30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہم اسی کتاب کی ابتداء میں ’’تحقیق کرامات‘‘کے عنوان کے تحت میں یہ تحریر کرچکے ہیں کہ کرامت کی پچیس قسموں میں سے مہلکات کا اثر نہ کرنا یہ بھی کرامت کی ایک بہت ہی شاندار قسم ہے چنانچہ مذکورۂ بالاروایت اس کی بہترین مثال ہے ۔
حضرت خیثمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاس شراب سے بھری ہوئی مشک لے کر آیا تو آپ نے یہ دعا مانگی کہ یااللہ! عَزَّ وَجَلَّ اس کو شہد بنادے ۔ تھوڑی دیر بعد جب لوگوں نے دیکھاتو وہ مشک شہد سے بھری ہوئی تھی ۔([1]) (حجۃ اللہ ج۲، ص۸۶۷وطبری ج۴ص۴)
ایک مرتبہ لوگوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے شکایت کی کہ اے امیر لشکر! آپ کی فوج میں کچھ لوگ شراب پیتے ہیں۔آپ نے فوراً ہی تلاشی لینے کاحکم دے دیا۔ تلاشی لینے والوں نے ایک سپاہی کے پاس سے شراب کی ایک مشک برآمد کی لیکن جب یہ مشک آپ کے سامنے پیش کی گئی توآپ نے بارگاہ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں یہ دعا مانگی کہ ’’یااللہ! عَزَّ وَجَلَّ اس کو سرکہ بنادے‘‘ چنانچہ جب لوگوں نے مشک کا منہ کھول کر دیکھاتوواقعی اس میں سے سرکہ نکلا۔یہ دیکھ کر مشک والا سپاہی کہنے لگا : خدا کی قسم ! یہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی کرامت ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ میں نے اس مشک میں شراب بھر رکھی تھی۔([2]) (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲، ص۸۶۷)
کرامت کی پچیس قسموں میں سے ’’قلب ماہیت‘‘یعنی کسی چیز کی حقیقت کوبدل دینابھی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں روایات کرامت کی اسی قسم کی مثالیں ہیں کہ اولیاء اللہ جب بھی چاہتے ہیں اپنی روحانی طاقت یا اپنی مستجاب دعاؤں کی بدولت ایک چیز کی حقیقت کو بدل کر اس کو دوسری چیز بنا دیتے ہیں ۔ اولیاء اللہ کی کرامتوں کے تذکروں میں اس کی ہزاروں مثالیں ملیں گی۔
(۱۵)حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
یہ امیر المؤمنین حضرت عمربن الخطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون ہے ۔ یہ بچپن ہی میں اپنے والد ماجد کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ یہ علم وفضل کے ساتھ بہت ہی عبادت گزار اورمتقی وپرہیز گار تھے ۔ میمون بن مہران تا بعی کافرمان ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) سے بڑھ کرکسی کومتقی وپرہیز گار نہیں دیکھا۔ حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسلمانوں کے امام ہیں۔ یہ حضورعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامکی وفات اقدس کے بعد ساٹھ برس تک حج کے مجمعوں اوردوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اسلامی احکام کے بارے میں فتویٰ دیتے رہے ۔ مزاج میں بہت زیادہ سخاوت کا غلبہ تھا اور بہت زیادہ صدقہ وخیرات کی عادت تھی ۔ اپنی جو چیز پسند آجاتی تھی فوراً ہی اس کو راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات کردیتے تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں ایک ہزار غلاموں کو خریدخرید کر آزادفرمایا ۔ جنگ خندق اوراس کے بعد کی اسلامی لڑائیوں میں برابر کفار سے جنگ کرتے رہے ۔ ہاں البتہ حضرت علی اورحضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَاکے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں آپ ان لڑائیوں میں غیر جانبدار رہے۔
عبدالملک بن مروان کی حکومت کے دوران حجاج بن یوسف ثقفی امیر الحج بن کر آیا۔ آپ نے خطبہ کے درمیان اس کو ٹوک دیا۔حجاج ظالم نے جل بھن کر اپنے ایک سپاہی کو حکم دے دیا کہ وہ زہر میں بجھایا ہوا نیزہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاؤں میں ماردے چنانچہ اس مردود نے آپ کے پاؤں میں نیزہ مار دیا۔ زہر کے اثر سے آپ کا پاؤں بہت زیادہ پھول گیا اورآپ علیل ہوکر صاحب فراش ہوگئے۔ مکار حجاج بن یوسف آپ کی عیادت کے لیے آیا اورکہنے لگا کہ حضرت !کاش! مجھے معلوم ہوجاتا کہ کس نے آپ کو نیزہ ماراہے ؟آپ نے فرمایا : اس کو جان کر پھر تم کیا کروگے؟ حجاج نے کہا کہ اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو خدا مجھے مارڈالے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ تم کبھی ہرگز ہرگز اس کو قتل نہیں کروگے اس نے تو تمہارے حکم ہی سے ایسا کیا ہے ۔ یہ سن کر حجاج بن یوسف کہنے لگا کہ نہیں نہیں ، اے ابو عبدالرحمن! آپ ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کریں اورجلدی سے اٹھ کر چل دیا۔ اسی مرض میں ۷۳ ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شہادت کے تین ماہ بعد حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچوراسی یا چھیاسی برس کی عمر پاکر وفات پاگئے اورمکہ معظمہ میں مقام ’’محصب‘‘ یا مقام ’’ذی طویٰ‘‘میں مدفون ہوئے ۔ ([3]) (اسدالغابہ، ج۳، ص۲۲۹، اکمال ، ص۶۰۵ وتذکرۃ الحفاظ، ج۱، ص۳۵)
علامہ تاج الدین سبکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے طبقات میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک شیر راستہ میں بیٹھا ہوا تھا اورقافلہ والوں کا راستہ روکے ہوئے تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس کے قریب جا کر فرمایاکہ راستہ سے الگ ہٹ کر کھڑا ہوجا۔ آپ کی یہ ڈانٹ سن کر شیر دم ہلاتا ہوا راستہ سے دور بھاگ نکلا۔([4]) (تفسیر کبیر، ج۵، ص۱۷۹وحجۃ اللہ ، ج۲، ص۸۶۶) ایک فرشتہ سے ملاقات
حضر ت عطاء بن ابی رباح کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے دوپہر کے وقت دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت سانپ نے سات چکر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھی ۔ آپ نے اس سانپ سے فرمایا : اب آپ جب کہ طواف سے فارغ ہوچکے ہیں یہاں پرآپ کا ٹھہرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ میرے شہر کے نادان لوگ آپ کو کچھ ایذا پہنچادیں گے ۔ سانپ نے بغورآپ کے کلام کوسنا پھر اپنی د م کے بل کھڑا ہوگیا اور فوراً ہی اڑکر آسمان پر چلا گیا۔ اس طرح لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ یہ کوئی فرشتہ تھا جو
4 حجۃ اللّٰہ علی العالمین، الخاتمۃ فی اثبات کرامات الاولیاء...الخ، المطلب الثالث فی ذکر جملۃجمیلۃ ...الخ، ص۶۱۷
1 حجۃ اللّٰہ علی العالمین، الخاتمۃ فی اثبات کرامات الاولیاء...الخ، المطلب الثالث فی ذکر جملۃجمیلۃ ...الخ، ص۶۱۷
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع