my page 3
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Islami Aqaid o Masail | اسلامی عقائد و مسائل‎

book_icon
اسلامی عقائد و مسائل‎
            

حصہ اوّل عقائد کا بیان

عقائد میں درج ذیل 9موضوعات کے اہم مسائل جن کا جاننابہت ہی ضروری ہے ان میں سے منتخب مسائل کو بیان کیا گیا ہے: (1) اللہ پاک کی ذات و صفات (2) انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے متعلق عقائد (3)فرشتوں کا بیان (4)جِن کا بیان (5) عالَم برزخ اور موت کا بیان (6) قیامت وحشر کا بیان (7) جنت و جہنم کا بیان (8) تقدیر کا بیان (9) ایمان و کفر کا بیان اور (10) صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم کا بیان۔

(1) اللہ پاک کی ذات و صفات کا بیان

سوال: اللہ پاک کےبارے میں ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہئے؟ جواب: اللہ پاک کے بارے میں ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے: (1) اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں ۔ (2) وہی اس کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (3) وہ واجب الوجود ہے یعنی اس کا وجود ضروری اور عَدم (نہ ہونا) محال (ناممکن)ہے۔(4) وہ قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اَزَلی کے بھی یہی معنیٰ ہیں۔ (5) وہ باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ (6) وہ بے پرواہے، بے نیاز ہے کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اس کا محتاج ہے۔ (7) جس طرح اس کی ذات قدیم اَزَلی اَبَدی ہے، صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں ، اس کی ذات و صفات کے سوا سب چیزیں حادِث ہیں یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں ۔ (8) وہ نہ کسی کا باپ ہے ، نہ بیٹااور نہ اس کے لیے بیوی ، جو اسے باپ یا بیٹا بتائے یا اس کے لیے بیوی ثابت کرے کافر ہے۔ (9) وہی ہر شے کا خالق ہے، ذوات ہوں (ذوات ذات کی جمع ہے) خواہ اَفعال ، سب اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ (10)حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے،ملائکہ وغیرہم وسیلہ ہیں۔ (11) اللہ تعالیٰ جسم، جہت، مکان، شکل و صورت اور حرکت و سکون سب سے پاک ہے۔ (12) وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اس چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے:مثلاً جھوٹ، دَغا ،خیانت، ظلم، جہل ، بے حیائی وغیرہا عیوب اس پر قطعاً محال (ناممکن) ہیں۔ (فیضان فرض علوم،1/16) سوال: اللہ پاک کی صفاتِ ذاتیہ کون سی ہیں؟ جواب:(1) حیات (2) قدرت (3) سننا (4) دیکھنا (5) کلام (6)علم (7) ارادہ ۔ (فیضان فرض علوم، 1/17) سوال: توحید سے کیا مراد ہے ؟ جواب:توحید سے مراد اللہ پاک کی وحدانیت کو ماننا ہے یعنی اللہ پاک ایک ہے اور کوئی بھی اس کا شریک نہیں ، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ اسما (ناموں) میں، نہ افعال (کاموں) میں اور نہ ہی اَحکام میں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 33)

(2)انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بارے میں عقائد

سوال: نبی کسے کہتے ہیں؟ جواب: نبی اس انسان کو کہتے ہیں جسے اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو خواہ فرشتے کے ذریعے یا فرشتے کے بغیر۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،2/ 29) سوال: رسول کسے کہتے ہیں؟ جواب: وہ نبی جو نئی شریعت لائے اسے رسول کہتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،2/ 29) سوال: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بارے میں ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہئے؟ جواب: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے بارے میں ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ(1) انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام شرک و کفر اور ہر ایسے امر سے جو لوگوں کے لیے باعثِ نفرت ہو ، جیسے جھوٹ، خیانت اور جہالت وغیرہا بُری صفات سے قبل نبوّت اور بعدِ نبوّت بالاجماع معصوم ہیں (یعنی ان سے کوئی گناہ ممکن ہی نہیں)۔(2) اور اسی طرح ایسے افعال سے جو وجاہت اور مروّت کے خلاف ہیں قبلِ نبوّت اور بعدِ نبوّت بالاجماع معصوم ہیں۔ (3) اور کبائر (کبیرہ گناہوں)سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمّد صغائر (جان بوجھ کر صغیرہ گناہ کرنے )سےبھی قبلِ نبوّت اور بعدِ نبوّت معصوم ہیں۔ (4) اللہ پاک نے انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام پر بندوں کے لیے جتنے احکام نازل فرمائے انہوں نے وہ سب پہنچا دیئے، جو یہ کہے کہ کسی حکم کو کسی نبی نے چھپا رکھا تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے نہ پہنچایا ،کافر ہے (5) احکامِ تبلیغیہ میں انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے سہو و نسیان (غلطی و بھول)محال ہے۔ (6)ان کے جسم کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے تنفّر ہوتا ہے (یعنی نفرت ہوتی ہے)، پاک ہونا ضروری ہے۔ (7) اللہ پاک نے انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی مگر یہ علم غیب کہ ان کو ہے اللہ پاک کے دیئے سے ہے، لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا۔(8) انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام تمام مخلوق یہاں تک کہ رسلِ ملائکہ سے بھی افضل ہیں ، ولی کتنا ہی بڑے مرتبے والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا۔ جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔(9)نبی کی تعظیم فرض عین بلکہ اصلِ تمام فرائض ہے، کسی نبی کی ادنی توہین یا تکذیب (جھٹلانا) کفر ہے۔ (10) تمام انبیا اللہ پاک کے حضور عظیم وجاہت (بڑے مرتبے) و عزت والے ہیں ان کو اللہ پاک کے نزدیک معاذ اللہ چوہڑے چمار کی مثل کہنا کھلی گستاخی اور کلمۂ کفر ہے۔(11) انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام کو عقل کامل عطا کی جاتی ہے ، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے،کسی حکیم(دانشور) یا کسی فلسفی کی عقل اس کے لاکھویں حصہ کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ (فیضان فرض علوم ،1/21 ) سوال:معجزہ کیا ہوتا ہے؟ جواب: اللہ پاک نے اپنے پیغمبروں کی سچائی ظاہر کرنے کے لیے ان کے ہاتھوں پر ایسی ایسی حیرت اور تعجب میں ڈالنے والی چیزیں ظاہر فرمائیں جو بہت مشکل اور عادت کے خلاف ہیں اور دوسرے لوگ ایسا نہیں کر سکتے ان چیزوں کو معجزہ کہتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، 3/ 41) سوال:کرامت کسے کہتے ہیں؟ جواب: اللہ پاک کے کسی ولی سے خلافِ عادت ظاہر ہونے والی بات کو کرامت کہتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،2/ 41) سوال:نبیوں اور رسولوں کی تعداد کے متعلق ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ جواب:نبیوں اور رسولوں کی کوئی تعداد معین کرنا جائز نہیں کیونکہ اس بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں اور نبیوں کی کسی خاص تعداد پر ایمان لانے میں یہ احتمال ہے کہ کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو جائے یا غیر نبی کو نبی مان لیا جائے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔ اس لیے یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے کیونکہ مسلمان کے لیے جس طرح اللہ پاک کی ذات و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح ہر نبی کی نبوّت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/42)لہٰذا تعدادمعین کرنے کے بجائے یوں کہا جائے کہ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام دُنیا میں تشریف لائے۔ (مدنی مذاکرہ ،قسط 15،ص20) سوال:اگر کوئی یہ کہے کہ کسی نبی یا رسول نے اللہ پاک کے تمام احکام لوگوں تک نہیں پہنچائے تو اسے کیا کہیں گے؟ جواب:جو یہ کہے کہ کسی نبی یا رسول نے کسی حکم کو کسی بھی وجہ سے چھپا لیا اور لوگوں تک نہیں پہنچایا وہ کافر ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/41) سوال:کیا کسی نبی اور رسول سے کوئی گناہ ممکن ہے ؟ جواب:نبی اور رسول سے کوئی گناہ ممکن نہیں ، کیونکہ اللہ پاک نے ان حضرات کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے اس سبب سے ان حضرات کا گناہ میں مبتلا ہونا شرعاً مُحال (ناممکن) ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 43) سوال:بعض لوگ ولیوں اور اماموں کو بھی معصوم سمجھتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ جواب:جی نہیں! ایسا سمجھنا درست نہیں بلکہ ولیوں اور اماموں کو نبیوں کی طرح معصوم سمجھنا بد دینی و گمراہی ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/43)البتہ یہ حضرات گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔ سوال:کیا انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام فرشتوں سے بھی افضل ہیں؟ جواب:جی ہاں! انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام تمام مخلوق یہاں تک کہ تمام فرشتوں سے بھی افضل ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/44) سوال:کیا کوئی ولی مرتبہ میں کسی نبی کے برابر ہو سکتا ہے؟ جواب: جی نہیں! ولی چاہے کتنے ہی بڑے مرتبے والا ہو ہر گز ہر گز کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا بلکہ جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے وہ کافر ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 44) سوال: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی حیاتِ طیبہ کے متعلق ہمارا کیا عقیدہ ہے؟ جواب: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی حیاتِ طیبہ کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں بحیاتِ حقیقی زندہ ہیں جیسے دنیا میں تھے کھاتے پیتے ہیں اور جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، 3/ 45) سوال: کیا کوئی نبی اب بھی حیاتِ ظاہری کے ساتھ زندہ ہیں؟ جواب: چار انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام حیاتِ ظاہری کے ساتھ زندہ ہیں، ان میں سے دو یعنی حضرت سیدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت سیدنا ادریس عَلَیْہِ السَّلَام آسمانوں پر ہیں اور دو یعنی حضرت سیدنا خضر عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت سیدنا الیاس عَلَیْہِ السَّلَام زمین پر ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/47) سوال: کیا اللہ پاک کے نبی غیب کی باتیں جانتے ہیں؟ جواب: جی ہاں ! اللہ پاک نے اپنے نبیوں کو بہت سی غیب کی باتوں کا علم عطا فرمایا ہے ۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/48) سوال: اللہ پاک کے علمِ غیب اور نبیوں رسولوں کے علمِ غیب میں کیا فرق ہے؟ جواب: اللہ پاک کا علم اور اس کا ہر کمال ذاتی ہے کسی کا دیا ہوا نہیں، جبکہ نبیوں اور رسولوں کا علمِ غیب عطائی ہے یعنی انہیں یہ علم اللہ پاک نے عطا فرمایا ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/48) سوال:ختمِ نبوّت سے کیا مراد ہے؟ جواب: ختمِ نبوّت سے مراد یہ ماننا ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم آخری نبی ہیں یعنی اللہ پاک نے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات پر سلسلۂ نبوت کو ختم فرمادیا، حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں یا اس کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/57) سوال:جو شخص ختمِ نبوّت کو نہ مانے اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ جواب: جو شخص سرورِ دو عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں یا آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کسی کو نبوت ملنے کا اعتقاد رکھے یا کسی نئے نبی کے آنے کو ممکن مانے وہ کافر ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/57) حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے آخری نبی ہونے کے بارے میں قرآن مجید میں ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ22،الاحزاب: 40) ترجمۂ کنز الایمان :محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ مسلم شریف میں ہے:حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیا عَلَیْہِمُ وَالسَّلَام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی ؟پھرآپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا میں(قصر نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اورمیں خَاتَمُ النَّبِیّٖن ہوں ۔ (صراط الجنان ، 8 / 48 بحوالہ مسلم،ص1255،حدیث:2286) تفسیر صراط الجنان میں ہے:یاد رہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔ جو حضور پُر نور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد ، صَمد ، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان (ایمان کی بنیاد)ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خَاتَمُ النَّبِیّٖن ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجُزءِ اِیقان(عظیم ترین فرض اور ایمان کا جزء) ہے۔ (صراط الجنان ،8/47)(مزید تفصیلات کے لیے تفسیر صراط الجنان جلد 8،صفحہ 47تا50 مطالعہ فرمائیں) سوال: معراج سے کیا مراد ہے؟ جواب: تاجدارِ رسالت ، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللہ پاک نے مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں اور کرسی و عرش تک اور وہاں سے اوپر جہاں تک اللہ پاک کو منظور ہوا رات کے تھوڑے سے حصہ میں سیر کرائی اس رات بارگاہِ خداوندی میں آپ کو وہ قربِ خاص حاصل ہوا کہ کسی نبی اور فرشتہ کو نہ کبھی حاصل ہوا ،نہ کبھی ہوگا۔ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس آسمانی سفر کو معراج کہتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں 3/ 59) سوال:کیا حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نےسر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا؟ نیز: کیا دنیا کے اندر خواب میں اللہ پاک کا دیدار ہوسکتاہے؟ جواب: جی ہاں ! جمہور اہل سنت کے نزدیک معراج کی رات حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نے سر کی آنکھوں سے اللہ پاک کا دیدار کیا ہے۔ اللہ پاک کا خواب میں دیدار ہوسکتا ہے اور اولیاء کرام رَحمۃُ اللہ علیہ م سے ثابت ہے ہمارے امام اعظم رَحمۃُ اللہ علیہ کو خواب میں سو بار زیارت ہوئی ۔ (فیضان فرض علوم ،1/20) سوال: شفاعت سے کیا مراد ہے؟ جواب: شفاعت سے مراد سفارش ہے یعنی قیامت کے دن اللہ کے نبی و رسول اور دیگر نیک بندے گناہ گاروں کی بخشش کے لیے بارگاہِ خداوندی میں سفارش فرمائیں گے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 62) سوال:تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر ہر مسلمان پر فرضِ اعظم بلکہ جانِ ایمان ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 65) سوال:حاضر و ناظر کا مطلب کیا ہے؟ جواب: حاضر کے لغوی معنیٰ ہیں ’’موجود، جو سامنے ہو‘‘ اور ناظر کے معنیٰ ہیں ’’دیکھنے والا‘‘ چنانچہ جہاں تک ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جو جگہ ہماری پہنچ میں ہو وہاں تک ہم حاضر ہیں ۔مثلاً آسمان تک نظر کام کرتی ہے وہاں تک ہم ناظر ہیں مگر حاضر نہیں کیونکہ وہاں تک ہماری پہنچ نہیں اور جس کمرے یا گھر میں ہم موجود ہیں وہاں حاضر ہیں کہ اس جگہ ہماری پہنچ ہے جبکہ حاضر و ناظر کے شرعی معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ پاک کا بندہ بعطائے الٰہی ایک ہی جگہ رہ کر تمام جہاں کو اپنی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور صدہا کوس (سینکڑوں میل کی دوری)پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔ یہ رفتار خواہ صرف روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ، قبر میں مدفون جسم سے ہو یا کسی دوسری جگہ موجود جسم سے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 67) سوال: اللہ پاک کو حاظر و ناظر کہنا کیسا ؟ جواب: اللہ پاک کو حاظر و ناظر نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اللہ پاک جگہ اور مکان سے پاک ہے۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ہر جگہ میں حاضر ناظر ہونا خدا کی صفت ہرگز نہیں خدائے تعالیٰ جگہ اور مکان سے پاک ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 67) سوال:کیا سرکار مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم حاضر و ناظر ہیں؟ جواب: جی ہاں ! اللہ پاک کی عطا سے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم حاضر و ناظر ہیں یعنی آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی قبرِ انور میں رہتے ہوئے نورِ نبوّت سے اپنے ہر امتی کے ہر ہر عمل کا مشاہدہ فرمارہے ہیں ، تمام عالم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھتے، دور و نزدیک کی آوازیں سنتے، جہاں چاہیں جتنے مقامات پر چاہیں اللہ پاک کی عطا کردہ طاقت سے جلوہ گر ہوسکتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 68) سوال:کیا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسمِ بشری کے ساتھ ہر جگہ موجود ہیں؟ جواب: جی نہیں! سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسمِ بشری کے ساتھ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی نورانیت، روحانیت اور علمیت کے اعتبار سے ہر جگہ اسی طرح موجود ہیں جس طرح سورج آسمان پر ہوتا ہے لیکن اپنی روشنی اور نورانیت کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہوتا ہے،البتہ! اگر چاہیں تو جسمِ بشری کے ساتھ جہاں چاہیں حاضر ہوسکتے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 68) سوال:کیا ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ تھا؟ جواب: جی نہیں! ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہیں تھا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،2/ 25) سوال:نور و بشر ہونے کے اعتبار سے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے متعلق ہمارا کیا عقیدہ ہے؟ جواب: نور و بشر ہونے کے اعتبار سے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے مدنی آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نور بھی ہیں اور بشر بھی ۔ یعنی حقیقت کے اعتبار سے نور اور صورت کے اعتبار سے بے مثل بشرہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 71) سوال:کیا کوئی حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کی مثل ہوسکتا ہے؟ جواب:مُحال(ناممکن) ہے کہ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کا مثل ہو، جو کسی صفتِ خاصہ میں کسی کو حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کا مثل بتائے ، گمراہ ہے یا کافر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/30) سوال:کیا انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام زندہ ہیں؟ جواب:جی انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی اپنی قبروں میں اسی طرح بحیات حقیقی(حقیقی زندگی کے ساتھ) زندہ ہیں جیسے دنیا میں تھے ، کھاتے پیتے ہیں ، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیقِ وعدۂ الٰہیہ کے لیے ایک آن کو ان پر موت طاری ہوئی پھر بدستور زندہ ہو گئے ، ان کی حیات حیاتِ شہدا سے بہت ارفع و اعلی ہے فلہٰذا شہید کا ترکہ تقسیم ہو گا اس کی بیوی بعدِ عدت نکاح کر سکتی ہے بخلاف انبیا کے، کہ وہاں یہ جائز نہیں۔ (فیضان فرض علوم،1/23) سوال:انبیا کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی لغزشوں کا تذکرہ کرنا کیساہے؟ جواب: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے جو لغزشیں واقع ہوئیں اُن کا ذکر تلاوتِ قرآن و روایتِ حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے، اَوروں کو ان سرکاروں میں لب کشائی کی کیا مجال؟ مولیٰ پاک اُن کا مالک ہے ، جس محل پر جس طرح چاہے تعبیر فرمائے وہ اُس کے پیارے بندے ہیں اپنے رب کے لیے جس قدر چاہیں تواضُع فرمائیں دوسرا اُن کلمات کو سند نہیں بنا سکتا اور خود اُن کا اطلاق کرے تو مردودِ بارگاہ ہو ، پھر اُن کے یہ افعال جن کو لغزش سے تعبیر کیا جائے ہزارہا حِکَم و مصالح (حکمتوں اور مصلحتوں)پر مبنی ، ہزارہا فوائد و برکات کے مُثمِر ہوتے ہیں ، ایک لغزشِ آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھئے ، اگر وہ نہ ہوتی ، جنت سے نہ اترتے ، دنیا آباد نہ ہوتی ، نہ کتابیں اترتیں ، نہ رسول آتے، نہ جہاد ہوتے، لاکھوں کروڑوں مثُوبات (یعنی ثواب)کے دروازے بند رہتے، ان سب کا فتحِ باب ایک لغزشِ آدم کا نتیجہ مبارکہ و ثمرہ طیّبہ ہے۔ بالجملہ انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام کی لغزش ، مَن و تُو کس شمار میں ہیں، صدیقین کی حَسَنَات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ حَسَنَاتُ الاَبْرَارِسَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ ترجمہ: نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لیے خطاؤں کا درجہ رکھتی ہیں۔ (فیضان فرض علوم،1/27) سوال:جو شخص (مَعَاذَ اللہ )حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے کسی قول یا فعل کو حقارت کی نظر سے دیکھے، اس کے لئے کیا حکم ہے؟ جواب: جو شخص حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے کسی قول و فعل و عمل و حالت کو بہ نظرقارت دیکھے کافر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/35) سوال: مشہور آسمانی کتابیں کتنی ہیں اور کونسی کتاب کس پر نازل ہوئی؟ جواب: بہت سے نبیوں پر اپاک نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر، اِنجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، قرآنِ عظیم کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم پر۔ کلامِ الٰہی میں بعض کا بعض سے افضل ہونا اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ ہمارے لیے اس میں ثواب زائد (زیادہ)ہے، ورنہ ا ایک، اُس کا کلام ایک، اُس میں افضل ومفضول کی گنجائش نہیں۔ (بہار شریعت، 1/29) سوال: کیا اللہ پاک نے جتنے صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں سب پر ایمان لانا ضروری ہے؟ جواب: جی ہاں! اللہ پاک نے جتنے صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں سب حق ہیں اور سب اللہ کا کلام ہیں ان کتابوں میں جو کچھ ارشادِ خداوندی ہوا سب پر ایمان لانا اور ان کو سچ ماننا ضروری ہے ۔ اگر کوئی ان صحیفوں یا کتابوں میں سے کسی ایک کو نہ مانے تو اس پر کفر کا حکم نافذ ہوگا کیونکہ کسی بھی آسمانی کتاب یا صحیفے کا انکار کفر ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 52) سوال:اگر پچھلی کتابوں سے کوئی بات ہمارے سامنے کہے تو ہم اس کو کلام اللہ مانیں گے یا نہیں؟ جواب: جب کوئی بات اُن کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کتاب کے مطابق ہے ، ہم اس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ ان کی تحریفات سے ہے اور اگر موافقت مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب بلکہ یوں کہیں کہ : اٰمَنْتُ بِاللہ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ یعنی اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔ (بہار شریعت،1/30)

(3)فرشتوں کا بیان

سوال:فرشتے کیا ہیں؟ جواب: فرشتے اجسامِ نوری ہیں، یہ نہ مرد ہیں نہ عورت، اللہ پاک نے ان کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں ،کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں، وہی کرتے ہیں جو حکمِ الٰہی ہے، خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے ، نہ قصداً، نہ سہواً ، نہ خطاً ، وہ اللہ پاک کے معصوم بندے ہیں ، ہر قسم کے صغائر و کبائر سے پاک ہیں۔ (فیضان فرض علوم ،1/40) سوال:فرشتوں کے وجود کا انکار کرنا کیسا ہے ؟ جواب: فرشتوں کے وجود کا انکار یا یہ کہنا کہ فرشتہ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں، یہ دونوں باتیں کُفر ہیں۔ (بہار شریعت،1/95)

(4)جِن کا بیان

سوال:جنات کیا ہیں؟ جواب:یہ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔اِن میں بھی بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں، اِن کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں، اِن کے شریروں کو شیطان کہتے ہیں، یہ سب انسان کی طرح ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہیں، اِن میں توالد و تناسل ہوتا ہے (یعنی ان کے یہاں اولادپیدا ہوتی اور نسل چلتی ہے)، کھاتے، پیتے، جیتے، مرتے ہیں۔ (بہار شریعت ،1/96) سوال: جنات کے وجود کا انکار کرنا کیسا ہے ؟ جواب:اِن کے وجود کا انکار یا بدی کی قوت(بُرائی کی قوت) کا نا م جن یا شیطان رکھنا کفر ہے۔ (بہار شریعت ،1/97)

(5)عالَمِ برزخ اور موت کا بیان

سوال:کیا موت کے وقت روح مرجاتی ہے؟ جواب:موت کا معنی روح کا جسم سے جدا ہوجانا ہے نہ یہ کہ روح مرجاتی ہے، جو روح کو فنا مانے بد مذہب ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/43) سوال:کیا مرنےکے بعد روح کا تعلق بدن انسانی سے رہتاہے؟ نیز : کیا عذابِ قبر جسم و روح دونوں پر ہوگا؟ جواب: جی ہاں! مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسانی کے ساتھ باقی رہتا ہے ، اگرچہ روح بدن سے جدا ہوگئی مگر بدن پر جو گذرے گی روح ضرور اس سے آگاہ و متأثر ہوگی ، جس طرح حیاتِ دنیا (دنیا کی زندگی)میں ہوتی ہے ، بلکہ اس سے زائد ۔(فیضان فرض علوم،1/43)اور عذابِ قبر جسم و روح دونوں پر ہوگا۔(فیضان فرض علوم،1/47) سوال:جس مردے کو دفن نہ کیا جائے، کیا اس سے بھی سوالات قبر ہوں گے؟ جواب: مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائےتو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا ، غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اُسے پہنچے گا یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوالات ہوں گے اور ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔ (فیضان فرض علوم،1/47) سوال:آواگون کسے کہتے ہیں؟اور اس کے ماننے کا کیا حکم ہے؟ جواب: یہ عقیدہ کہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا، اسے تناسخ اور آواگون کہتے ہیں ، یہ محض باطل ہے اور اس کا ماننا کفر ہے ۔ (فیضان فرض علوم،1/44)

(6)قیامت وحشر کا بیان

سوال:حضرت امام مہدی رَحمۃُ اللہ علیہ کے ظاہو ہونے کا واقعہ بیان فرمایئے؟ جواب:اس کا اِجمالی واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جب سب جگہ کفر کا تسلّط ہوگا اس وقت تمام ابدال بلکہ تمام اولیا سب جگہ سے سِمٹ کر حرمین شریفین کو ہجرت کر جائیں گے، صرف وہیں اسلام ہوگا اور ساری زمین کفرستان ہو جائے گی۔ رمضان شریف کا مہینہ ہو گا ، ابدال طواف کعبہ میں مصروف ہوں گے اور حضرت امام مَہدی رَحمۃُ اللہ علیہ بھی وہاں ہوں گے، اولیا اُنہیں پہچانیں گے اُن سے درخواستِ بیعت کریں گے ، وہ انکار کریں گے دفعۃً(اچانک) غیب سے ایک آواز آئے گی : یہ اللہ پاک کا خلیفہ مَہدی ہے ، اس کی بات سُنو اور اس کا حکم مانو۔تمام لوگ اُن کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے ۔ وہاں سے سب کو اپنے ہمراہ لے کر ملکِ شام تشریف لے جائیں گے۔ (فیضان فرض علوم،1/54 بحوالہ بہارشریعت،1/124) سوال:جو حشر(قیامت) کا انکار کرے ،اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: قیامت بیشک قائم ہوگی ، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/59) سوال:حشر صرف روح کا ہوگا یا روح و جسم دونوں کا؟ جواب: حشر صرف رُوح کا نہیں ، بلکہ روح و جسم دونوں کا ہوگا، جو کہے صرف روحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہیں ہوں گے وہ بھی کافر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/59)

(7)جنت و جہنم کا بیان

سوال:جو جنت و دوزخ کا انکارکرے،اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب:جنت ودوزخ حق ہے ، ان کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/73) سوال:کیا جنت و دوزخ اب بھی موجود ہیں؟ جواب: جنت و دوزخ کو بنے ہوئے ہزارہا سال ہوئے اور وہ اب موجود ہیں ، یہ نہیں کہ اس وقت تک مخلوق (پیدا)نہ ہوئیں ، قیامت کے دن بنائی جائیں گی۔ (فیضان فرض علوم،1/73)

(8)تقدیر کا بیان

سوال:تقدیر کیاہے؟ نیز کیا اللہ پاک کے علم یا لکھ دینےنے انسان کو مجبور کردیاہے؟ جواب: جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا ، اللہ پاک نے اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ دیا ، اسے تقدیر کہتے ہیں۔ایسا نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے ، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا ، زید کے ذِمہ برائی لکھی اس لیے کہ زید بُرائی کرنے والا تھا ، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کردیا۔ (فیضان فرض علوم،1/79) سوال:تقدیر کا انکار کرنے والوں کا کیا حکم ہے؟ جواب: تقدیر کا انکار کرنے والوں کو نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس اُمت کا مجوس بتایا ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/79) سوال:تقدیر کی کتنی قسمیں ہیں؟ جواب: تقدیر کی تین اقسام ہیں: (1)مُبرَمِ حقیقی:کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلق نہیں اس کی تبدیلی ناممکن ہے ،اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنہیں اس خیال سے واپس فرمادیا جاتا ہے۔ (2)معلّق محض: کہ ملائکہ کے صحیفوں میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرمادیا گیا ہے ، اس تک اکثر اولیا ءکی رسائی ہوتی ہے ، اُن کی دعا سے ٹل جاتی ہے۔ (3) معلّق شبیہ بہ مُبرَم: کہ صُحفِ ملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے اسے صُحفِ ملائکہ کے اعتبار سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں ، اُ س تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔حضور سیدنا غوثِ اعظم رَحمۃُ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں : میں قضائے مُبرَم کو رد کردیتا ہوں۔ (فیضان فرض علوم،1/79) سوال:تقدیر کے معاملات میں غور و فکر کرنا کیسا ہے؟ جواب: قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے ، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ہلاکت ہے ،صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم ا اس مسئلے میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ما و شما (ہم اور تم) کس گنتی میں! اتنا سمجھ لو کہ اللہ پاک نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادت کے بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا ، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار (ایک طرح کا اختیار) دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے ، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع ، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کردیئے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیا ہوجاتے ہیں اور اسی لیے اس پر مؤاخذہ ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/80)

(9)ایمان و کفر کا بیان

سوال:ایمان کسے کہتے ہیں؟ جواب: ایمان لغت میں تصدیق کرنے(سچا ماننے) کو کہتے ہیں ایمان کا دوسرا لغوی معنیٰ ہے : امن دینا۔ چونکہ مومن اچھے عقیدے اختیار کر کے اپنے آپ کو ہمیشہ والے عذاب سے امن دے دیتا ہے اس لیے اچھے عقیدوں کو اختیار کرنے کو ایمان کہتے ہیں اور اصطلاح شرع میں ایمان کے معنیٰ ہیں سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین سے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 29) سوال:کفر کے کیا معنیٰ ہیں؟ جواب: کفر کا لغوی معنیٰ ہے: کسی شے کو چھپانا۔ اور اصطلاح میں کسی ایک ضرورت دینی کے انکار کو بھی کفر کہتے ہیں اگرچہ باقی تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کرتا ہو۔ جیسے کوئی شخص تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کرتا ہو مگر نماز کی فرضیت یا ختم نبوت کا منکر ہو وہ کافر ہے ، کہ نماز کو فرض ماننا اور سرکار مدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کو آخری نبی ماننا دونوں باتیں ضروریاتِ دین میں سے ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں ،3/ 29) سوال:ضروریاتِ دین کسے کہتے ہیں؟ جواب: ضروریاتِ دین سے مراد اسلام کے وہ احکام ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں جیسے اللہ پاک کا ایک ہونا، انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی نبوت ، نماز، روزے، حج، جنت، دوزخ، قیامت میں اٹھایا جانا، حساب و کتاب لینا وغیرہ۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 30) سوال:ہر خاص و عام سے کیا مراد ہے؟ جواب: خاص سے مراد علما اور عام سے مراد عوام ہیں یعنی وہ مسلمان جو علما کے طبقہ میں شمار نہ کیے جاتے ہوں مگر علما کی صحبت میں بیٹھنے والے ہوں اور علمی مسائل کا ذوق رکھتے ہوں وہ لوگ مراد نہیں جو دور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اس دینی ضروری کو غیر ضروری نہ کردے گا ۔ البتہ ! ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر(یعنی انکار کرنے والے) نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے ان سب پر اجمالاً ایمان لاتے ہوں ۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 30) سوال:ضروریاتِ دین کے منکر کا کیا حکم ہے؟ جواب:ضروریاتِ دین کا منکر بلکہ ان میں ادنیٰ شک کرنے والا بالیقین کافر ہوتا ہے ایسا کہ جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 30) سوال:ضروریاتِ مذہب اہل سنت سے کیا مراد ہے؟ جواب: ضروریاتِ مذہب اہلِ سنت سے مراد ہے کہ ان کا مذہب اہلسنت سے ہونا سب عوام و خواص اہلسنت کو معلوم ہو جیسے عذابِ قبر، اعمال کا وزن وغیرہ۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 30) سوال:ضروریاتِ مذہب اہلِ سنت کے منکر کا کیا حکم ہے؟ جواب: ضروریاتِ اہلِ سنت کا منکر بد مذہب گمراہ ہوتا ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 31) سوال:شرک کے کیا معنیٰ ہیں؟ جواب: شرک کے معنیٰ ہیں: اللہ پاک کے سوا کسی کو واجب الوجود یا مستحقِ عبادت (کسی کو عبادت کے لائق) جاننا یعنی اُلُوہیت (شانِ خداوندی) میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بدترین قسم ہے اس کے علاوہ کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقہً شرک نہیں ۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 31) سوال:نفاق کی کیا تعریف ہے؟ جواب: زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنا اور دل میں اسلام کا انکار کرنا ،یہ بھی خالص کفر ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا سب سے نِچلا طبقہ ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 32) سوال:مرتد کسے کہتے ہیں؟ جواب: مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے اَمر کا انکار کرے جو ضروریاتِ دین سے ہو ۔ یعنی زبان سے کلمہ کفر بکے جس میں تاویلِ صحیح کی گنجائش نہ ہو ۔ یونہی بعض افعال (کام) بھی ایسے ہیں جن سے کافر ہوجاتا ہے مثلاً بُت کو سجدہ کرنا، مُصحَف شریف (قرآن پاک) کو نجاست کی جگہ پھینک دینا۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،3/ 32) سوال:کیا ایمان و کفر کے درمیان کوئی واسطہ ہے؟ جواب:ایمان و کفر میں واسطہ نہیں ، یعنی آدمی یا مسلمان ہوگا یا کافر ، تیسری صورت کوئی نہیں کہ نہ مسلمان ہو نہ کافر ۔ (فیضان فرض علوم،1/82) سوال:جو کسی کافر کے مرنے کے بعد اس کیلئے مغفرت کی دعا کرے،اس کیلئے کیا حکم ہے؟ جواب: جو کسی کافر کے لیے اُس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے یا کسی مُردہ مرتد کو مرحوم یا مغفور یا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی کہے ، وہ خود کافر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/83) سوال:کیا ایسے اعمال بھی ہیں جن کا کرنا کفرہو؟ جواب: جی ہاں ! بعض اعمال جو قطعاً منافی ایمان ہوں اُن کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا جیسے بُت یا چاندسورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یا مصحف شریف یا کعبہ معظمہ کی توہین یہ باتیں یقیناً کفر ہیں ۔یونہی بعض اعمال کفر کی علامت ہیں ، جیسے زُنّار باندھنا ، سر پر چُوٹیا رکھنا ، قشقہ لگانا، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں ۔ تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مرتکب کو از سرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ (فیضان فرض علوم،1/83) سوال:بعض لوگ کہتے ہیں کہ کافر کو بھی کافر نہیں کہنا چاہئے،ہمیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوگا ان کا یہ کہنا کیساہے؟ جواب: ایسا کہنا بالکل غلط ہے، قرآنِ عظیم نے کافر کو کافر کہااور کافر کہنے کا حکم دیا ’’ قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ(۱) ‘‘ اور اگر ایسا ہے تو مسلمان کو بھی مسلمان نہ کہو تمہیں کیا معلوم کہ اسلام پر مرےگا خاتمہ کا حال تو خدا جانے مگر شریعت نے کافر و مسلم میں امتیاز رکھا ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/88) سوال:کہنا کچھ چاہتا ہےاور زبان سے کفریہ کلمہ نکل گیا،کیا حکم ہے؟ جواب:کہنا کچھ چاہتا تھا اور زبان سے کفر کی بات نکل گئی تو کافر نہ ہوا یعنی جبکہ اس امر سے اظہارِ نفرت کرےکہ سننے والے کو بھی معلوم ہو جائے کہ غلطی سے یہ لفظ نکلا ہے اور اگر بات کی پچ کی (اپنی بات پر اڑ گیا) تو اب کافر ہو گیا کہ کفر کی تائید کرتا ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/88) سوال:اگر کفر بکا تو نکاح کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: اگر کفر قطعی ہو تو عورت نکاح سے نکل جائے گی پھر اسلام لانے کے بعد اگر عورت راضی ہو تو دوبارہ اس سے نکاح ہو سکتا ہے ورنہ جہاں پسند کرے نکاح کر سکتی ہے اس کا کوئی حق نہیں کہ عورت کو دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دے اور اگر اسلام لانے کے بعد عورت کو بدستور رکھ لیا دوبارہ نکاح نہ کیا تو قربت زنا ہوگی اور بچے ولد الزنا۔ اور اگر کفر قطعی نہ ہو یعنی بعض علما کافر بتاتے ہوں اور بعض نہیں یعنی فقہا کے نزدیک کافر ہو اور متکلمین کے نزدیک نہیں تو اس صورت میں بھی تجدید اسلام و تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ (فیضان فرض علوم،1/89)

(10)صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم

سوال:صحابی کسے کہتے ہیں؟ نیز کیا کوئی ولی کسی صحابی کے رتبہ کو پہنچ سکتا ہے؟ جواب: نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کو جس مسلمان نے ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان ہی پر اس کا خاتمہ ہوا ، اس بزرگ ہستی کو صحابی کہتے ہیں (فیضان فرض علوم،1/90)کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو ، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔ (فیضان فرض علوم،1/92) سوال:صحابہ کے بارے میں ہمارا کیا اعتقاد ہونا چاہئے؟ جواب: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اہلِ خیر اور عادل ہیں ، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/91) سوال:صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم میں افضلیت کی کیا ترتیب ہے؟ جواب: فضائل و مَرا تب)یعنی مرتبوں (کے اِعتبار سے مسلکِ حق اَ ہلِ سُنَّت و جماعت کے نزدیک ترتیب بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعد اَنبیا و مرسلین) عَلَیْہِمُ السَّلَام ( ، تمام مخلوقاتِ الٰہی اِنس و جن و مَلک )یعنی انسانوں ، جنوں اور فرشتوں ( سے اَفضل ’’صدِّیقِ اکبر ‘‘ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھرعثمانِ غنی ، پھر مولیٰ علی رضی اللہ عنہم ۔(بہارِ شریعت ، 1/ 241) خُلَفائے اَربعہ راشدین)یعنی چار خُلفائے راشدین( کے بعد بقیہ عشرۂ مبشّرہ و حضراتِ حسنین و اَصحابِ بدر و اصحابِ بیعۃُ الرِّضْوان) رضی اللہ عنہم (کے لیے ا َفضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنَّتی ہیں۔(بہارِ شریعت ، 1/ 249) افضل کے یہ معنیٰ ہیں کہ اللہ پاک کے یہاں زیادہ عزت و منزلت والا ہو ، اِسی کو کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ (بہارِ شریعت ، 1/ 247) سوال:کسی صحابی کےساتھ(معاذ اللہ ) بغض رکھنا کیساہے؟ جواب: کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت(بُرا اعتقاد) بد مذہبی و گمراہی واستحقاقِ جہنم(جہنم کا حقدار ہونا) ہے، کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ بغض ہے ، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے ، مثلاً حضرت امیر معاویہ اور ان کے والدِ ماجد حضرت ابوسفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ ، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص ، حضرت مغیرہ بن شعبہ و حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہم حتّٰی کہ حضرت وحشی رَضِیَ اللہ عَنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدا حمزہ رَضِیَ اللہ عَنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخْبَثُ النَّاس خبیث مُسَیلمہ کذّاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا ۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے : کہ میں نے خَیْرُ النَّاس و شَرُّ النَّاس کو قتل کیا ، ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی گمراہی ہے اور اس کا قائل رافضی ، اگرچہ حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہم ا کی توہین کی مثل نہیں ہو سکتی، کہ ان کی توہین ، بلکہ ان کی خلافت کا انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/91) سوال:صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم کےجو آپسی اختلافات ہوئے،ان میں پڑنااور ایک کی طرف داری کرتے ہوےدوسرے کو برا کہناکیساہے؟ جواب: صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کے جو باہم واقعات ہوئے ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔ (فیضان فرض علوم،1/92) سوال:کیا تمام صحابہ جنتی ہیں؟ جواب: جی ہاں ! تمام صحابہ ٔ کرام جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بھنک (ہلکی آواز بھی) نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے۔ محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی ، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ، یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/92) قرآن مجید میں ہے: لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۰) (پ27،الحدید: 10) ترجمہ کنز الایمان:تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ سوال:صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں پر ان کی گرفت کرناکیساہے؟ جواب: صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم انبیا نہ تھے، فرشتے نہ تھے کہ معصوم ہوں ، ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں ، مگر ان میں سے کسی کی بات پر گرفت اللہ و رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے خلاف ہے، اللہ پاک نے سورۂ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں ، مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن(مومنین قبل فتح مکہ) کو اِن (مومنین بعد فتحِ مکہ)پر تفضیل(فضیلت) دی اور فرمادیا:’’ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- ترجمہ:سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا:’’ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠ ‘‘ ترجمہ: اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کروگے۔ (فیضان فرض علوم،1/92) سوال:حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ کےمتعلق اہلسنت کا کیا عقیدہ ہے؟ جواب: حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ رسولِ خدا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابی ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم ا سے کسی نے امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا : فَاِنَّہُ قَدْ صَحِبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم وہ رسولِ خدا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابی ہیں۔ ( بخاری،2/550،حدیث:3764،فیضان فرض علوم،1/93) سوال:کیا حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ مجتہد صحابی ہیں؟ جواب: جی ہاں! حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ مجتہد تھے، ان کے مجتہد ہونے کا بیان صحیح بخاری شریف میں موجود حضرت عَبْدُ اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم ا کی حدیثِ پاک میں ہے۔ (بخاری،2/550،حدیث:3765،فیضان فرض علوم،1/93) سوال:بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنہ کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ کا نام آئےتو حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ نہ کہا جائے۔ جواب: یہ جو بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ جب حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہ عَنہ کے ساتھ امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عَنہ کا نام لیا جائے تو رَضِیَ اللہ عَنہ نہ کہا جائے ، محض باطل و بے اصل ہے ۔ علمائے کرام نے صحابہ کے اسمائے طیبہ کے ساتھ مطلقاً رَضِیَ اللہ عَنہ کہنے کا حکم دیا ہے ، یہ استثنا نئی شریعت گھڑنا ہے۔ (فیضان فرض علوم،1/94) سوال:خلفائے راشدین سے کون مراد ہیں؟ جواب: نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد خلیفہ برحق و امام مطلق حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق ، پھر حضرت عمر فاروق، پھر حضرت عثمانِ غنی ، پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبی ٰ رضی اللہ عنہم ہوئے اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کوخلافتِ راشدہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔ (فیضان فرض علوم ،1/95)

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن