30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
عاشقِ مدینہ کا مدینے میں اَڑْھائی ماہ قیام
عاشقِ مدینہ امیرِ اہلِ سنّت نے1980کے سفرِ مدینہ میں شَوَّال شریف سے ذوالحج شریف کےا ٓخر یا درمیان تک تقریباً اڑھائی ماہ اپنی زندگی کے اَنْمول ترین لَمْحات فضائے عرب میں گزارنے کے بعد جب مدینۂ پاک سے جُداہونے لگےتوآپ کےلئے وہ وقت بہت بڑے سانحے(یعنی حادثے) سے کم نہ تھا ، آپ مدینہ ٔ پاک کی جُدائی میں بے حدغمگین تھے اور غم کیسے نہ ہو،ایسا دِل کَشْ و حَسِین مَنْظر نگاہوں سے اوجھل ہوا چاہتا ہے،مدینۂ پاک سے کسی سچےعاشقِ رسول کی ظاہری جُدائی آسان نہیں ، جب مدینہ ٔ پاک سے جُدائی کا وقت قریب آتا ہے تو عاشقوں کا کلیجہ منہ کو آجاتاہے، وہ دَر و دیوار، وہ مسجدِ نبوی اور وہ سبز گنبد اور مینار چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہتا ہے بلکہ دل کرتا ہے کہ یہیں ایمان و عافیت کے ساتھ جنتُ البقیع میں خیر سے دوگز زمین مِل جائے اور زندگی کی حسرت پوری ہوجائے۔۔۔
طیبہ سے لوٹنا کسی عاشق سے پوچھیئے ایسا لگے کہ روح بدن سے گزر گئی
ایک اورشاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے:
دِل تڑپ جائے گا اے زائرِ بَطْحا تیرا تیری جس وقت مدینے سے جُدائی ہوگی
مَہْجورِ مدینہ(یعنی مدینے سے جُداہونے والے)کا حال
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: مدینۂ منوّرہ سے چلتے وقت زائرین کا جو حال ہوتا ہے وہ نہ پوچھو، مدینے کے در و دیوار کا فراق (یعنی جُدا ہونا)ستاتاہے ۔ میں نے مسجدِ نبوی شریف کی چوکھٹ سے لپٹ کر لوگوں کو روتے دیکھا ہے ۔
بدن سے جان نکلتی ہے آہ سینہ سے ترے فدائی نکلتے ہیں جب مدینہ سے
فقیر نے تیسرے حج پر رخصت کے وقت مدینے کے درو دیوار سے عرض کیا تھا :
جا رہا ہے اب ہمارا قافلہ اے در و دیوارِ شہرِ مصطفےٰ
یاد تیری جس گھڑی بھی آئے گی ہے یقیں دل کو بہت تڑپائے گی
(مراٰۃ المناجیح، 2/506)
کلام اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
عاشقِ مدینہ، امیرِ اہلِ سنّت غمِ مدینہ میں روتے رہتے تھے۔ اِنہی دِنوں آپ نے مدینہ مُنَوَّرہ میں اپنے غمزدہ دل کے جذبات کا اظہار اپنے شفیق و مہربان آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ ِ بے کس پناہ میں عین سُنہری جالیوں کے سامنے روتے روتے اشعار کی صورت میں کیا ۔تقریباً نِصْف صدی (یعنی پچاس سال) ہونے والےہیں ،یہ کلام اپنے اندر ایسا دَرداور سوز و رِقَّت رکھتاہے کہ اَب بھی اگر کوئی پڑھتا ہے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔ آپ بھی اِس الوداع کے اشعار پڑھئے:
آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا اَلوَداع آہ شاہِ مدینہ
آہ اب وقتِ رخصت ہے آیا اَلوَداع آہ شاہِ مدینہ
صدمۂ ہِجْر کیسے سَہوں گا الوداع آہ شاہِ مدینہ
بے قراری بڑھی جا رہی ہے ہِجْر کی اب گھڑی آ رہی ہے
دل ہوا جاتا ہے پارہ پارہ الوداع آہ شاہِ مدینہ
کس طرح شوق سے میں چلا تھا دل کا غُنچہ خوشی سے کِھلا تھا
آہ! اب چُھوٹتا ہے مدینہ الوداع آہ شاہِ مدینہ
کُوئے جاناں کی رنگیں فَضاؤ! اے مُعَطَّر مُعَنبر ہواؤ!
لو سلام آخِری اب ہمارا الوداع آہ شاہِ مدینہ
کاش! قسمت مِرا ساتھ دیتی موت بھی یاوَری میری کرتی
جان قدموں پہ قربان کرتا الوداع آہ شاہِ مدینہ
سوزِ اُلفت سے جلتا رہوں میں عشق میں تیرے گُھلتا رہوں میں
چاہے دیوانہ سمجھے زمانہ الوداع آہ شاہِ مدینہ
میں جہاں بھی رہوں میرے آقا ہو نظر میں مدینے کا جلوہ
اِلتجا میری مقبول فرما الوداع آہ شاہِ مدینہ
کچھ نہ حُسنِ عمل کر سکا ہوں نَذر چند اَشک میں کر رہا ہوں
بس یِہی ہے مِرا کُل اَثاثہ الوداع آہ شاہِ مدینہ
آنکھ سے اب ہوا خون جاری روح پر بھی ہوا رنج طاری
جلد عطارؔ کو پھر بلانا الوداع آہ شاہِ مدینہ
(وسائلِ بخشش،ص373)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
الوداعی کلام کی مقبولیت
بارگاہِ رسالت میں اپنے عاشقِ صادق کی یہ الوداع قبول ہوگئی ،وہ اس طرح کہ جب عاشقِ مدینہ ، امیرِ اہلِ سنّت نے یہ الوادع لکھی تو ایک عاشقِ رسول کو خواب میں دیدارِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نصیب ہوا جیساکہ
بابُ الاسلام (سندھ) کے مشہور شہر حیدرآباد کے جوان مُبَلِّغِ دعوت اسلامی عبدُ القادر عطاری نیکی کی دعوت عام کرنے میں مصروف رہتے ، دینی کام کا اس قدر جذبہ تھا کہ روزانہ مختلف مساجد میں جاجاکر فیضانِ سنت سے6درس دیا کرتے۔ ظہر میں تودو درس دیتے، ایک 1:30بجے والی نماز میں اور،دوسرا 2:00بجے والی جماعت ِظہر کے بعد ۔انہیں رمضانُ المبارک 1408 میں عمرہ کی سعادت حاصِل ہوئی، اُسی رمضانُ المبارک کے جمعۃُ الوداع کے دِن عین جوانی میں انتقال فرماگئے۔ان کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ ایک بار عبدُ القادر بھائی کو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی، سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: الیاس قادری کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ جو تم نے ’’الوداع تاجدارِ مدینہ‘‘والا قصیدہ لکھا ہے، وہ ہمیں بہت پسند آیا ہے اور کہنا کہ اَب کی بار جب مدینے آؤ تو کوئی نئی ’’الوداع‘‘ لکھنا اور ممکن نہ ہو تو وہی الوداع سنا دینا۔
سُنہریوں جالیوں کے سامنے آخِری حاضری
جب وہ پُردَردلمحات آئے کہ اب مدینۂ طیّبہ سے جُدا ہونا ہی پڑے گا ، امیرِ اہلِ سنّت بارگاہِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اَلوَادعی حاضری اور گویا واپسی کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہونے لگے تو دل غم سے چُور چور تھا۔ قدم اُٹھ نہیں رہے تھے اُٹھائے جا رہے تھے ۔ آپ پر آخری حاضری کے لیے روضۂ انور کی جانب بڑھتے ہوئے ایسی دیوانگی بھری کیفیت طاری تھی کہ سامنے آنے والے درودیوار کو بے اختیار چوم لیتے،یہاں تک کہ پھولوں، پودوں اور پَتّوں کو بھی چومتے۔اِسی کَیْف و مَسْتی کے عالَم میں جب آپ ایک پودے کو چومنے جُھکے تواُس کےساتھ لگےایک خارِمدینہ( یعنی مدینے کے کانٹے) نے گویا آگے بڑھ کر آپ کو چُٹکی بھر لی اور آنکھ کے پپوٹے پر لگ گیا اور ذرا سا خون اُبھرا۔تازہ زخمِ مدینہ لئے مسجدِ نبوی شریف میں داخل ہوئے اور بے قراری کے عالَم میں الوداعی سلام عرض کرنے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئےاور خوب روروکر دَبے انداز میں الوداعی سلام و کلام پیش کیا۔الوداعی سلام اور گویاواپسی کی اجازت لےکر اُلٹے قدموں لوٹے۔جی! اُلٹے قدموں کیونکہ یہ وہ پاک بارگاہ ہے جہاں پیٹھ کرنا بھی عاشقِ رسول کےلئے بے اَدَبی ہے۔ آپ اسی غم و صدمے سے روتے روتے باہر آرہے تھے ،زمانۂ حج تھا ، دنیا بھر سے حُجّاج ِ کرام مدینۂ پاک میں حاضر ہورہے تھے ، لوگ اس عاشقِ مدینہ کو دیکھ رہے تھے کہ نجانے یہ کیوں رو رہا ہے ،اِتنے میں آگے بڑھ کر ایک ہم وطن شخص نے پوچھ ہی لیا:بھائی صاحب! کیا ہوا؟آپ اتنا کیوں رورہے ہو؟ عاشقِ صادِق کے دِل پر یہ سوال ’’زخم پر نمک سے کم نہ تھا ‘‘ یہ وہ زخم تھا جو سرکی آنکھوں سے نہیں دل کی آنکھوں سےدِکھانے والاتھاعاشقِ مدینہ اپنے دل کی حالت اُسے کیسے دکھائیں اور بتائیں،اس کےسوال کا جواب آنکھوں کی زبان(یعنی آنسوؤں )سے دینے والاتھا،آپ نے روتے روتے جواب دیا:میں مدینے سے جا رہا ہوں۔ عشقِ مدینہ اور عشقِ شاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی لذّت سے ناواقف کو اِس لذت کا اندازہ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ جس نے بھربھر کےعشقِ رسول کے جام پئے ہوں، اُس میں اور جس نے کبھی ایسا پڑھا،دیکھا یا سنا نہ ہواُس کی کیفیت میں زمین وآسمان سے بھی زیادہ فرق ہوتاہے۔ عاشقِ مدینہ کےلئے یہ وقت دل پر گرنے والے صدموں کے پہاڑ جیسا تھا، اس بات کوایک شاعر نے بڑے پیار ے انداز میں بیان کیا ہے:
یہ تو طیبہ کی مَحبّت کا اثر ہے ورنہ کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ
تم جانہیں رہے ،آرہے ہو
بارگاہِ رسالت سے رُخصت ہوکر عاشقِ مدینہ اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے،مُریدمیں پائی جانے والی اچھی عادات پیرومرشد کی بدولت حاصل ہوتی ہیں ،عاشقِ مدینہ امیرِاہلِ سنّت کو غمِ مدینہ کی سوغات بھی پیرو مرشد کی بارگاہ ہی سے ملی توعاشقِ مدینہ اپنے غم و اَلَم کے مَداوے کےلئے روتے،آنکھیں مَلتے، لَڑْکھڑاتے سیّدی و مرشدی،شیخُ الْعَرَب و العَجَم ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت،قطبِ مدینہ الحاج ضِیاء ُالدّین مَدَنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے آستانۂ عالیہ پر پہنچے اورپیرومرشد کی گود میں سررکھ کر رونے لگے ۔ اللہ والے عاشقِ مدینہ کے دل کی کیفیت کو جانتے ہیں اوروہی اس زخم پر مرہم رکھ سکتے ہیں ۔سیدی قطبِ مدینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے مُرید امیرِاہلِ سنّت کے غمزدہ دل کا علاج کردیا:
ہوں ضِیاء الدِّین کا ادنیٰ گدا
میرے مرشِد کا سخی دربار ہے
وہ ایسے کہ جب سیدی قطبِ مدینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آپ سے پوچھا کہ کیاہوا؟آپ نے عرض کی:حضور ! آج میری مدینے شریف سے رخصتی ہے۔حضرت نے شفقت کا ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ”آپ مدینے سے جانہیں رہے بلکہ آرہے ہیں۔“
غم و اَلم میں ڈوبی اُس کیفیت میں عاشقِ مدینہ فوراً سمجھ نہ سکے کہ پیرومرشد کے اِس فرمانِ عالی شان کے اندر کیا کیاراز چُھپے ہیں چونکہ ولی ِ کامل کی زبان مبارک سے نکلا ہےاور یقیناًبڑوں کی باتیں بڑی ہوتی ہیں ،پھراس 1980 کے سفرِ مدینہ کے بعد سے تاحال 2024تک دسیوں بار عاشقِ مدینہ امیرِ اہلِ سنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کوحاضریِ مدینہ کے مُژدے (یعنی خوشخبریاں )ملے۔پیرومرشد کے اِن مبارک الفاظ ”آپ مدینے سے جانہیں رہے بلکہ آرہے ہیں۔“ کا مطلب یہ تھا ۔ امیرِ اہلِ سنّت اپنے پیرو مرشد کے اس مبارک جملے کو اشعار میں یوں بیان کرتے ہیں:
مُرشِدی نے کہا، تُو نہیں جارہا بلکہ ہے آرہا میں مدینے میں ہوں
1 … 1980 کے سفرِمدینہ میں یہ کلام لکھنے کے بعد سے اب 2024 تک اس کلام میں کچھ ضروری تبدیلی کی گئی ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع