30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی روانگی کا علم نہ تھا۔ جب انہیں مدینہ منورہ پہنچ کر معلوم ہوا تو فوراً آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی طرف روانہ ہوئے اور جباللہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم غزوۂ بدر کے خاتمے کے بعد واپس تشریف لا رہے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الرقم۴۷طلحۃ بن عبیداللہ، ج۳، ص۱۶۲)
علامہ ابن عبد البر قرطبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفٰی ۴۶۳ ھ) نے ’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘ میں ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کی : ’’کیا انہیں غزوۂ بدر میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت سے حصہ ملے گا؟‘‘ تو سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ہاں ! تمہیں ضرور حصہ ملے گا۔‘‘ اور جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اصحابِ بدر کو ملنے والے اجر و ثواب کے بارے میں عرض کی کہ میرے اجر کا کیا ہو گا؟ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ’’تمہیں اجر بھی ملے گا۔‘‘ (الاستیعاب، الرقم ۱۲۸۹ طلحۃ بن عبید اللہ التیمی، ج۲، ص۳۱۷۔ متلقطاً)
حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ بدر میں چونکہ بہادری کے جوہر نہ دکھا سکے تھے لہٰذا جب غزوۂ احد کے لئے میدان سجا تو آپ اس میں ایسے شہسوار بن کر کودے کہ سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ چنانچہ،
ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق کو غزوۂ احد کی یاد ستاتی تو آپ رونے لگتے اور فرماتے کہ یہ دن تو تھا ہی حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں (افراتفری کے عالم میں ) سب سے پہلے حضور نبی ٔپاک، صاحبِ لَوْلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی طرف متوجہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص بڑی بہادری و جواں مردی سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی حفاظت کر رہا ہے، میرے دل میں آیا کہ خدا کرے یہ حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہوں اور وہ واقعی سیِّدُنا طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہی تھے۔ اور مجھے اس وقت سب سے بڑھ کر یہی شے محبوب تھی کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، مکّی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی حفاظت پر اس جواں مردی سے جان نچھاور کرنے والا میری قوم کا فرد ہو۔(تاریخ اسلام للامام الذھبی، ج۲، ص۱۹۰)
غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں پر حُسنِ اَخلاق کے پیکر، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی شہادت کی افواہ بجلی بن کر گری تو سب شکستہ دل ہو گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس عالم میں بارہ ایسے جانثار بھی تھے جواللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے گرد سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے تھے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دشمنانِ اسلام کی شر انگیزی سے محفوظ رکھنے کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے، ان بارہ جانثاروں میں گیارہ انصاری اور ایک مہاجر تھے۔ اور یہ مہاجر حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم صحابہ کرام کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے کی کوشش فرما رہے تھے، جب مشرکین کو معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً اس طرف حملہ کر دیا۔ پس شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ دشمنانِ اسلام کو کون روکے گا؟ شہادت کی تمنا سے سرشار سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : ’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میں انہیں روکتا ہوں۔‘‘ مگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اجازت نہ دی اور ارشاد فرمایا کہ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔ چنانچہ، ایک انصاری نے آگے بڑھ کر کفار کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی تا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پہاڑ پر
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع