30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
امام نسائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ مصعب بن ثابت حدیث میں قوی نہیں ۔اورامام ذہبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے’’مِیْزَانُ الْاِعْتَدَالِ ([1]) ‘‘میں فرمایاکہ حضرت سیدنا زبیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکہتے ہیں کہ حضرت مصعب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے زمانہ کے سب سے بڑے عابد تھے۔کہا گیا ہے کہ انہوں نے صوم الدھر کی سنت ادا کی،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہروزانہ ایک ہزاررکعات ادافرماتے تھے یہاں تک کہ عبادت کی وجہ سے سوکھ گئے (یعنی کمزورہوگئے) تھے۔
مَیں کہتا ہوں : گذشتہ حدیثِ پاک (امام ذہبی کے)اس بیان کی تائیدکرتی ہے۔محمد بن منکدر سے یہ حدیثِ پاک روایت کرنے میں مصعب منفرد نہیں بلکہ حضرت ہشام بن عُروَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ([2]) نے بھی ان سے حدیثِ پاک لینے میں آپ کی متا بعت کی ہے اورہشام صحیحین کے راویوں میں سے ہیں ۔ امام دارقطنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ([3])(385-306ھ)نے اس حدیثِ پاک کو اپنی سنن میں اس سندسے روایت کیا ہے کہ حسن بن احمد بن سعد رھاوی نے عباس بن عبیداللہ بن یحییٰ رھاوی سے ، انہوں نے محمد بن یزید بن سنا ن سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ہشام بن عروہ سے ، انہوں نے محمد بن منکدر سے اور انہوں نے حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے اسی حدیثِ پاک کو روایت کیا۔
امام دارقطنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ابنِ صفوان سے بھی اس حدیثِ پاک کو روایت کیااس کی سندیوں ہے کہ ابنِ صفوان نے محمد بن عثمان سے انہوں نے اپنے چچا قاسم سے اورانہوں نے عائذبن حبیب سے یہ حدیث پاک روایت کی ۔
اسی طرح امام دارِقطنی نے ابوبکرالابہری سے بھی اس کوروایت کیااس کی سندیوں ہے ابوبکرالابہری نے محمد بن خریم سے ، انہوں نے ہشام بن عمار سے ، انہوں نے سعید بن یحییٰ سے،اور ان دونوں نے حضرت ہشام بن عروہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے یہ حدیثِ پاک روایت کی ۔
امام نسائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکہتے ہیں کہ محمد بن یزید بن سنا ن قوی نہیں ۔
امام دار قطنیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایاکہ وہ ضعیف ہے جبکہ امام ابو حاتم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ([4])(327-240ھ) فرماتے ہیں کہ وہ ایک نیک آدمی تھا۔
امام ذہبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ’’اَلْمُغْنِیْ ([5]) ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ عائذ بن حبیب ’’شیعہ‘‘تھا اس کی بہت سی روایات منکرہیں لیکن بعض اسناد کا بعض سے ملا ہونا قوت کا فائدہ دیتا ہے شایداسی وجہ سے امام ابو داؤد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس روایت پر سکوت اختیارکیا۔
پس جان لیجئے کہ مصعب حدیث میں کچھ ضعیف تھا ۔جب اس کے ساتھ اسی کی مثل روایت مل جائے تو اس حدیث پرحَسن کا حکم لگایا جائے گا اور جب اس کے ساتھ کسی دوسرے صحابی سے روایت لینے میں تیسرا اور چوتھا متابع اور صحیح شاہد مل گیا تو پھر اس حدیث کے درجۂ صحیح تک پہنچنے میں کوئی شک نہیں رہتا۔اسی لئے امام ابوداؤد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس حدیثِ پاک خصوصاً آخری سندسے استدلال کیا جس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور ان میں سے کسی پر کوئی طعن نہیں کیا گیا ۔امام ابن حبان علیہ رحمۃ اللہ المنّان (354-270ھ) نے سعید بن یحییٰ کو ثقہ راویوں میں ذکر کیا ہے پس حضرت سیدناحارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی حدیث کی طرح حضرت سیدناجابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی حدیث کا صحیح ہونا بھی ثابت ہوگیا ۔وللہ الحمد(اور تمام خوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے ہیں )۔
علامہ خطابی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (388-319ھ)’’ مَعَالِمُ السُّنَنِ ([6]) ‘‘ میں اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ’’ مَیں فقہاء میں سے کسی فَقیہہ کو نہیں جانتا جس نے چورکوقتل کرنا جائز قرار دیاہو اگر چہ اس نے بار بار چوری کی ہو۔ لہذا اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ حضورنبیٔ غیب دان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فیصلہ سے یہی معلوم ہو تا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جانتے تھے کہ وہ بار باریہ برافعل کرے گا۔ اور اس بات پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے وحی نازل
[1]۔۔۔ فی نقدالرجال لشمس الدین ابی عبداللہ محمد بن احمد الذھبی الحافظ (المتوفی ۷۴۸)(کشف الظنون،ج۲،ص۱۹۱۷)
[2]۔۔۔ امام الحدیث ابو المنذر ہشام بن عروہ بن الزبیر بن العوام ، القرشی الأسدی ، التا بعی آپ علیہ الرحمہ مدینۃ المنورہ میں پیدا ہوئے اور وہیں زندگی گزاری اور مدینۃ المنورہ ہی میں وصال فرمایا ۔ آپ سے 400سو احادیث مروی ہیں ۔(الاعلام للزرکلی،ج۸،ص۸۷)
[3]۔۔۔ الحافظ ، المحدث ، الفقیہہ ، ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مھدی البغدادی ، الدار قطنی ، الشافعی ،آپ علیہ الرحمہ ذی القعدہ میں دار قطن میں پیدا ہوئے اور ذی القعدہ میں ہی بغداد میں وفات پائی ، اورحضرت معروف کرخی رحمۃاللہ علیہ کے قریب دفن کئے گئے آپ کی چند مشہور کتب یہ ہیں :المؤتلف والمختلف فی اسماء الرجال ، کتاب السنن، الضعفاء ، اخبار عمرو بن عبید۔(معجم المؤلفین،ج۲،ص۴۸۰۔الاعلام للزرکلی،ج۴،ص۳۱۴)
[4]۔۔۔ حافظ الحدیث ، المفسر ، المحدث ، الفقیہہ ، ابو محمد عبدالرحمن بن محمد ابی حاتم بن ادریس التمیمی ، الحنظلی ، الرازی آپ کی وفات محرم الحرام کے مہینے مقام الریّ میں ہوئی ۔ آپ کی چند مشہور کتب یہ ہیں : تفسیر القرآن الکریم ، الرد علی الجھیمہ ،آداب الشافعی ومناقبہ ، الفوائد الکبری ، المراسیل وغیرہ۔ (معجم المؤلفین،ج۲،ص۱۰۹۔ الاعلام للزرکلی،ج۳،ص۳۲۴)
[5]۔۔۔ الحافظ ، المحدث ، الفقیہہ ، ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مھدی البغدادی ، الدار قطنی ، الشافعی ،آپ علیہ الرحمہ ذی القعدہ میں دار قطن میں پیدا ہوئے اور ذی القعدہ میں ہی بغداد میں وفات پائی ، اورحضرت معروف کرخی رحمۃاللہ علیہ کے قریب دفن کئے گئے آپ کی چند مشہور کتب یہ ہیں :المؤتلف والمختلف فی اسماء الرجال ، کتاب السنن، الضعفاء ، اخبار عمرو بن عبید۔(معجم المؤلفین،ج۲،ص۴۸۰۔الاعلام للزرکلی،ج۴،ص۳۱۴)
[6]۔۔۔ فی شرح سنن ابی داؤد لاحمد بن محمد بن ابراھیم الخطابی( المتوفی ۳۸۸ھ)(کشف الظنون،ج۲،ص۱۰۰۵)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع