30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہوسکے جتنا رولے تو اے چشم! کون روئے گا پھر شہیدوں کو
عَلٰی رَھْطٍ تَقُوْدُھُمُ الْمَنَایَا اِلٰی مُتَجَبْرٍ فِیْ مَلْکِ عَھْدِیْ ([1])
پاس ظالم کے کھینچ کر لائی موت ان بیکسوں غریبوں کو
ابن عساکرنے منہال بن عمرو سے روایت کی وہ کہتے ہیں : واللہ! میں نے بچشم خود دیکھا کہ جب سر مبارک امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو لوگ نیزے پر لئے جاتے تھے اس وقت میں دمشق میں تھا ، سرمبارک کے سامنے ایک شخص سورۂ کہف پڑھ رہا تھا جب وہ اس آیت پر پہنچا :
اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِۙ-كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا(۹) ([2])
اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے عجب تھے۔
اس وقت اللہ تعالیٰ نے سرمبارک کو گویائی دی ، بزبان فصیح فرمایا : اَعْجَبُ مِنْ اَصْحٰبِ الْکَھْفِ قَتْلِیْ وَحَمْلِیْ۔ ([3]) ’’اصحاب کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کولیے پھر نا عجیب تر ہے۔ ‘‘ اوردر حقیقت بات یہی ہے کیونکہ اصحاب کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو انکے جد کی امت نے مہمان بنا کر بلایا ، پھر بے وفائی سے پانی تک بند کردیا ، آل و اصحاب کو حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سامنے شہید کیا ، پھر خود حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو شہید کیا ، اہل بیت علیہم الرضوان کو اسیر کیا ، سر مبارک شہر شہر پھرایا۔ اصحاب کہف سالہاسال کی طویل خواب کے بعد بولے ، یہ ضرور عجیب ہے مگر سرِ مبارک کا تن سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا اس سے عجیب تر ہے۔
ابو نعیم نے بطریق ابن لہیعہ ، ابی قبیل سے روایت کی کہ حضرت امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شہادت کے بعد جب بدنصیب کوفی سرِ مبارک کو لے کر چلے اور پہلی منزل میں ایک پڑاؤ پر بیٹھ کر شربت خرما پینے لگے اس وقت ایک لوہے کا قلم نمودار ہوا اس نے خون سے یہ شعر لکھا ؎
اَ تَرْجُو اُمَّۃٌ قَتَلَتْ حُسَیْنًا شَفَاعَۃَ جَدِّہٖ یَوْمَ الْحِسَابِ([4])
یہ بھی منقول ہے کہ ایک منزل میں جب اس قافلہ نے قیام کیا وہاں ایک دَیْر تھا۔ دیر کے راہب نے ان لوگوں کو اسّی ہزاردرہم دے کر سرِمبارک کو ایک شب اپنے پاس رکھا۔ غسل دیا ، عطر لگایا ، ادب و تعظیم کے ساتھ تمام شب زیارت کرتااور روتا رہا اور رحمتِ الٰہی عزوجل کے جوانوار سرِ مبارک پر نازل ہورہے تھے ان کا مشاہدہ کرتارہا حتیٰ کہ یہی اس کے اسلام کا باعث ہو ا۔ اشقیا نے جب دراہم تقسیم کرنے کے لیے تھیلیوں کو کھولا تو دیکھا سب میں ٹھیکریاں بھری ہوئیں ہیں اور ان کے ایک طرف لکھا ہے :
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ - ([5])
خدا کو ظالموں کے کردار سے غافل نہ جانو۔
اور دوسری طرف یہ آیت مکتوب ہے :
وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷) ([6])
اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ کس کروٹ بیٹھے ہیں ([7])
[1] مجمع الزوائد ، کتاب المناقب ، باب مناقب الحسین بن علی ، الحدیث : ۱۵۱۸۱ ،
ج۹ ، ص۳۲۱ ص۷۱۰ ملتقطاً
[2] ترجمۂ کنز الایمان : کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵ ، الکہف : ۹)
[3] فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ، باب حرف الہمزۃ ، ج۱ ، ص۲۶۵
[4] المعجم الکبیر للطبرانی ، مسند الحسین بن علی۔ ۔ ۔ الخ ، الحدیث : ۲۸۷۳ ، ج۳ ، ص۱۲۳
[5] ترجمۂ کنز الایمان : اور ہرگزاللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳ ، ابرٰہیم : ۴۲)
[6] ترجمۂ کنز الایمان : اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ (پ۱۹ ، الشعرآئ : ۲۲۷)
[7] الصواعق المحرقۃ ، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت۔ ۔ ۔ الخ ، الفصل الثالث ، ص۱۹۹
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع