30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
لئے میں نے اپنے محبوب پر رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے محبوب کو ترجیح دی۔ (سنن الترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب زید بن حارثۃ ، الحدیث : ۳۸۳۹ ، ج۵ ، ص۴۴۵)
ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کے گوشے میں دامن گھسیٹتا ہوا پھررہا ہے ، بولے یہ کون شخص ہے؟ ایک آدمی نے کہا : آپ ان کو نہیں پہچانتے؟ یہ محمد بن اسامہ ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے یہ سنکر گردن جھکالی ، اور زمین پر ہاتھ مار کر کہا : اگر رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ان کو دیکھتے تو ان سے محبت فرماتے۔ (صحیح البخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر اسامۃ بن زید ، الحدیث : ۳۷۳۴ ، ج۲ ، ص۵۴۳)
صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنہ صرف آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دوستوں کی عزت کرتے تھے بلکہ آپ نے جن غلاموں کو آزاد کرکے اپنا مولیٰ (آزاد کردہ غلام) بنالیا تھا ان کے ساتھ بھی نہایت لطف و مدارات کے ساتھ پیش آتے تھے۔
ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جن غلاموں کے ناک کان کاٹ لئے گئے ہیں یا ان کو جلادیا گیا ہے ، وہ آزاد ہیں ، اور وہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مولیٰ ہیں۔ لوگ یہ سنکر ایک خواجہ سر اکو لائے جس کا نام سندر تھا ، آپ نے اس کو آزاد کردیا ، آپ کی وفات کے بعد وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے زمانہ خلافت میں آتا تو دونوں بزرگ اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرتے ، اس نے ایک بار مصر جانا چاہا تو حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوخط لکھ دیاکہ رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی وصیت کے موافق اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا۔
(المسندلامام احمد بن حنبل ، حدیث عبداللہ بن عمروبن العاص ، الحدیث : ۶۷۲۲ ، ج۲ ، ص۶۰۳)
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی اور اس کے اہل و عیال کی بیت المال سے کفالت کرتے تھے ، اور حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گورنر مصر کو لکھا تھا کہ اس کو کچھ زمین دے دی جائے ۔ (المرجع السابق)
لیکن اس روایت میں اس کے نام کی تصریح نہیں ، ممکن ہے یہ کوئی دوسرا غلام ہو۔
شوقِ زیارت ِرسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دل رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے شوق زیارت سے لبریز تھے اس لئے جب زیارت کا وقت قریب آتا تو یہ جذبہ اوربھی ابھرجاتا ، اور اس کا اظہار مقدس نغمہ سنجی کی صورت میں ہوتا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجب اپنے رفقا ء کے ساتھ مدینہ پہنچے تو سب کے سب ہم آہنگ ہوکر زبان شوق سے یہ رجز پڑھنے لگے
غدا نلقی الاحبہ محمدا وحزبہ
ہم کل اپنے دوستوں یعنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور ان کے گروہ سے ملیں گے۔
مصافحہ کی رسم سب سے پہلے ان ہی لوگوں نے ایجاد کی جو اظہار شوق و محبت کا ایک لطیف ذریعہ ہے۔
دربار نبوت کی غیر حاضری صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے نزدیک بڑا جرم تھا۔ ایک دن حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ نے پوچھا کہ ’’ تم نے کب سے رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت نہیں کی۔ ’’ بولے ، اتنے دنوں سے ‘‘۔ اس پر انھوں نے ان کو برا بھلا کہاتو بولے۔ چھوڑومیں حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں جاتا ہوں ، ان کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور اپنے اور تمھارے لئے استغفار کی درخواست کروں گا۔
(سنن الترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، الحدیث : ۳۸۰۶ ، ج۵ ، ص۴۳۱)
آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے وصال کے بعد یہی شوق تھا جو صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مزار کی طرف کھینچ لاتا تھا۔ ایک بار حضرت ابوایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُآئے اور مزار پاک پر اپنے رخسار رکھ دئیے۔ مروان نے دیکھا تو کہا ، کچھ خبر ہے ، یہ کیا کرتے ہو؟ فرمایا میں اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا ہوں۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند ابی ایوب انصاری ، الحدیث : ۲۳۶۴۶ ، ج۹ ، ص۱۴۸)
رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا دیدار ایمان کا باعث ہوتا تھا اس بنا پر صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماس کے نہایت مشتاق رہتے تھے۔ جب سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو تشنگانِ دیدار میں جن لوگوں نے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو نہیں دیکھا تھا وہ آپ کو پہچان نہ سکے لیکن جب دھوپ آئی اورحضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے آپ کے اوپر اپنی چادر کا سایہ کیا ، تو سب نے اس سایہ میں آفتاب نبوت کی دید سے اپنا ایمان تازہ کیا۔
(صحیح البخاری ، کتاب مناقب الأنصار ، باب ھجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ ، الحدیث : ۳۹۰۶ ، ج۲ ، ص۵۹۳)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع