30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اس وضاحت سے مزید درج ذیل علمی فوائد و شرعی احکام سامنےآتے ہیں
(1)دمِ مسفوح (یعنی ذَبْح کے وقت نکلنے والا خون) تو جہاں جہاں لگے گا وہ ناپاک بھی ہو جائے گی اور گوشت کے اس حصے کو پاک کئے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس دمِ مسفوح کے علاوہ گوشت کے ساتھ گوشت کا اپنا خون لگا ہے اور اسی طرح اس گوشت کو پکا کر استعمال کیا گیا تو یہ گناہ نہیں ۔1 جیسے مرغی کی پکی ہوئی ران یا دیگر حصوں میں بعض اوقات ہڈی کے قریب خون کی سرخی باقی ہوتی ہے تو یہ اگرچہ طبعی طور پر کراہت و ناپسندیدگی کا باعث ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ سے اسے کھانا ،ممنوع قرارنہیں دیا جائے گا۔
(2) یونہی گوشت میں کئی جگہ چھوٹی چھوٹی رگوں میں خون ہوتا ہے ۔پکنے کے بعد وہ رگیں کالی ڈوری کی طرح ہوجاتی ہیں۔ خاص کر بھیجے(دماغ/ مغز)، سری پائے اور مرغی کی ران اورپَر کے گوشت وغیرہ میں باریک کالی ڈوریاں دیکھی جاتی ہیں۔ کھاتے وقت ان کو نکال دینا چاہیے۔ ویسے بھی طبعی طور پر اسے کھانا پسندیدہ نہیں۔ لیکن شرعی حکم
1...امام ابوبکرجصاص رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:’’ عن قتادۃ فی قولہ اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا (پ8، الانعام :145 ) قال حرم من الدم ما کان مسفوحا وأما اللحم یخالطہ الدم فلا بأس بہ ۔ “(احکام القرآن للجصاص ، 3/33) فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:’’ و عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہ انما یحرم الدم المسفوح وھو السائل فاما ما یکون فی اللحم ملتزقا بہ فلا باس بہ ‘‘(فتاوی تاتارخانیہ، 1/291) تفسیر خازن میں ہے: ” اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا (پ8، الانعام:145 ) وهو ما سال من الحيوان في حال الحياة أو عند الذبح فإن ذلك الدم حرام نجس وما سوى ذلك كالكبد والطحال فإنهما حلال لأنهما دمان جامدان. وقد ورد الحديث بإباحتهما وكذا ما اختلط باللحم من الدم لأنه غير سائل،۔۔۔ وقال إبراهيم النخعي: لا بأس بالدم في عرق أو مخ إلا المسفوح “(تفسیر خازن، 2/ 168)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع