30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
(الاستیعاب ، حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہ ، ج۱ ، ص۴۳۳)
شوقِ شہادت : حضرت عبداللہ بن جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوہ احد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ اے سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ! آؤ مل کر دعا کریں ہرایک اپنی ضرورت کے مطابق دعا کرے اور دوسرا آمین کہے۔ پھر دونوں حضرات نے ایک کونے میں جاکر دعا کی۔ اول حضرت سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعا کی۔ یااللہ! عزوجل جب کل لڑائی ہوتو میرے مقابلہ میں ایک بڑے بہادر کو مقرر فرمانا میں اس کو تیرے راستے میں قتل کروں۔ حضرت عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آمین کہی۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعا کی اے اللہ عزوجل! کل میدان جہاد میں میراایک بہادر سے مقابلہ کرا جو سخت حملہ والا ہو میں اس پر شدت سے حملہ کروں وہ بھی مجھ پر زور سے حملہ کرے اور میں بہتوں کو قتل کرکے پھر خود بھی شہید ہوجاؤں اور شہید ہونے کے بعد کافر میرے ناک کان کاٹ لیں پھر قیامت میں جب میں تیرے حضور پیش کیا جاؤں تو تو فرمائے عبداللہ !تیرے ناک کان کیوں کاٹے گئے تو میں عرض کروں یااللہ!عزوجل تیرے اور تیرے رسولصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے راستے میں کاٹے گئے پھر تو کہے کہ سچ ہے میرے ہی راستے میں کاٹے گئے ۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آمین کہی دوسرے دن لڑائی ہوئی تو دونوں حضرات کی دعائیں اسی طرح قبول ہوئیں جس طرح مانگی تھیں۔ (الاستیعاب ، باب حرف العین ، ج۳ ، ص۱۵)
قدمِ رسولصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر شہادت : جنگ احد کی ہل چل اور بدحواسی میں جب مہر رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو ہجوم کفار کے دل بادل نے گھیرلیا۔ اور اس وقت سید المحبوبینصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ کون مجھ پر جان دیتا ہے۔ تو حضرت زیاد بن سکنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچند انصاریوں کولے کر یہ خدمت ادا کرنے کے لئے بڑھے۔ ہر ایک نے جاں بازی سے لڑتے ہوئے اپنی جان فدا کردی ، مگر ایک زخم بھی رحمت عالمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو لگنے نہ دیا ، اور زیاد بن سکنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ زخموں سے چور چور ہوکر دم توڑ رہے تھے۔ رحمت عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا کہ ان کالاشہ میرے قریب لاؤ ، لوگ اٹھاکر لائے ابھی کچھ جان باقی تھی آپ نے زمین پر گھسٹ کر اپنا منہ محبوب خدا عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے قدموں پر رکھ دیا اور اسی حالت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روح پرواز کرگئی۔ سبحان اللہ! اس موت پر ہزاروں زندگیاں قربان ۔ (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ، حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ ، ج۲ ، ص۳۲۱)
تیرے قد موں پر سر ہو اور تار زندگی ٹوٹے
یہی انجام الفت ہے یہی مرنے کا حاصل ہے
اسّی زخم : حضرت انس بن نضررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے چچا تھے ، لڑتے لڑتے بہت آگے نکل گئے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے ہتھیار پھینک دیئے۔ انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا کہ یہاں تم لوگ کیا کرتے ہو؟ رسول اللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا کچھ پتانہیں ! لوگوں نے کہا اب لڑ کر کیا کریں گے؟جن کے لئے لڑتے تھے وہی نہ رہے۔ ہم نے سنا ہے کہ رحمت عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم شہید ہوگئے۔ انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سنکر تڑپ گئے اورفرمایا کہ پھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ یہ کہہ کر دشمن کی فوج میں گھس گئے اور لڑ کر شہادت پائی۔ جنگ کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو ۸۰ سے زیادہ تیر ، تلوار اور نیزہ کے زخم تھے ، کوئی شخص پہچان تک نہ سکا ان کی بہن نے انگلی دیکھ کر لاش کو پہچانا۔ (اسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ ، انس بن نضر ، ج۱ ، ص۱۹۸)
حضرت وہب بن قابس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا کارنامہ : حضرت وہب بن قابس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک صحابی ہیں ، جو کسی وقت میں مسلمان ہوئے تھے اور گاؤں میں رہتے تھے بکریاں چراتے تھے۔ اپنے بھتیجے کے ساتھ ایک رسی میں بکریاں باندھے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے ، پوچھا کہ حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کہاں تشریف لے گئے معلوم ہوا کہ احد کی لڑائی پرگئے ہوئے ہیں ، وہ بکریوں کو وہیں چھوڑ کر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاس پہنچ گئے ، اتنے میں ایک جماعت کفار کی حملہ کرتی ہوئی آئی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا جوا ن کو منتشر کردے وہ جنت میں میرا رفیق ہے ۔ حضرت وہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے زور سے تلوار چلانی شروع کی اورسب کو ہٹادیا دوسری مرتبہ پھر یہی صورت پیش آئی تیسری مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے انکو جنت کی خوشخبری دی اس کا سننا تھا کہ تلوار لیکر کفار کے جم گھٹے میں گھس گئے اور شہید ہوئے ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ میں نے وہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجیسی دلیری اور بہادری کسی لڑائی میں نہیں دیکھی اورشہید ہونے کے بعد حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو میں نے دیکھا کہ وہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرہانے کھڑے تھے اور ارشاد فرماتے تھے : اللہ عزوجل تم سے راضی ہو میں تم سے راضی ہوں ۔ اسکے بعد حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے خود اپنے دست مبارک سے دفن فرمایا باوجود یکہ اس لڑائی میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم خود بھی زخمی تھے ۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے کسی کے عمل پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا وہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عمل پر آیا میرا دل چاہتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں ان جیسا اعمال نامہ لیکر پہنچوں۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع