس نے پہلے اطالیہ پھر افریقہ کے تمام شہروں کی طرف ایک فرمان بھیجا جس میں یہ ہدایت تھی کہ والدین اپنے ایسے بچے مجسٹریٹوں کی عدالتوں میں پیش کیا کریں جن کو ان کا افلاس تعلیم دلا نے کی اجازت نہیں دیتاان کو فوری وکافی امداد دی جائیگی۔لیکن یہ وعدہ ایسا فیاضانہ اور یہ بند وبست ایسا بے سر وپاتھا کہ اس پر کوئی عام یا د ائمی فائدہ مترتب نہ ہوا۔یہ قانون اگرچہ کسی قدرقابل تحسین تھا مگر افلاس عامہ کو کم کر نے کی بجائے یہ افلاس کے اظہار کا ذریعہ بنا۔ ‘‘ ([3] )
یہ رسم بد جس کا انسد اد ([4] ) کسی دنیوی قوت سے نہ ہو سکا آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بر کت سےعرب بلکہ آہستہ آہستہ تمام دنیا سے اٹھ گئی۔ ارشادباری تعالٰی عَزَّاِسْمُہٗ یوں ہوا :
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ- (انعام، ع ۱۹)
اور تم اپنے بچوں کو مفلسی کے ڈرسے ہلاک نہ کروہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں ۔ ([5] )
وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْﭪ (۸) بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْۚ (۹) (تکویر)
اور جب زندہ درگور لڑکی پوچھی جائے گی کہ تو کس گناہ کے بدلے ہلاک کی گئی۔ ([6] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمادیا : اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَاتِ وَ وَأْدَ الْبَنَاتِ۔ (مشکوٰۃ، باب البر والصلۃ) اللّٰہ نے تم پر حرام فرماد یا ماؤں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ در گور کر نا۔
عورتیں جن چیزوں پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت کیا کر تی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی :
وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ (ممتحنہ، ع۲)
وہ اپنے بچوں کو ہلاک نہ کیا کریں گی۔ ([7] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے غلاموں کے آزاد کر نے کو موجب نجات فرمایا ہے چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ارشاد ہے: ’’ جو کوئی کسی مسلمان غلام کو آزاد کر تا ہے اس غلام کے ہر عضوکے مقابلہ میں اللّٰہ تعالٰی اس کا ایک عضو دوزخ کی آگ سے آزاد کر تا ہے۔ ‘‘ ([8] ) علاوہ ازیں کفارات میں جابجاغلام آزاد کر نا واجب رکھا گیا ہے۔
اسلام میں غلاموں کے حقوق کا خاص لحاظ ہے چنانچہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : تمہارے غلاموں میں جو تمہارے موافق ہو اسے کھلاؤ اس میں سے جو تم کھاتے ہواور پہناؤ اس میں سے جو تم پہنتے ہو اوران میں سے جو تمہارے موافق نہ ہو اسے بیچ دو اور خَلْقِ خدا کو عذاب نہ دو۔ ([9] )
حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کر تے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی: ’’ ابو مسعود! جان لو کہ تم کو جس قدر اس غلام پر اختیار ہے اس سے زیادہ خدا کو تم پر اختیار ہے۔ ‘‘ میں نے مڑ کر جو دیکھا تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیں نے اس کو رضا ئے خدا کے لئے آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ دیکھو! اگر تم ا یسا نہ کر تے تو دوز خ کی آگ تم کو جلاتی۔ ‘‘ ([10] )
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک عجمی غلام کو بر ابھلا کہااس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے شکا یت کر دی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ ابو ذر! تم میں جاہلیت ہے ، وہ تمہارے بھائی ہیں ، خدا نے تم کو ان پر فضیلت دی ہے، ان میں سے جو تمہارے موافق نہ ہو اسے بیچ دو، اور خلق خدا کو عذاب نہ دو۔ ‘‘ ([11] )
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دریافت کیا: ’’ یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم خادم کو کتنی بار معاف کر دیا کریں ۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخاموش رہے۔ اس نے دوسری بار دریافت کیاپھر بھی آپ خاموش رہے تیسری بار دریافت کر نے پر فرمایا کہ ہر روز ستر بار معاف کر دیا کر و۔ ([12] )
[1] مقروضوں ۔
[2] بے رحم۔
[3] تنزل و زوال رومۃ الکبری، جلد اول، باب ۱۴۔
[4] روک تھام
[5] ترجمۂکنزالایمان:اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے۔ (پ۸،الانعام:۱۵۱)۔ علمیہ
[6] ترجمۂکنزالایمان:اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر ماری گئی۔ (پ۳۰،التکویر:۸۔۹)۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع