30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سبق 3 اسمائے قرآن
لفظ”قرآن“ کی لغوی تحقیق:
لفظ ”قرآن “ درج ذیل تین کلمات سے مشتق مانا جاسکتا ہے:
(1) قَرْن (2) قِرَاءَۃ (3) قَرْء
(1) قَرْن:
قَرْن کے معنیٰ ہیں ”ملانا“ اس اعتبار سے قرآن کو ”قرآن“ کہنے کی 3 وجوہات ہیں:
* قرآن کی سورتیں، آیات اور حروف ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔
* قرآن میں موجود حکمتیں اور احکام ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔
* قرآن کے کتابُ اللہ ہونے پر دلائل ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ (1)
(2) قِرَاءَۃ:
لفظِ قرآن ” قِرَاءَۃ “ کا اسمِ مصدر(2)ہے، جیسے ”اَعْطٰی“ کا اسم مصدر ”عطاء“ ہے ۔ قِرَاءَۃ کے معنیٰ ہیں ”پڑھنا“ چونکہ قرآن کو پڑھا جاتا ہے اس لیے یہ اسمِ مفعول کے معنیٰ میں کلام الٰہی کا نام ہوگیا، جیسے لفظِ ” کتاب“ لفظ ”مکتوب“کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
(3) قَرْء:
قَرْء کے معنیٰ ہیں ”جمع کرنا“ اس اعتبار سے قرآن کو ”قرآن“ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں آیتیں اور سورتیں جمع ہیں۔ (3) قرآن آسمانی کتابوں کے تمام فوائد کا جامع ہے بلکہ بعض نے یہاں تک بیان کیا کہ قرآن تمام علوم کا جامع ہے۔ (4)
فائدہ: اللہ پاک نے یہ خوبصورت نام اپنے کلام کے ساتھ خاص فرمایا کہ عرب میں پہلے کبھی کسی کلام کو قرآن کہا گیا نہ کسی کتاب کا یہ نام ہوا۔ (5)
قرآن کے صفاتی نام:
قرآن پاک کی صفات، خصوصیات اور کمالات کے لحاظ سے اس کے کثیر نام ہیں ان میں سے 58 اسمائے مبارکہ درج ذیل ہیں:
نام ----معنیٰ ----نام ----معنیٰ
قرآن ----پڑھی جانے والی کتاب ----ذِکْر ----یاد دلانے والی کتاب
کِتَاب ----جمع کرنے والی کتاب ----ہُدٰی ----ہدایت دینے والی کتاب
فُرْقَان ----فیصلہ کرنے والی کتاب ----حِکْمَۃ ----حکمت والی کتاب
کَلَامُ اللہ ----اللہ کا کلام ----حُکْم ----حکم دینے والی کتاب
حَبْل ----رسی ----بَیَان ----ظاہر کرنے والی کتاب
اَحْسَنُ الْحَدِیْث ----سب سے اچھی کتاب ----حَکِیْم ----حکمت والی کتاب
مَوْ عِظَۃ ----نصیحت والی کتاب ----فَصْل ----فیصلہ کرنے والی کتاب
شِفَا ----شفا دینے والی کتاب ----رُوْح ----روح/ ایک جاں فزا چیز
رَحْمَۃ ----رحمت والی کتاب ----تِبْیَان ----روشن بیان
بَصَائِر ----دل کی روشنیاں ----مُبِیْن ----روشن کتاب
عَدْل ----انصاف ----اَمْرُ اللہ ----اللہ کا حکم
مُنَادِی ----ندا دینے والی کتاب ----بُشْریٰ ----خوشخبری
مَجِیْد ----کمالِ شرف والا ----بَلَاغ ----حکم پہنچانا
صُحُف ----صحیفے ----مُکَرَّمَۃ ----عزت والے صحیفے
نُجُوْم ----تارے یا حصے ----نِعْمَۃ ----انعام
بَشِیْر ----خوشخبری دینے والی کتاب ----مُہَیْمِن ----امانت دار یا محافظ
بُرْہَان ----واضح دلیل ----قَصَص ----حکایات
حَقّ ----سچی بات ----نَذِیْر ----ڈرسنانے والی کتاب
کَرِیْم ----عزت والی کتاب ----عَظِیْم ----عظمت والی کتاب
مُبَارَک ----برکت والی کتاب ----عَلِی ----بلندی
قَوْلٌ فَصْل ----فیصلہ کی بات ----نَبَأٌ عَظِیْم ----بڑی خبر
عَرَبِی ----عربی کتاب ----وَحْی ----وحی
عَجَب ----عمدہ کلام ----تَذْکِرَۃ ----نصیحت
عُرْوَۃُ الْوُثْقٰی ----مضبوط گرہ ----صِدْق ----سچی بات
صِرَاطٌ مُسْتَقِیْم ----سیدھا راستہ دکھانے والی کتاب ----ہَادِی ----راہ دکھانے والی والی کتاب
مَرْفُوْعَۃ ----بلندی والے صحیفے ----مُطَہَّرَۃ ----پاکی والے صحیفے
تَنْزِیْل ----تھوڑی تھوڑی نازل ہونے والی کتاب ----نُوْر ----چمک یا روشنی دینے والی کتاب
مُحْکَم ----پختہ، مضبوط ، حکمت بھری کتاب ----قَیِّم ----قائم رہنے والی کتاب/ عدل والی کتاب
عَزِیْز ----غالب/ بے مثل/ عزت والی کتاب ----مَثَانِی ----بار بار نازل ہونے والی کتاب(6)
* * * *
مشق
سُوال: قَرْن کے معنیٰ اور اس اعتبار سے قرآن کی وجہ تسمیہ بیان کیجیے۔
سُوال: اسمِ مصدر کی تعریف لکھیے، نیز قرآن اگر اسمِ مصدر ہو تو اس کے معنیٰ کیا ہوں گے؟
سُوال: قَرْء کے معنیٰ اور اس اعتبار سے قرآن کی وجہ تسمیہ بیان کیجیے۔
سُوال: قرآن کے کوئی 10 صفاتی نام معنیٰ کے ساتھ یاد کرکے تحریر کیجیے۔
سبق 4 حدیثِ قدسی
حدیثِ قدسی کی تعریف:
هُوَ مَا أَضَافَهُ النَّبِيُّ إِلَي اللهِ تَعَالٰي
یعنی وہ حدیث جس کی نسبت رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم اللہ پاک کی طرف فرمائیں ۔ حدیثِ قُدْسی کو ”حدیثِ الٰہی“ اور ”حدیثِ ربَّانی“ بھی کہا جاسکتا ہے۔ (7)
حدیثِ قدسی کی خبر معلوم کرنے کا طریقہ:
جس حدیث کی سند میں راوی مندرجہ ذیل جملے کہے وہ حدیثِ قدْسی ہوتی ہے:
* قَالَ رسولُ اللہ فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَبِّہٖ
یعنی رسولُ اللہ نے فرمایا اس بارے میں جو آپ اپنے پَروَردِگار سے روایت فرماتے ہیں...۔
* قَالَ رسولُ اللہ قَالَ تَعَالٰی
یعنی رسولُ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے...۔
* قَالَ رسولُ اللہ یَقُوْلُ تَعَالٰی
یعنی رسولُ اللہ نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے...۔
حدیثِ قُدْسی اور قرآن میں فرق:
حدیثِ قُدْسی اور قرآن پاک دونوں ہی اللہ پاک کا کلام ہیں، لیکن ان کے درمیان چند طرح سے اہم فرق بھی ہے؛ ذیل میں ایسے آٹھ فرق بیان کیے جارہے ہیں ملاحظہ کیجیے:
قرآنِ مجید ----حدیثِ قدسی
لفظ اور معنیٰ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ ----معنیٰ اللہ کی طرف سے ہیں اور الفاظ رسولُ اللہ کی طرف سے ۔(8)
روایت بالمعنیٰ (9) جائز نہیں ۔ ----روایت بالمعنیٰ جائزہے۔ (10)
اس کے ساتھ نماز درست ہے۔ ----اس کے ساتھ نماز درست نہیں ۔
تلاوت عبادت ہے اور قاری کو ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی۔ ----تلاوت عبادت نہیں اور ثواب اسی طرح ہوگا جیسا دیگر اعمال میں ہوتا ہے۔(11)
بے وضو کو اس کا چھونا حرام ہے اور بے غسل کا تلاوت کرنا بھی حرام ہے۔ ----بے وضو اور بے غسل کا اس کو چھونا اور پڑھنا دونوں جائز ہیں۔ (12)
الفاظ ومعنیٰ دونوں کی روایت متواتر ہے۔ ----روایت کا متواتر ہونا ضروری نہیں۔(13)
صحت یقینی ہے اور تحریف و تبدیلی سے محفوظ ہے۔ ----صحیح، ضعیف بلکہ موضوع بھی ہوسکتی ہیں۔
پوراکا پورا مصحف شریف میں موجود ہے۔ ----کتبِ احادیث میں بکھری ہوئی ہیں۔
مشق
سُوال: حدیثِ رَبَّانی کی تعریف کیجیے۔
سُوال: حدیثِ الٰہی کو راوی کن الفاظ سے روایت کرتے ہیں؟
سُوال: قرآنِ مجید اور حدیثِ قدْسی کے درمیان فرق بتائیے۔
سُوال: درجِ ذیل اصطلاحات کی وضاحت کیجیے:
*سند --*راوی--*تحریف
*صحیح--*ضعیف--*موضوع
سبق 5 وحی
وحی کا معنیٰ:
وحی کا لفظ چھ معانی کے لیے آتا ہے: (1) اَلْاِشَارَۃ یعنی اشارہ کرنا (2) اَلْکِتَابَۃ یعنی لکھنا (3) اَلرِّسَالَۃ یعنی پیغام بھیجنا (4) اَلْاِلْہَام یعنی دل میں بات ڈالنا (5) اَلْکَلَامُ الْخَفِیُّ یعنی خفیہ بات کرنا (6) اَلصَّوْتُ فِیْ الْاَشْیَاءِ یعنی چیزوں میں پیدا ہونے والی آواز۔ (14)
وحی کی تعریف:
هُوَ كَلَامُ اللهِ الْمُنَزَّلُ عَلٰي نَبِيٍّ مِّنْ أنْبِيَائِہٖ ۔(15)
یعنی اللہ پاک کا وہ کلام جو کسی نبی پر نازل ہوا ہو۔
وحی کی اقسام:
انبیائے کِرام علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام کے حق میں وحی کی درج ذیل تین قسمیں ہیں:
(1) بغیر کسی واسطے کے اللہ پاک کا قدیم کلام سننا، مثلاً پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شبِ مِعراج کلامِ دِل نَواز سننے کا شَرَف پایا۔
(2) فَرِشتے کے ذریعے اللہ پاک کا کلام آنا، مثلاً قرآنِ مجید کی اکثر آیات۔
(3) انبیائے کِرام کے دلوں میں معانی ڈالنا، جیسا کہ رسولُ اللہ نے فرمایا: إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِيْ رُوْعِيْ (16) یعنی جبریلِ امین علیہ السّلام نے میرے دل میں القا فرمایا ۔(17)
وحی کی صورتیں:
انبیائے کِرام کی طرف سات طریقوں سے وحی آیا کرتی تھی:
(1) خواب میں وحی ہو، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا۔
(2) گھنٹی کی آواز جیسی آواز ہو ، وحی کی یہ قسم سب سے سخت ہوا کرتی تھی۔
(3) دل میں القا ہو۔
(4) فِرِشتہ کسی مرد کی شکل میں وحی لے کر آئے، جیسے حضرتِ جبریلِ امین علیہ السلام حضرتِ دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں حاضر ِبارگاہ ہوتے۔
(5) حضرت جبریلِ امین علیہ السلام اپنی اصل صورت میں حاضر ہوں کہ ان کے چھ سو بازو ہوتے جن سے یاقوت اور موتی جھڑتے۔
(6) اللہ پاک کا کلامِ قدیم سنیں، خواہ بیداری میں ہو جیساکہ کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملاحظہ فرمایا، یا خواب میں جیساکہ حدیث شریف میں ہے: أَتَانِيْ رَبِّيْ فِيْ أَحْسَنِ صُوْرَةٍ... فَقَالَ فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الْأَعْلیٰ ؟ (18) یعنی میرے پروردگار نے مجھ پر بہترین تجلی فرمائی، پھر پوچھا ملاءِ اعلیٰ ( مقرب فرشتے) کس بارے میں بحث کر رہے ہیں؟
(7) حضرت اِسرافیل علیہ السلام وحی لے کر حاضر ہوں، جیسا کہ آپ تین سال تک پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں وحی لانے کی خدمت پر مامور تھے، پھر یہ خدمت حضرت جبریلِ امین علیہ السلام کے سپرد کردی گئی۔ (19)
وحی کی کیفیات:
وحی کا نُزول بہت عظیم معاملہ ہے جس کی وجہ سے انسان رحمانی اُجالوں سے جا ملتا ہے اور یہ خوبی اللہ پاک اپنے ان برگُزیدہ ہستیوں میں پیدا فرمادیتا ہے جن کو اِس شَرف سے نوازتا ہے؛ نُزولِ وحی کے وقت شدید مشقت کا سامنا ہوتا ہے جسے برداشت کرنا کسی بھی عام بَشَر کے بس کی بات نہیں۔ ذیل میں ان کیفیات کا بیان کیا جارہا ہے جو نُزولِ وحی کے وقت رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر طاری ہوا کرتی تھیں:
* جب وحی نازل ہوتی تو سخت ٹھنڈ کے موسم میں بھی پیشانی پر پسینا آنے لگتا۔ (20)
* نُزولِ وحی کے وقت چہرۂ مبارکہ کے پاس مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی۔ (21)
* وحی نازل ہوتے وقت آپ کا جسم مبارک بہت زیادہ وزنی ہوجاتا۔ (22)
* اگر سواری کی حالت میں وحی آتی تو سواری کا جانور اس کا بوجھ برداشت نہ کرپاتا اور بیٹھ جاتا؛اس میں حرکت کرنے کی بالکل طاقت نہ رہتی۔ (23)
* * * *
مشق
سوال: وحی کے لغوی معانی بیان کیجیے۔
سوال: وحی کی تعریف عربی میں یاد کیجیے اور اپنی کاپی پر اس کا خوش خط ترجمہ لکھیے۔
سوال: وحی کی اقسام بیان کیجیے۔
سوال: وحی کی سات صورتوں کے بارے میں بتائیے کون سی صورت کس قسم کے تحت ہوگی؟
سوال: بوقتِ وحی پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کیفیات پر روشنی ڈالیے۔
سبق 6 نُزولِ قرآن
نزولِ قرآن کا معنیٰ:
قرآن کا لوحِ محفوظ اور آسمانِ دنیا پر نازل ہونا اور حقیقی الفاظ کے ساتھ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف اتر نا۔ (24)
نُزولِ قرآن کی تعداد:
قرآن مجید کا نزول تین مرتبہ ہوا:
پہلا نزول: لوحِ محفوظ کی طرف ایک ساتھ پورا قرآن نازل ہوا؛ چونکہ لوحِ محفوظ کی تخلیق کی حکمت یہی ہے کہ اس میں ہر شے لکھ دی جائے (25) اور قرآن کا معاملہ اس کائنات میں سب سے اَہم ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌۙ(۲۱) فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۠(۲۲) ) (26)
ترجمہ: بلکہ وہ کمال شرف والا قرآن ہے لوحِ محفوظ میں۔
دوسرا نزول : شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف ایک ساتھ ہی پورا قرآن نازل ہوا؛ تاکہ آسمان پر رہنے والے فَرِشتے قرآن اور صاحبِ قرآن یعنی رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظمت و شان سے واقف ہوجائیں،(27) جیساکہ ان تین آیات سے معلوم ہوتا ہے:
(1)( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ) (28)
ترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔
(2)( اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ ) (29)
ترجمہ: بے شک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا ۔
(3)( اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱) ) (30)
ترجمہ: بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا۔
تیسرا نزول: آسمانِ دنیا سے قلبِ مصطفےٰ کی طرف کم و بیش 23 سال کے عرصے میں ضرورت کے مطابق تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا تاکہ اللہ پاک کی عنایات کا ظہور ہوتا رہے، شرعی احکام کا آہستہ آہستہ نفاذ ہو اور اُمَّت پر کسی قسم کی دُشواری نہ ہو۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
( وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا(۱۰۶) ) (31)
ترجمہ:اور قرآن ہم نے جدا جدا کرکے اتارا کہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے بتدریج رہ رہ کر اتارا ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ(۱۹۳) عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(۱۹۴) بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍؕ(۱۹۵) )(32)
ترجمہ: اُسے روح الا مین لے کر اُترا تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ روشن عربی زبان میں۔ (33)
مُتَعَدِّد نُزول کی مُشْتَرَکہ حکمت:
قرآن پاک کے اس کثرتِ نُزول یعنی پہلے لوحِ محفوظ، پھر آسمانِ دنیا اور پھر قلبِ مصطفےٰ پر نازل فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ قرآن سے ہر قسم کے شکوک و شبہات کی نفی ہوجائے اور مسلمانوں کے ایمان کی پختگی اور اعتماد کی زیادتی ہو کیونکہ جو کلام کئی دستاویزات میں ہو اس کی صحت بڑھ جاتی ہے اور تمام شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں،نیز سمجھ دار شخص اس کو درست تسلیم کرلیتا ہے۔ (34)
* * * *
مشق
سُوال:نزولِ قرآن کا معنیٰ بیان کیجیے اور بتائیے متعدد نزول میں کیا حکمت تھی؟
سُوال: قرآن کے تین بار نزول میں سے ہر ایک کی ایک ایک حکمت بتائیے۔
سُوال: نزولِ قرآن والی آیات اپنی کاپی پر خوش خط تحریر کیجیے۔
1…… تفسیرکبیر، 2/253۔
2…… وہ اسم جو کسی کام یا حرکت کا نام ہو،جس کے حروف لفظاً اور تقدیراً فعل ماضی کے حروف سے کم ہوں نیز جس میں کوئی حرف دوسرے حرف کے عِوض نہ ہو اسے اسم مصدر کہا جاتا ہے، مثلاً عطاء، ثواب، وضو وغیرہ یہ سب اسم مصدر ہیں جبکہ قتال اور عدۃ وغیرہ اسم مصدر نہیں ہیں۔
3…… تفسیرکبیر، 2/253-254۔
4……مفردات الفاظ القرآن، ص 669۔
5…… الاتقان فی علوم القرآن، 1/159۔
6…… تفسیر کبیر،1/260تا265-الاتقان فی علوم القرآن،1/159تا164-البرہان فی علوم القرآن 1/343 تا 353- تفسیر نعیمی، 1/89تا91- کنزالایمان۔
7…… عمدۃ القاری، 8/11، تحت الحدیث:1894۔
8……تیسیر مصطلح الحدیث، ص 94۔
9…… جس میں راوی حدیث کے اصل الفاظ کی جگہ اس کے مفہوم کو اپنے لفظوں میں بیان کرے۔
10……مناہل العرفان، ص 42۔
11 ……دلیل الفالحین، 1/173۔
12 ……دلیل الفالحین، 1/173۔
13 ……تیسیر مصطلح الحدیث، ص 94۔
14……عمدۃ القاری، 1/37۔
15 ……عمدۃ القاری، 1/37۔
16 ……شرح السنۃ، 7/330، حدیث:4007۔
17 ……عمدۃ القاری، 1/74، تحت الحدیث:2۔
18…… ترمذی، 5/159، حدیث:3245۔
19……عمدۃ القاری، 1/74 تا 75، تحت الحدیث:2۔ الروض الانف، 1/401تا 402۔
20…… بخاری، 1/7، حديث:2۔
21 …… ترمذی، 5/117، حدیث:3184۔
22 …… بخاری، 3/208،حدیث:4592۔
23 …… مسند احمد، 9/430، حدیث:24922 - تفسیر طبری، 12/281، تحت الآیۃ:5 - علوم القرآن الکریم، ص 21۔
24……مناہل العرفان،ص 36۔
25 …… مناہل العرفان،ص 37۔
26 …… پ 30، البروج: 21-22۔
27 …… المرشد الوجیز، ص24۔
28 ……پ2،البقرۃ: 185۔
29……پ 25، الدخان: 3۔
30 ……پ30، القدر: 1۔
31 ……پ15، بنی اسرائیل: 106۔
32 …… پ19، الشعراء: 193 تا 195۔
33 ……مناہل العرفان،ص 37 تا 40ملخصاً۔
34……مناہل العرفان،ص 39۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع