30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ساتھ )تمام سلسلوں کی اجازت و خلافت اور سندِحدیث بھی عطا فرمائی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ، باب بیعت وخلافت ، ج ۱ ، ص ۳۹) حالانکہ حضرت شاہ آلِ رسول قُدِّسَ سِرُّہُ خلافت و اجازت کے معاملے میں بڑے محتاط تھے ۔ مگر جب اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت کو مرید ہوتے ہی جملہ سلاسل کی اجازت ملی تو خانقاہ کے ایک حاضر باش سے نہ رہا گیا۔ عرْض کی : حضور! آپ کے خاندان میں تو خلافت بڑی ریاضت اور مجاہدے کے بعد دی جاتی ہے ۔ ان کو آپ نے فوراً خلافت عطا فرمادی۔ حضرت شاہ آلِ رسول قُدِّسَ سِرُّہُ نے اس شخص سے ارشاد فرمایا : لوگ گندے دل اور نفس لے کر آتے ہیں، ان کی صفائی پر خاصا وقت لگتا ہے مگر یہ پاکیزگی نفس کے ساتھ آئے تھے ۔ صرف نسبت کی ضَرورت تھی ۔وہ ہم نے عطا کردی۔ پھر حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا، مجھے مدت سے ایک فکر پریشان کئے ہوئے تھی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ وہ آج دور ہوگئی۔ قِیامت میں جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ پوچھے گا کہ آلِ رسول ہمارے لئے کیا لایا ہے ؟ تو میں اپنے مرید اَحمد رضا خان کو پیش کردوں گا۔ پھر آپ قُدِّسَ سِرُّہُ نے اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت کو وہ تمام اعمال واشغال عطا فرمادئيے ۔ جو خانوادہ بَرَکاتیہ میں سینہ در سینہ چلے آرہے ہیں۔ (انوارِ رضا، ص ۳۷۸ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ! اولیائے کرام و مشائخ عظام کی نگاہِ ولایت کے سامنے مرید کا ظاہر بھی ہوتا ہے اور باطن بھی۔ پیر اپنے مرید کو اس کے ظاہر یا باطن کی بنا پر فیض سے نوازتے ہیں۔ لہٰذا اگر پیر کسی مرید کو نوازیں تو اس سے حسد کرنے کے بجائے اس کی محبت کو سینے میں بساتے ہوئے اپنی کوتاہی پر نظر کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ حضرت سیدنا امام عبد الوہاب شعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی (متوفی ۹۷۳ھ) ارشاد فرماتے ہیں کہمرید پر لازم ہے کہ جب اس کا مرشِد اس کے پیر بھائیوں میں سے کسی ایک کو اس سے آگے بڑھادے (یا کوئی منصب عطا کرے ) تو وہ اپنے مرشِد کے اَدَب کی وجہ سے اپنے اس پیر بھائی کی خدمت(اور اطاعت) کرے اور حَسَد ہر گز نہ کرے ۔ ورنہ اس کے جمے ہوئے پاؤں پھسل جائیں گے او راسے بڑا نقصان پیش آئے گا۔لیکن اگر کوئی مرید اپنے پیربھائیوں سے آگے بڑھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مرشِد کی خوب اطاعت کرے اور اپنے آپ کو ایسی صفات سے آراستہ کرلے جن کے ذریعہ وہ آگے بڑھ جانے کا مستحق ہوجائے اور اس وقت مرشِد بھی اسے اسی پیر بھائی کی طرح دوسرے پیر بھائیوں سے آگے بڑھادے گاکیونکہ مرشِد تو مریدوں کا حاکم اور ان کے درمیان عدل کرنے والا ہوتا ہے اور بہت کم ہے کہ کوئی مرید اس مَرَض سے بچ جائے ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنی پناہ میں رکھے ۔ (الانوار القدسیہ، الجزء الثانی، ص ۲۹)
۱۵ رمضان المبارَک ۷۸۷ھ بمطابق10 ستمبر 1357 ء کو حضرت شَیخ الاسلام خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی پر اچانک بیماری کا غلبہ ہوا تو لوگوں نے عرض کی : مشائخ اپنے وصال کے وقت کسی ایک کو ممتاز قرار دے کر اپنا جانشین مقرر فرماتے ہیں، آپ بھی اپنا کوئی جانشین مقرر فرما دیجئے ۔حضرت شَیخ الاسلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا : اچھا مستحق لوگوں کے نام لکھ کر لاؤ۔ مولانا زین الدین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالمَتِین کو یہ اَہَم ذمہ داری سونپی گئی جو یقیناً ایک اہم شخصیت ہوں گے ۔ چنانچہ انہوں نے دیگر عمر رسیدہ و پختہ کار مریدوں کے باہمی مشورہ سے ایک فہرست تیار کرکے پیش کی مگر اس میں آپ کے مرید خاص حضرت گیسو دراز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کا نام شامل نہ کیا شاید اس لیے کہ وہ ابھی ان کی نسبت کم عمر تھے ۔چونکہ حضرت شَیخ الاسلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نگاہِ باطن سے وہ کچھ ملاحظہ فرمارہے تھے جن سے یہ لوگ بے خبر تھے ۔ لہٰذا آپ نے فہرست دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تم کن لوگوں کے نام لکھ لائے ہو؟ ان سب سے کہہ دو خلافت کا بار سنبھالنا ہر شخص کا کام نہیں۔ اپنے اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کریں۔
غور طلب بات ہے کہ اس فہرست میں کس قدر غور و خوض کے بعد اَہم ترین اور بظاہر باصلاحیت شخصیتوں کو چنا گیا ہوگا۔ مگر نگاہِ مرشِد کے اَسرار کوسمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔اس لیے مولانا زین الدین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالمَتِیننے اسی فہرست کو مختصر کرکے دوبارہ آپ کی بارگاہ میں پیش کر دیا، مگر اب بھی اس فہرست میں حضرت گیسو دراز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کا نام نہ تھا۔
تو شَیخ الاسلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا کہ سَیِّد محمد حضرت خواجہ گیسُو دراز کا نام تم نے نہیں لکھا۔حالانکہ وہی تو اس بارِگراں کو اٹھا نے کی اَہلیت رکھتے ہیں .یہ سن کر سب تھرتھر کانپنے لگے ۔اب جب حضرت خواجہ گیسو دراز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کا نام بھی فہرست میں لکھ کر حاضر ہوئے تو حضرت شَیخ الاسلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فوراً اس نام پر حکْم صادِر فرمادیا۔اس وقت حضرت گیسو دراز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کی عمر 36 سال سے کچھ زیادہ نہ تھی۔(آدابِ مرشِد کامل، ص ۵۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرت سیدنا گیسو دراز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کو یہ مرتبہ ایسے ہی نہ ملا بلکہ یاد رکھیے کہ انہوں نے کبھی اپنے مرشد کے فرمان سے روگردانی نہ کی اور نہ کبھی اپنے مرشد کے فرمان کو عقل کے ترازو میں تولنے کی کوشش کی۔ چنانچہ،
ملفوظات اعلیٰ حضرت (مکمل چار حصے ) صَفْحَہ 298 پر ہے : حضرت سیدنا گیسو دراز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ ایک بار سر راہ بیٹھے تھے (کہ) حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی سواری نکلی۔ اِنہوں نے اٹھ کر زانوئے مبارک پر بوسہ دیا ۔حضرت خواجہ نے فرمایا : سَیِّد فرو ترک! (یعنی) سید اور نیچے بوسہ دو۔ اِنہوں نے پائے مبارک پر بوسہ لیا۔ فرمایا : سَیِّد فرو ترک! اِنہوں نے گھوڑے کے سُم پر بوسہ دیا ۔ ایک گیسو کہ رِکاب مبارک میں اُلجھ گیا تھا وہیں اُلجھا رہا اور رِکاب سے سُم تک بڑھ گیا۔ حضرت نے فرمایا : سَیِّد فرو ترک!اِنہوں نے ہٹ کر زمین پربوسہ دیا۔ گیسو رِکاب مبارک سے جدا کر کے حضرت تشریف لے گئے ۔
لوگوں کو تعجب ہوا کہ ایسے جلیل سید (اور)اتنے بڑے عالم نے زانو پر بوسہ دیا اور حضرت راضی نہ ہوئے اور نیچے بوسہ دینے کو حکم فرمایا، اِنہوں نے پائے مبارک کو بوسہ دیا اور نیچے کو حکم فرمایا ، گھوڑے کے سم پر بوسہ دیا اور نیچے کو حکم فرمایا یہاں تک کہ زمین پر بوسہ دیا۔ یہ اعتراض حضرت سید گیسو دراز نے سنا(تو) فرمایا : لوگ نہیں جانتے کہ میرے شیخ نے ان چار بوسوں میں کیا عطا فرما دیا؟جب میں نے زانوئے مبارک پر بوسہ دیا، عالَمِ ناسُوْت
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع