30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(6)محبوب کے دُشمنوں سے نفرت
جس طرح محبوب کے دوستوں سے محبت کرنا محبت کی علامت ہے اسی طرح اس کے دشمنوں سے عداوت رکھنا، ان سے قطع تعلق کرنا بھی محبت کی واضح نشانی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص کسی سے سچی محبت بھی کرے اور اس کے دشمنوں کو بھی دوست رکھے اور پھر یہ تو عام دُنیوی محبت کی علامت ہے البتہ جہاں تک تعلق ہے اس بندۂ مومن کا کہ جس کی محبت کا مرکز ہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ہو تو اس کی تو شان ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے ہرگز ہرگز دوستی نہیں کرتا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی مخالفت کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ (پ۲۸، المجادلة : ۲۲)
ترجَمۂ کنز الایمان : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کُنبے والے ہوں۔
صدْرُ الْافَاضِل حضرت علّامہ مولانا سَیِّد محمد نعیمُ الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ مومنین سے یہ ہوہی نہیں سکتا اور ان کی یہ شان ہی نہیں اور ایمان اس کو گوارا ہی نہیں کرتا کہ خدا اور رسول کے دشمن سے دوستی کرے ۔مزید فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بددینوں اور بدمذہبوں اور خدا و رسول (عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں سے مَوَدَّت و اِخْتِلَاط (مَحَبّت و میل جول رکھنا) جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنا ابوعُبَیْدَہ بن جَرَّاح (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)نے جنگِ اُحد میں اپنے باپ کو قتل کیا اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے روزِ بدر اپنے بیٹے عبدُ الرحمٰن کو مُبَا رَزَتْ (لڑائی )کے لئے طلب کیا لیکن رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی اور مُصْعَب بن عُمیر (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) نے اپنے بھائی عبداللہ بن عُمیر کو قتل کیا اور حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے ماموں عاص بن ہِشام بن مُغِیرہ کو روزِ بدر قتل کیا اور حضرت علی بن ابی طالب و حمزہ و ابوعبیدہ (رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن )نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جو ان کے رشتہ دار تھے، خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو قرابت اور رشتہ داری کا
کیا پاس ۔ ([1])
ان کے دشمن کو اگر تونے نہ سمجھا دشمن وہ قیامت میں کریں گے نہ رفاقت تیری
ان کے دشمن کا جو دشمن نہیں سچ کہتا ہوں دعویٰ بے اصل ہے جھوٹی ہے محبت تیری
بلکہ ایمان کی پوچھے تو ہے ایمان یہی ان سے عشق ان کے عدو سے ہوعداوت تیری
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حقیقت یہ ہے کہ عاشقانِ رسول کیلئے صرف یہی بات کافی نہیں کہ رسولِ پاک، صاحِبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمنوں کو دشمن جانیں بلکہ ان سے دشمنی کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب اور رسم و رواج سے بھی کنارہ کشی اختیار کرنا لازمی ہے۔صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے طرزِ عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ہر اس چیز کو ٹھوکر مار دی جسے محبوبِ دو جہان سرورِ عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ناپسند کیا تھا۔مگر افسوس! آج کل کے مسلمانوں کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے محبوب آقا صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمنوں کے طور طریقوں پر عمل کرنا باعِثِ فخر سمجھتے ہیں۔ ذرا سوچئے!عشْقِ رسول کے دعویدار آخر کس رَوِش پر چل پڑے ہیں؟ ناموسِ رسالت کے رکھوالے دن بہ دن فرنگی تہذیب کی بد تہذیبی میں کیوں رنگتے چلے جارہے ہیں؟جو لوگ ہمارے پیارےنبی، مکی مدنی آقا صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ہم انہی کے متوالے کیوں بنتے جارہے ہیں، دُخترانِ اسلام نے حیا کی چادر کیوں اتار پھینکی ؟ نوجوانانِ اسلام کی نگاہوں سے حیا کیوں رُخصت ہوگئی؟اپنے آپ کو غلامانِ مصطفےٰکہلانے والے سیرتِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اپنانے کے بجائے دُشمنانِ مصطفےٰکے طور طریقوں پر کیوں عمل پیرا ہیں؟ کیا یہی ہے ہماری محبت؟کیا عاشقِ صادق بھی محبوب کی راہوں پر چلنے سے شرماتا ہے؟نہیں نہیں ہرگز نہیں ، ارےیہی راہیں تو اس کے لئے سرمایہ ٔحیات ہیں لہٰذا ہوش میں آئیے، گفتار کے نہیں کردار کے غازی بن کر دکھائیے، غیروں کی محبت دل سے مٹائیے اور اُس ذات کی حقیقی مَحَبّت دل میں بسائیےجس کے نور نے دنیا کے اندھیروں میں اُجالا کردیا، بس حضرت محمد مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہوجائیے ساری دُنیا آپ کی ہوجائے گی۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
کی محمد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس پرفتن دور میں تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی ہمارے لئے ایک عظیم نعمت ہے جس کی برکت سے ہم اپنے تاریک دلوں میں عشْقِ مصطفےٰ کی شمع جلاسکتے ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کی تعلیمات سے مستفیض ہونے والی دنیائے اسلام کی وہ عظیم تحریک ہے جو قرآن و سنّت کی راہ پر چلاتی، عشْقِ رسول سے دلوں کو گرماتی اور صحابۂ کرام و اہْلِ بیْتِ عِظام رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی محبت کے جام بھر بھر کے پلاتی ہے ۔ اس مدنی و پاکیزہ ماحول کی برکت سے نہ جانے کتنے ہی بد عقیدہ لوگ اپنے باطل عقائد سے توبہ کرکے سنی صحیح العقیدہ بن گئے۔ آپ بھی اس مدنی ماحول سے ہردم وابستہ ہو جائیے ۔آئیے ترغیب و تحریص کے لئے ایک مَدَنی بہار مُلاحظہ کیجئے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع