30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
نکاح و طلاق
عیسائیت کی تعلیم یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو سِوائے بدکاری کے کسی اور وجہ سے طلاق نہیں دے سکتا اگر دے گا تو زنا کروانے کا مجرم ٹھہرے گا، نیز کوئی دوسرا عیسائی اس چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح نہیں کر سکتا اور اگر کرے گا تو زانی ہوگا۔خلاصہ یہ ہوا کہ عیسائی مذہب میں بیوی کو طلاق دینے کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ بیوی زانیہ ہو، اس کے سِوا خواہ کتنی ہی نا اتفاقی ہو یا خاوند بڑے سے بڑا ظالم ہو یا پھر بیوی کیسی ہی ظالمہ ہو حتّٰی کہ بیوی کے ذریعے خاوند کی جان کو اندیشہ بھی ہو مگر وہ اُسے چھوڑ نہیں سکتا اگر چھوڑے گا تو زنا کرانے کا مجرم ٹھہرے گا۔ حرام کاری کے باعث چھوڑی ہوئی عورت سے دوسرا عیسائی نکاح کرسکتا ہے اور اسے آباد بھی کر سکتا ہے مگر کسی اور وجہ سے چھوڑی ہوئی عورت سے کوئی نکاح نہیں کر سکتا وہ یونہی دھکے کھاتی پھرے، اگر کوئی اس سے نکاح کرے گا تو زانی ٹھہرے گا۔اس قانون کی خرابی کی وجہ سے یورپی ممالک میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اس کے مقابلے میں اسلامی قانون یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے دیکھ بھال کر اچھی جگہ نکاح کیا جائے اور اس کے لئے نیک لڑکی اور نیک لڑکے کو منتخب کیا جائے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے: (وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-) (پ۱۸،النور:۳۲) ”ترجَمۂ کنز العرفان: اور تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔“پھر اگر خاوند بیوی میں باہم جھگڑا ہو جائے تو ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلے میں ایک منصف خاوند کی طرف سے اور ایک بیوی کی طرف سے مقرر کیا جائے اور پھر جہاں تک ہوسکے میاں بیوی میں ملا پ کر وانے کی کوشش کی جائے چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ- (پ۵،النساء:۳۵)
ترجَمۂ کنز العرفان:اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک منصف عورت کے گھر والوں کی طرف سے (بھیجو) یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔
اگر میاں بیوی میں صلح کی کوئی صورت نہ ہو سکے تو خاوند پر لازم ہے کہ بیوی کا مہراورعدت کے زمانے کا سارا خرچہ دےکر اسے اچھے طریقے سے طلاق دے دے چنانچہ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:( فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع