30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
آخرکار یزید پلید کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا اور وہ بدنصیب تین برس سات مہینے تختِ حکومت پر شَیْطَنَت کرکے ۱۵ربیع الاول ۶۴ھ کو جس روز اس پلید کے حکم سے کعبۂ معظمہ کی بے حر متی ہوئی تھی ، شہر حمص ملک شام میں انتالیس برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ ہنوز قتال جاری تھا کہ یزید ناپاک کی ہلاکت کی خبر پہنچی ، حضرت ابن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ندافرمائی کہ اہل شام! تمہارا طاغوت ہلاک ہوگیا۔ یہ سن کر وہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے اور لوگ ان پرٹوٹ پڑے اور وہ گر وہِ ناحق پژوہ خائب وخاسر ہوا۔ اہل مکہ کو ان کے شر سے نجات ملی۔ اہل حجاز ، یمن وعراق وخراسان نے حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دست مبارک پر بیعت کی اورا ہل مصر و شام نے معاویہ بن یزید کے ہاتھ پر ربیع الاول ۶۴ھ میں ۔ یہ معاویہ اگرچہ یزید پلید کی اولاد سے تھا مگر آدمی نیک اور صالح تھا ، باپ کے ناپاک افعال کو براجانتا تھا ، عِنان حکومت ہاتھ میں لیتے وقت سے تادم مرگ بیمار ہی رہا اور کسی کام کی طرف نظر نہ ڈالی اور چالیس دن یا دوتین ماہ کی حکومت کے بعد اکیس سال کی عمر میں مرگیا۔ آخر وقت میں اس سے کہا گیا کہ کسی کو خلیفہ کرے اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ میں نے خلافت میں کوئی حلاوت نہیں پائی تو میں اس تلخی میں کسی دوسرے کو کیوں مبتلا کروں ۔ ([1])
معاویہ بن یزید کے انتقال کے بعد اہل مصر و شام نے بھی عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی بیعت کی پھر مروان بن حکم نے خروج کیا اور اس کو شام و مصر پر قبضہ حاصل ہوا۔ ۶۵ھ میں اس کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عبدالملک اس کا قائم مقام ہوا۔ عبد الملک کے عہد میں مختار بن عبید ثقفی نے عمر بن سعد کو بلایا ، ابن سعد کا بیٹا حفص حاضر ہوا۔ مختار نے دریافت کیا : تیراباپ کہاں ہے ؟ کہنے لگا کہ وہ خلوت نشین ہوگیا ہے ، گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ اس پر مختار نے کہاکہ اب وہ رے کی حکومت کہاں ہے جس کی چاہت میں فرزند ِرسول رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بے وفائی کی تھی ، اب کیوں اس سے دست بردار ہوکر گھرمیں بیٹھا ہے۔ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے شہادت کے روز کیوں خانہ نشین نہ ہوا۔ اس کے بعد مختار نے ابن سعد اور اس کے بیٹے اور شمرناپاک کی گردن مارنے کا حکم دیا اور ان سب کے سر کٹواکر حضرت محمد بن حنفیہ برادر حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاس بھیج دئیے اور شمر کی لاش کو گھوڑوں کے سُمُوں سے روند وادیا جس سے اس کے سینہ اور پسلی کی ہڈیاں چکنا چور ہوگئیں ۔ شمر حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے قاتلوں میں سے ہے اور ابن سعد اس لشکر کاقافلہ سالاروکماندارتھا جس نے حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر مظالم کے طوفان توڑے آج ان ظالمانِ ستم شعار و مغرور انِ نابکار کے سرتن سے جدا کرکے دشت بدشت پھرائے جارہے ہیں اور دنیا میں کوئی ان کی بیکسی پر افسوس کرنے والا نہیں ۔ ہر شخص ملامت کرتاہے اور نظرِ حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کی اس ذلت و رسوائی کی موت پرخوش ہوتاہے۔ مسلمانوں نے مختار کے اس کارنامہ پر اظہار فرح کیا اور اس کودشمنانِ امام سے بدلہ لینے پر مبارکباد دی۔ ([2]) ؎
اے ابن سعد! رے کی حکومت تو کیا ملی ظلم و جفا کی جلد ہی تجھ کو سزا ملی
اے شمر نابکار! شہیدوں کے خون کی کیسی سزا تجھے ابھی اے ناسزا ملی
اے تشنگانِ خونِ جوانانِ اہلِ بیت دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
کتوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کئے گُھورے پہ بھی نہ گور کو تمہاری جا ملی
رسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے مردودو! تم کو ذلتِ ہر دو سرا ملی
تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی
دنیا پرستو! دین سے منہ موڑ کر تمہیں دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع