30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں کہ میں اس طرح ان سے بات چیت کرتا رہا اور میرا مقصود یہ تھاکہ ان لوگوں کے پاس تومد د پہنچ گئی ہے مسلمانوں کی طرف سے میری مدد بھی آجائے کہ میں بھی مدینہ میں اعلان کرکے آیا تھا۔ غرض ان سے اسی طرح میں بات کرتا رہا اور درختوں کے درمیان سے مدینہ منورہ کی طرف غور سے دیکھتا تھا کہ مجھے ایک جماعت گھوڑے سواروں کی دوڑ کر آتی ہوئی نظر آئی ان میں سب سے آگے اخرم اسدی تھے انھوں نے آتے ہی عبدالرحمن فزاری پر حملہ کیا اور عبدالرحمن بھی ان پر متوجہ ہوا۔ انھوں نے عبدالرحمن کے گھوڑے پر حملہ کیا اور پاؤں کاٹ دیئے جس سے وہ گھوڑا گرا اور عبدالرحمن نے گرتے ہوئے ان پر حملہ کردیاجس سے وہ شہید ہوگئے اور عبدالرحمن ان کے گھوڑے پر سوار ہوگیا ان کے پیچھے ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتھے انہوں نے حملہ شروع کردیا۔ عبدالرحمن نے فوراً ابوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے گھوڑے کے پاؤں پر حملہ کیا جس سے وہ گرے اور گرتے ہوئے انھوں نے عبدالرحمن پرحملہ کیا جس سے وہ قتل ہوگیا اور ابوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفوراََ اس گھوڑے پرسوار ہوگئے جو پہلے اخرم اسدی کا تھا اور اب اس پر عبدالرحمن سوارہو چکا تھا۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجھادوالسیر ، باب غزوۃ ذی قردوغیرہا ، الحدیث : ۱۸۰۷ ، ص۱۰۰۰)
مجاہدانہ جواب : قریش مکہ نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے جب جنگ بدر کی بنیاد ڈالی تو حضور سرورعالمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے صحابہ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے ارشاد فرمایا کہ دشمن لڑنے پر آمادہ ہے۔ بتاؤ تمھاری کیا رائے ہے؟ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُممیں سے مہاجرین نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ! عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم وہی کریں جس بات کا خدا عزوجل نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو حکم دیا ہے۔ ہم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ہیں۔ خدا عزوجل کی قسم !ہم ایسا نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا تھا۔
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴) (پ۶ ، المائدہ : ۲۴)
ترجمہ کنزالایمان : توآپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑوہم یہاں بیٹھے ہیں۔
یا رسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہم حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے نام پر قربان ہوجانے کو تیار ہیں۔ انصار نے عرض کیا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ! ہم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر ایمان لے آئے ہیں ۔ اس خدا عزوجل کی قسم جس نے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا ہے اگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہمیں دریامیں کودجانے کا اشارہ فرمائیں گے توہم اس میں کودجائیں گے۔ یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ! آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہم سے مشورہ کیوں طلب فرماتے ہیں ہم بے وفائی کرنے والے نہیں ہیں۔
تعالَی اللہ یہ شیوہ ہی نہیں ہے باوفاؤں کا
پیا ہے دودھ ہم لوگو ں نے غیرت والی ماؤں کا
نبی کا حکم ہو تو کود جائیں ہم سمندرمیں
جہاں کو محو کر دیں نعرہ اللہ اکبر میں
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اپنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا یہ مجاہد انہ جواب پا کر بہت خوش ہوئے۔
(مدارج النبوت ، قسم سوم ، ذکر سال دوم از ہجرت مذکورجنگ بدر ، ج۲ ، ص۸۳)
حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی د رد ناک کہانی : تین صحابہ حضرت کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بغیر کسی قوی عذر کے سستی کے باعث جنگ تبوک میں شریک نہ ہو سکے۔ حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنی سر گزشت بڑی تفصیل کے ساتھ خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ میں جنگ تبوک سے پہلے کسی لڑائی میں بھی اتنا مالدار نہیں تھا جتنا تبوک کے وقت تھا اس وقت میرے پاس خود ذاتی دو اونٹنیاں تھیں اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اونٹنیاں نہ ہوئی تھیں ۔ جنگ تبوک کے موقع پر چونکہ سفر دور کا تھا اور گرمی بھی شدید تھی اس لئے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے صاف اعلان فرمایا تھا کہ لوگ تیاری کرلیں چنانچہ مسلمانوں کی اتنی بڑی جماعت حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ہوگئی کہ رجسٹر میں ان کا نام بھی لکھنا دشوار تھا اور مجمع کی کثرت کی وجہ سے کوئی شخص اگر چھپنا چاہتا کہ میں نہ جاؤں اور پتا نہ چلے تو ہو سکتا تھا۔ میں بھی سامان سفر کی تیاری کا ارادہ صبح ہی کرتا مگر شام ہوجاتی اور کسی قسم کی تیاری کی نوبت نہ آتی۔ میں اپنے دل میں خیال کرتا کہ مجھے وسعت حاصل ہے پختہ ارادہ کروں گا تیاری فوراًہوجائے گی۔
اسی طرح دن گزرتے گئے حتی کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم روانہ بھی ہوگئے اور مسلمان آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ساتھ تھے مگر میرا سامان سفر تیار نہ ہو ا۔ پھر مجھے یہ خیال رہا کہ ایک دو روز میں تیار ہو کر لشکر سے جاملوں گا۔ اس طرح آج کل پرٹالتا رہا حتی کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور مسلمان تبوک کو روانہ ہوگئے۔ اس وقت میں نے کوشش بھی کی مگرسامان نہ ہوسکا۔ اب جب مدینہ منورہ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں تو صرف وہی لوگ ملتے ہیں جن کے اوپر نفاق کابدنماداغ لگا ہو ا تھا یا معذور تھے۔ ادھر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے تبوک پہنچ کردریافت فرمایا کہ کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نظر نہیں پڑتے کیا بات ہوئی؟ ایک صاحب نے عرض کیا :
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع