30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سبق نمبر 25
حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے مَروی کہ شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِحُسن وجمال صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کےمبارک زمانے میں ایک مرتبہ آفتاب میں گہن لگا، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم مسجِد میں تشریف لائے اوربَہُت طویل قِیام و رُکوع و سجود کے ساتھ نَماز پڑھی کہ میں نے کبھی ایسا کرتے نہ دیکھا اور یہ فرمایا کہ اللّٰہ پاک کسی کی موت و حیات کے سبب اپنی یہ نشانیاں ظاہِر نہیں فرماتا،بلکہ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب ان میں سے کچھ دیکھو تو ذکر و دُعا و اِستِغفار کی طرف گھبرا کر اٹھو۔(1)
سوال:سورج گَہْن کی نماز کا حکم بتائیےاور اِس کی جماعت کی کیا شرائط ہیں؟
جواب:سورج گَہْن کی نماز سُنّتِ مؤکَّدہ ہےاورجماعت سے پڑھنا مستحب ہے، اگر جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے سوا تمام شرائطِ جُمُعَہ اس کے لیے شرط ہیں،وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جُمُعَہ کی کر سکتا ہے ،وہ نہ ہو تو تنہا گھر میں یا مسجد میں پڑھیں ۔(2)
سوال: سورج گہن کی نماز کس وقت پڑھنے کا حکم ہے؟
جواب:گہن کی نماز اسی وقت پڑھیں جب آفتاب گہنا ہو، گہن چھوٹنے کے بعد نہیں اور گہن چھوٹنا شروع ہوگیا مگر ابھی باقی ہے اُس وقت بھی شروع کر سکتے ہیں اور گہن کی حالت میں اس پر اَبر(یعنی بادل) آجائے جب بھی نماز پڑھیں۔ ایسے وقت گہن لگا کہ اس وقت نماز ممنوع ہے تو نماز نہ پڑھیں، بلکہ دُعا میں مشغول رہیں اور اسی حالت میں ڈوب جائے تو دُعا ختم کر دیں اور مغرب کی نماز پڑھیں۔(3)
سوال: سورج گہن کی نماز کہاں پڑھی جائے؟
جواب: افضل یہ ہے کہ عید گاہ یا جامع مسجد میں اس کی جماعت قائم کی جائے اور اگر دوسری جگہ قائم کریں جب بھی حرج نہیں۔ (4)
سوال: سورج گہن کے وقت نماز جنازہ حاضر کیا جائے تو پہلے جنازہ پڑھیں یا سورج گرہن کی نماز؟
جواب: سورج گہن اور جنازہ کا اجتماع ہو تو پہلے جنازہ پڑھے۔(5)
جب سورج یا چاند کو گہن لگے تومسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس نظارے سے محظوظ ہونے( ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گرہن کے وَقْت سورج کو براہ راست دیکھنے سے آنکھ کی بینائی بھی جاسکتی ہے) اور توہمات کا شکار ہونے کے بجائے بارگاہِ الٰہی میں حاضری دیں اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طَلَب کریں ،اس یومِ قیامت کو یاد کریں جب سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے اور ستارے توڑدئیے جائیں گے اور پہاڑ لپیٹ دئیےجائیں گے ۔(6)
سبق نمبر 26 مسائلِ امامت کا بیان
اِمامت کی فضیلت و عظمت اس سے بڑھ کر کیا بیان کی جائے کہ یہ وہ مَنْصَب ہے جسے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے نبھایا اور اس کے لئے بہترین اَفراد کو منتخب کیا۔رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے:روزِ قِیامت تین شخص کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے (ان میں سے) ایک وہ شخص جو قوم کا اِمام رہا اوروہ (یعنی قوم کے لوگ) اس سے راضی تھے۔(7) ایک روایت میں ہے کہ اِمام کو اس قدر اَجر ملے گا جس قدر اس کے پیچھے نَماز ادا کرنے والے سب مقتدیوں کو ملے گا۔(8)
سوال: امام کسے کہتے ہیں؟
جواب:امام کے معنی ہیں پیشوا ،راہبر،اُمٌّ سے بنا،بمعنی قصدو ارادہ یعنی جس کی پیروی کا لوگ قصد کریں،اب دینی پیشوا کو کہا جاتا ہے۔(نماز کی ) اِمامت کے یہ معنی ہیں کہ دوسرے کی نماز کا اس کی نماز کے ساتھ وابستہ ہونا۔ (9)
سوال: امامت کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب:امامت دو قسم کی ہے:امامتِ صغرٰی یعنی نماز کی امامت،امامتِ کبرٰی یعنی خلافتِ اسلامیہ یہاں امامتِ صغریٰ مراد ہے۔(10)
سوال: نمازکا امام کون بن سکتا ہے اور اس کی کتنی شرائط ہیں؟
جواب:ہر شخص امام نہیں بن سکتا چند شرائط تو وہ ہیں جن کا شرعاً پایا جانا لازم ہے جبکہ بہت سے اَوصاف اور کئی خلافِ مُرَوَّت باتوں سے اِجتناب منصبِ امامت کا اَوَّلین تقاضا ہے۔
(1)مسلمان ہونا(2)بالِغ ہونا (3) عاقِل ہونا (4) مرد ہونا (5) قرأت صحیح ہونا (6)شرعی معذور نہ ہونا(11)
سوال: سب سے زیادہ امامت کا حق دار کون ہے؟
جواب: ہر جماعت میں سب سے زیادہ مستحقِ امامت وہی ہے جو اُن سب سےزیادہ مسائلِ نماز و طہارت جانتا ہواگرچہ اور (دیگر) مسائل میں بہ نسبت دوسروں کے کم علم ہو ۔مگر شرط یہ ہےکہ حروف اتنے صحیح ادا کرےکہ نماز میں فساد نہ آنے پائے اور فاسق و بد مذہب نہ ہو، جو شخص ان صفات کاجامع ہو اس کی امامت افضل، اگرچہ اندھا ہو کہ زیادتِ علم کے باعث کراہتِ نابینائی زائل ہوجاتی ہے۔(12)
سوال: دو شخص امامت کے اہل ہیں تو ان میں امامت کے لئے کس کو ترجیح دی جائے؟
جواب: دو شخص جوجامع شرائطِ امامت، سنی صحیح العقیدہ، فاسقِ معلن نہ ہوں، قرآن عظیم صحیح مخارج سے پڑھتے ہوں، ان دونوں میں سب سے مقدم وہ ہے جو نماز و طہارت کے مسائل کا زیادہ علم رکھتا ہو ۔ پھر اگر اس علم میں دونوں برابر ہوں تو جس کی قرأت اچھی ہو۔ پھر جو زیادہ پرہیزگار ہو شبہات سے زیادہ بچتا ہو ۔ پھر جو عمر میں بڑا ہو۔ پھر جو خوش خلق ہو۔ پھر جو تہجد کا زیادہ پابند ہو۔ یہاں تک شرفِ نسب کا لحاظ نہیں۔ جب ان سب باتوں میں برابر ہوں تو اب شرافتِ نسب سے ترجیح ہے۔(13)
سوال: مسجد کا امام مقرر ہو اور اس کے علاوہ کوئی اس سے زیادہ عالم یا زیادہ علمِ تجوید والا ہو تو کون امامت کا حق دار ہے؟
جواب: امامِ معین اگر جامع شرائطِ امام ہے تو وہی امامت کا حق دار ہے۔ اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سےزیادہ علم اور زیادہ تجوید والا ہو۔ (14)
سوال: نماز میں امام کا لمبی قرأت کرنا اور مُقتدیوں کا لمبی قرأت کرنے پر باتیں کرنا کیسا ہے؟
جواب:فرض نمازوں میں قرأت کے معاملے میں امام کے لئے سنّت یہ ہے کہ اگر مُقیم ہونے کی حالت میں نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور جماعت میں بوڑھا، بیمار، ضعیف اور ضروری کام والاکوئی فرد موجود نہ ہو تو فجر اور ظہر کی نماز میں طِوالِ مُفَصَّل ( یعنی سورۂ حُجُرَات سے سورۂ بُرُوج تک)، عصر اور عشاء میں اَوْساطِ مُفَصَّل (یعنی سورۂ بُرُوْج سے لے کر سورہ ٔبَیِّنَہ تک) اور مغرب میں قِصارِ مُفَصَّل( یعنی سورۂ بَیِّنَہ سے سورۂ ناس تک )پڑھے۔
یا پھر فجر اور ظہر کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ 40 سے 50 آیات تک، عصر اور عشاء میں 15 سے 20 آیات تک اور مغرب میں 10 آیات تک پڑھے۔
اور اگر نماز میں بوڑھا، ضعیف، بیمار اور ضروری کام والا کوئی فرد موجود ہو تو ان کی رعایت کرتے ہوئے قرأت میں تخفیف(یعنی کمی) کرے۔
اور اس سے ہَٹ کر امام کاقرأت کرنا بُرا ا ور خلافِ سنت ہے اور اگر نمازیوں میں کوئی بوڑھا یا مریض یا ضروری کام والا ہے جس پر طویل قرأت گِراں( یعنی دشوار) گزرتی ہو تو یہ ناجائز و حرام ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ(یعنی پوچھی گئی صورت) میں اگر امام سنت کے مطابق قرأت کرتا ہے تو مقتدیوں کو امام کے خلاف باتیں کرنے کی اجازت نہیں اور اگر وہ مذکورہ طریقے پرقرأت نہیں کرتا بلکہ اس سے ہَٹ کر دیگر لمبی سورتیں پڑھتا ہے تو اس صورت میں وہ قصور وار ہے، مقتدیوں کو چاہئےکہ پیارو محبت سے اُسے سمجھائیں نہ یہ کہ اس کے خلاف باتیں کرنا شروع کردیں۔(15)
سوال: عالم اگر فاسق و بدمذہب یا درست حروف ادا نہ کرسکے تو اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟
جواب:فاسق و بدمذہب کی امامت بہرحال مکروہ اگرچہ سب حاضرین سےزیادہ علم رکھتے ہوں ۔یوں ہی اگر حرف ایسے غلط ادا کئے کہ نماز گئی توامامت جائز ہی نہیں اگر چہ عالم ہی ہو۔(16)
سوال:وہ بد مذہب جس کی بد مذہبی حد کفر کو پہنچ گئی ہو اس کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟َ
جواب: وہ بد مذہب جس کی بد مذہبی حد کفر کو پہنچ گئی ہو، جیسے رافضی اگرچہ صرف صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی خلافت یا صحبت سے انکار کرتا ہو، یا شیخین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کی شانِ اقدس میں تبرّا کہتا ہو۔ قدری، جہمی، مشبہ اور وہ جو قرآن کو مخلوق بتاتا ہے اور وہ جو شفاعت يا دیدار الٰہی يا عذابِ قبر يا کراماً کاتبین کا انکار کرتا ہے، ان کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی۔(17)
سوال: حروف کو درست ادا نہ کرنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:اگر قرآن مجید ایسا غلط پڑھتاہےجس سےنمازفاسدہوتی ہےمثلاًأ ، ع یا ت ،ط ، ث ، س ، ص یا ح ، ہ یا ذ ،ز ، ظ ،ض میں فرق نہیں کرتاتو اسکےپیچھےنماز باطل ہے اوراس صورت میں اسکےپیچھے نماز نہ پڑھنا ترکِ جماعت نہیں کہ وہ جماعت کیا نمازہی نہیں ، یونہی اگر اس کا وضومشکوک رہتاہےجب بھی اس کےپیچھےنہ پڑھنےمیں مواخذہ نہیں۔ وَاﷲ ُاَعْلَمُ (18)
سوال: ایسا عالم جو ایک پاؤں سے لنگڑا ہے، اس پاؤں کی ایک انگلی زمین پر لگا سکتے ہے، اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟
جواب:ایسےشخص کی امامت بلا شبہ جائزہے۔ پھر اگر وہی عالم ہےتووہی زیادہ مستحق ہے۔ اس کے ہوتے جاہل (غیرِ عالم)کی تقدیم (یعنی امام بنانا)ہر گز نہ چاہئے ۔ اوراگر دوسرا عالم بھی موجودہے جب بھی اس (لنگڑے عالم)کی امامت میں حرج نہیں مگر بہتر وہ دوسرا (عالم)ہے ۔ یہ سب اس صورت میں (ہے) کہ دونوں شخص شرائطِ صحت و جوازِ امامت کےجامع ہوں (یعنی دونوں عالموں میں شرائطِ امامت پائی جاتی ہوں)۔ صحیح خواں،صحیح الطہارۃ، سنی صحیح العقیدہ ، غیر فاسقِ معلن، (یعنی درست قرات کرنے والا، ٹھیک سے طہارت کرنے والا، درست عقیدے والا سنی ہو اور علانیہ طور پر گناہِ کبیرہ کرنے والا نہ ہو) ورنہ جو جامعِ شرائط ہوگا وہی امام ہوگا۔ درمختار میں ہے: مختار قول پر سیدھا کھڑے ہونے والے کی نماز کبڑے شخص کے پیچھے درست ہے اگر چہ اس کا کُبڑا پن رکوع کی حد تک ہو۔ اسی طرح لنگڑے کا حکم ہے۔ البتہ دوسرے آدمی کی امامت افضل و اولیٰ ہے۔(19)
کانوں تک ہاتھ نہ اٹھ سکنےوالے کی امامت کا حکم
اگر امام کا ہاتھ کسی معذوری کی بنا پر بے حِس و حرکت ہوگیا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک نہیں اُٹھا سکتا تو ایسے امام کی اِمَامَت بلا کراہت جائز ہے بلکہ اگروُہ قوم سے زِیادَہ عالِم ہے تو اِمَامَت کا مُسْتَحِق وہی ہے ۔(20)
سوال:اشارے سے یا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو رکوع و سجود سے عاجز ہے یعنی وہ کہ کھڑے یا بیٹھے رکوع و سجود کی جگہ اشارہ کرتا ہو، اس کے پیچھے اس کی نماز نہ ہوگی جو رکوع وسجود پر قادر ہےاور اگر بیٹھ کر رکوع و سجود کر سکتا ہو تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی ہو جائے گی۔ (21)
سوال: ہاتھ پاؤں میں انگوٹھی چھلے پہننا یعنی ایک نگ کی ایک انگوٹھی موافقِ شریعت مطہرہ سے زائد پہننے والے کا کیا حکم ہے؟ اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا؟
جواب:ایک آدھ بار پہننا گناہِ صغیرہ اور اگر پہنی اور اتار ڈالی تو اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں ۔ اور اگر نماز میں پہنے ہو تو اسے امام بنانا ممنوع (ناجائز) اور اس کے پیچھے نماز مکروہ ۔ یوں ہی جو پہنا کرتا ہےا ُس کا عادی ہے، فاسقِ معلن ہے اور اس کا امام بنانا گناہ اگر اس وقت نماز میں نہ بھی پہنے ہو۔(22)
سوال:امام صرف ٹوپی پہن کر نماز پڑھائے تو کیا حکم ہے؟
جواب: صرف ٹوپی پہن کر نماز پڑھانا جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے۔ (23)
سوال: اگر امام دوسری سورت ملانے میں اتنی دیر کرتا ہے کہ آمین کہنے کے بعد کلمہ طیبہ پڑھا لیا جائے تو اتنی دیر کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: سورۃ سوچنے سے اتنی دیرجس میں تین با ر سُبْحٰنَ اللہ کہہ لیا جائے، ترکِ واجب و موجبِ سجدۂ سہو ہے۔ تو یہ جس کی عادت ہے اس کے پیچھے نماز میں ضرور کراہت ہے۔ ہاں فاتحہ کےبعداتنی دیر کہ دم راست کرے (یعنی سکون کے لئے تھوڑا سانس لے)، آمین کہے،کوئی سورۃ ابتداء سے پڑھنی ہو تو بِسْمِ ﷲ الرَحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھے کہ یہ دیر بھی تقریباً کلمہ طیّبہ پڑھنے کے برابر ہوجائے گی، بلاشبہ مباح و سنّت ومستحب ہے۔(24)
سوال: امام سجدے میں صرف ایک انگلی زمین پر لگائے تو اس کی اقتدا میں نماز درست ہے؟
جواب:ہدایہ میں ہے : نمازی سجدہ کرتے وقت اپنے دونوں پاؤں کی سب انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب کردے اور یہ بالکل واضح مطابقِ مشاہدہ ہے کہ جب تک سب انگلیوں کاپیٹ زمین سے نہ لگادیا جائے اس وقت تک انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف نہ ہوگا۔ فتاوی رضویہ میں ہے: سجدہ میں فرض ہے کہ کم از کم پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگا ہو۔ اور ہر پاؤں کی اکثر (یعنی تین)انگلیوں کاپیٹ زمین پر جما ہونا واجب ہے۔ اور بہار ِشریعت میں ہے: سجدہ میں دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب اور دسوں کا قبلہ رو ہونا سنت ۔ اب اگر امام صاحب اس مسئلے کو تسلیم کرکے سجدہ میں اپنے ہر پاؤں کی کم از کم تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر جماتے رہیں تو ان کی اقتدا میں نماز ہوجائے گی۔ اور اگر مَعَاذَ اللہ امام صاحب اس مسئلہ پرعمل کرنے کو تیار نہ ہوں تو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ (25)
سوال:کیا امام کا مقتدیوں کی نماز صحیح ہونے کے لیے ان کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے؟
جواب:مقتدیوں کی نماز صحیح ہونے کے لیے ان کی امامت کی نیت کرنا امام پر ضروری نہیں۔اور اگر کرے تو جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔ (26)
سوال:ایک امام جن کی زبان لقوہ کےسبب ماری گئی اورحرف صحیح ادا نہیں ہوتے ان کےپیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جس امام کی زبان لقوہ سے ماری گئی ہے اگر پڑھنے میں ان کے حروف صحیح نہیں ادا ہوتے تو صحیح پڑھنے والوں کی نماز ان کے پیچھے نہیں ہوگی۔ایسے لوگوں کا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ (27)
سوال: ایسے بالغ لوگ جن کی داڑھی قدرتی طور پر اُگی ہی نہیں یا داڑھی تو ہے مگر ایک مشت سے کم ہے اور آگے نہیں بڑھتی، ان کے پیچھے نماز ہوجائے گی؟
جواب: مذکورہ اشخاص کے پیچھے نماز ہوجائے گی۔(28)
سوال: نماز میں امام کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: نماز میں امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ دوسرے کو امامت کے لئے خلیفہ بناسکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام ناک بند کر کے (ناک پہ ہاتھ رکھ کے) پیٹھ جھکا کر پیچھے ہٹے اور اشارہ سے کسی کو خلیفہ بنائے میں کسی سے بات نہ کرے۔لیکن چونکہ خلیفہ بنانے کا مسئلہ ایک ایسا سخت دشوار مسئلہ ہے کہ جس کے لئے شرائط بہت ہیں اور مختلف صورتوں میں مختلف احکام ہیں جن کی پوری رعایت عام لوگوں سےمشکل ہے۔ اس لئے جو بات افضل ہے اسی پر عمل کریں۔ یعنی وہ نیت توڑ دی جائے اور ازسر ِ نو نماز پڑھی جائے ۔ بلکہ جو لوگ کہ علمِ کافی رکھتے ہیں اور اس کے شرائط کی رعایت پر قادر ہیں ان کے لئے بھی ازسر ِنو نماز پڑھنا افضل ہے۔ (29)
سوال:امام کے ساتھ جماعت میں صرف ایک مقتدی ہو تو وہ جماعت سے کیسے پڑھیں؟
جواب:اکیلا نمازی امام کی دائیں جانب کھڑا ہو یعنی اگر امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہو کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبدُ اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو نماز پڑھائی تو ان کو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی دائیں جانب کھڑاکیا ۔ اور ظاہر روایت کے مطابق وہ امام سے پیچھے کھڑا نہ ہو۔ امام محمد سے مروی ہے کہ مقتدی اپنے پاؤں کی انگلیاں امام کی ایڑی کے پاس رکھے۔(30)
سوال:امام کے ساتھ جماعت میں ایک ہی نمازی تھا، اب تیسرا شخص آگیا تو اب کیا کریں؟
جواب: ایک شخص امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا تھا۔ پھر تیسرے نے جماعت میں شامل ہونا چاہا تو امام آگے بڑھ جائے یا مقتدی پیچھے ہٹ جائے یا آنے والا خود اس کو پیچھے کھینچ لے۔ یہ تینوں صورتیں جائزہیں۔ لیکن اگر آنے والے کا حکم مان کر آگے بڑھا، یا مقتدی پیچھے ہٹا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور اگر حکمِ شرع پر عمل کرنے کی نیت سے حرکت کی تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ لہٰذا آنے والے کے اشارے کے بعد تھوڑا ٹھہرے،پھر ہٹے۔(31)
سوال:امام اتنا جلد باز ہے کہ مقتدی ثناء یا دعائے ماثورہ نہیں پڑھ پاتا تو مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:امام کواتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے کہ مقتدی ثناء یا دعائے ماثورہ نہ پڑھ سکیں اور پڑھنے میں اتنی دیر بھی نہ لگانی چاہیے کہ مقتدیوں پر گراں ہو۔ اگر امام نے قرأت شروع کردی اور مقتدی ثناء مکمل نہ کرسکا تھا تو چھوڑ دے۔اسی طرح اگر دعائے ماثورہ پوری نہ پڑھ سکا تھا کہ امام نے سلام پھیر دیا تو مقتدی بھی امام کے ساتھ سلام پھیر دے لیکن اگر مقتدی اَلتَّحِیَّات،وَرَسُوْلُہ تک نہ پڑھ سکا تھا کہ تیسری رکعت کے لئے امام کھڑا ہوگیا یا قعدۂ اخیرہ میں سلام پھیر دیا تو مقتدی اَلتَّحِیَّات،وَرَسُوْلُہ تک بغیر پڑھے نہ کھڑا ہوسکتا ہے نہ سلام پھیر سکتا ہے۔ (32)
سوال:امامت کون کروا سکتا ہے؟
جواب: امام ایسے شخص کو بنایا جائے جس کی طہارت صحیح ہو، قرأت صحیح ہو، سنّی صحیح العقیدہ ہو، فاسق نہ ہو، اس میں کوئی بات نفرتِ مقتدیان کی نہ ہو(یعنی ایسی بات اس میں نہ ہو جس سے نمازیوں کو نفرت ہو)، مسائلِ نماز و طہارت سے آگاہ ہو ۔ جو شخص شرائط ِمذکور کاجامع ہے وہ امام کیاجائے۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو نااہل کہےاور جو واقعی نااہل ہے وہ امام نہیں ہوسکتا اگرچہ سب کی رائے ہو۔(33)
سوال:امام میں کیا شرطیں ہونا ضروری ہیں؟
جواب:امام میں چند شرطیں ضروری ہیں اولاً قرآن عظیم ایسا غلط نہ پڑھتا ہو جس سے نماز فاسدہو جیسے وہ لوگ کہ مثلا أ ، ع یا ت ،ط یا ث ، س ، ص یا ح ، ہ ، ذ ،ز ، ظ ،ض میں فرق نہیں کرتے ، دوسرے وضو، غسل، طہارت صحیح رکھتا ہو،سوم سنی صحیح العقیدہ مطابق عقائد علمائے حرمین شریفین ہو ( یعنی جن عقائد کا ذکر حسام الحرمین میں ہے۔)چہارم فاسق معلن نہ ہو، اسی طرح اور امورِ منافی امامت سے پاک ہو، ان کےبعد ذی علم ہونا شرطِ صحت و حلت نہیں شرطِ اولیت ہے اگر جاہل ہے اور شرطِ مذکورہ رکھتا ہے اس کے پیچھے نماز ہوجائیگی اگرچہ اولیٰ نہیں۔(34)
سوال:کبیرہ گناہ سے توبہ کرنے والے کی امامت درست ہے؟
جواب:کبیرہ گناہ سے توبہ کرنے والے کی امامت درست ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: سچی توبہ کےبعد گناہ بالکل باقی نہیں رہتے۔توبہ کےبعد اس کی امامت میں اصلاً حرج نہیں، بعدِ توبہ اس پر گناہ کا اعتراض جائز نہیں۔ حدیث میں ہے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: جو کسی اپنے بھائی کو ایسے گناہ سے عیب لگائے جس سے توبہ کرچکاہے تو یہ عیب لگانے والا نہ مرے گا جب تک خود اس گنا ہ میں مبتلا نہ ہوجائے ۔(35)
بد مذہبوں سے میل جول رکھنے والے کی امامت کا حکم
سوال: اگر کوئی امام بدمذہبوں سے میل جول رکھتا ہے تو ایسے شخص کی امامت کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کوئی امام بد مذہبوں سے میل جول رکھتا ہے مگر خود سُنّی ہے تو اس صُورَت میں وہ فاسِق معلن ہے اور اِمَامَت کے لائق نہیں۔(36)
ماں کو تکلیف دینے والے کی امامت کا حکم
سوال:جو شخص اپنی والدہ والد کو ایذا دے اور انہیں مارے، اسکے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ایسا شخص سخت فاسق وفاجر ، مرتکبِ کبائر، مستحقِ عذاب ِ نارو غضبِ جبارہے۔ ماں کوایذا دینا سخت کبیرہ ہے نہ کہ مارنا،جس سے مسلمان تو مسلمان کافر بھی پرہیز کرے گااورگِھن کھائےگا۔حدیث میں ارشاد ہوا: ثَلَاثَۃٌ لَا یَدْ خُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَعَدَّ مِنْھُمُ الْعَاقَّ لِوَالِدَیْہِ ۔تین شخص جنت میں نہ جائیں گے ان میں سے ایک وہ جو اپنے ماں باپ کوستائے۔(37) ایسا شخص قابلِ امامت نہیں ہوسکتا۔ فتاوٰی حجہ و غنیہ میں ہے: اگر فاسق کو لوگوں نے امام بنایا تو وہ گناہگار ہوں گے۔تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے: کیونکہ امامت کےلئےاسکومقدم کرنےمیں اسکی تعظیم ہے حالانکہ شرعاً اس کی اہانت لازم ہے۔ اُس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے کہ پڑھنا گناہ اور پڑھی تو پھیرنی واجب ۔ جب وہ ایسا بیباک ہے کہ ماں کو مارتا ہے تواس سے کیا تعجب کہ بے وضو نماز پڑھائے یا نہانے کی ضرورت ہو جاڑے(سردی) کے سبب بے غسل پڑھادے ۔(38)
سوال: ایسا امام جس سے اس کے والدین اس حد تک ناراض ہوں کہ اس سے کہہ دیا ہو کہ ہمارے جنازے میں ہرگز مت آنا، اسے امام بنانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:.والدین اگر بلاوجہِ شرعی ناحق ناراض ہوں اور یہ ان کی استر ضا (راضی کرنے میں )میں حدِ مقدور (طاقت کے مطابق) تک کمی نہیں کرتا تو اس پر الزام نہیں۔ اور اس کےپیچھے نماز میں کوئی حرج نہیں ۔. اور اگر یہ ان کو ایذا دیتا ہے اس وجہ سے ناراض ہیں تو عاق (نافرمان)ہے اور عاق، سخت مرتکبِ کبیرہ ہے۔ اور اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی اور امام بنانا گناہ ۔ .اور اگر ناراضی توان کی بلاوجہِ شرعی تھی مگر اس نے اس کی پروانہ کی، وہ کھنچے تو یہ بھی کھنچ گیا (یعنی والدین ناراض ہوئے تو یہ بھی ناراض ہوگیا)جب بھی مخالفِ حکم خدا و رسول ہے، اُسے حکم یہ نہیں دیا گیا کہ ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرے بلکہ یہ حکم فرمایا گیا: وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ (پ15بنی اسرائیل:24) ( تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے) اس کےخلاف واصرار سےبھی فاسق ہے اور اس کے پیچھےنماز مکروہ ۔ (39)
امام کا غیرمعین نمازی کی رِعَایَت کرنا
سوال: جو امام جو کسی غیر معین شخص کی وجہ سے نماز مختصر یا طویل پڑھائے ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہے؟
جواب:سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: میں نَماز شروع کرتا ہوں اور اسے دراز کرنا چاہتا ہوں کہ بچے کی رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو نماز میں اِخْتِصار کرتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے اس کی ماں کی سَخْت گھبراہٹ جان لیتا ہوں۔(40)
مَشْہُورمُحَدِّث،حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:اس سے دومسئلے معلو م ہوئے:ایک یہ کہ نمازی کا باہر کی آواز سن لینا اور ا س کا لِحَاظ کرنا خُشُوع نَماز کے خلاف نہیں۔دوسرے یہ کہ نَماز میں غیر مُعَیَّن مُقْتَدِی کی رِعَایَت کرنا دُرُسْت ہے جیسےبعض صورتوں میں مقتدیوں کی وجہ سے نماز ہلکی کی جا سکتی ہے، ایسے ہی رُکُوع میں ملنے والوں یا وُضُو کرنے والوں کی وجہ سے نماز دراز کی جا سکتی ہے،کسی مُعَیَّن شخص کی نَماز میں رِعَایَت کرنا حَرام بلکہ شرک خفی ہے۔یہ تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خصوصیات میں سے ہے کہ صدیق اکبر بحالت نَماز آپ کو دیکھ کر مُقْتَدِی بن جاتے تھے۔(41)
سوال: ایک مقتدی سے امامِ مسجد ظاہر اور باطن میں کدورت (کینہ) رکھتا ہے ۔ مقتدی جس وقت مسجد میں داخل ہوکر سلام کہتا ہے تو امام سلام کا جواب: بھی نہیں دیتا، اس صورت میں مقتدی کا امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:محض دنیوی کدورت کے سبب اس کے پیچھے نماز (پڑھنے)میں حرج نہیں اور اس کے واسطے جماعت ترک کرنا حرام ۔ امام کی مقتدی سے کدورت (کینہ)اور ترکِ سلام، اگر کسی دنیوی سبب سے ہے تو تین دن سے زائد حرام ۔ اور کسی دینی سبب سے ہے اور قصور امام کا ہے تو سخت تر حرام ۔ اور قصور مقتدی کا ہے تو امام کے ذمے الزام نہیں مقتدی خود مجرم ہے۔(42)
سوال:جس امام سے اُس کے عقائد پوچھے جائیں اور وہ نہ بتائے تو اس کی اقتدا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:اپنا عقیدہ و مذہب دریافت کرنے پر نہ بتانے سے ظاہر یہی ہے کہ اس میں کچھ فساد ہے ورنہ دین بھی کچھ چھپانے کی چیز ہے۔ اس کی اقتداء ہر گز نہ کی جائے کہ بطلانِ نماز کا احتمال قوی ہے (یعنی نماز کے باطل ہونے کا قوی امکان ہے)۔ اور نماز اعظم فرائضِ اسلام سے ہے اس کے لئے سخت احتیاط مطلوب ۔ (43)
سوال: فاسق، فاجر اور فاسقِ معلن کسے کہتے ہیں؟
جواب:فاسق وہ کہ کسی گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور وہی فاجر ہے۔ اور کبھی فاجر خاص زانی کو کہتے ہیں۔ اور فاسق معلن وہ جو علانیہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب یا گناہِ صغیرہ پر اصرار کرتا ہے۔(44)
سوال: فاسق ، فاسقِ معلن کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا؟
جواب:فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ اگر فاسقِ معلن نہ ہو یعنی وہ گناہ چھپ کر کرتا ہو ، معروف و مشہور نہ ہو تو کراہتِ تنزیہی ہے یعنی خلافِ اولیٰ (یعنی ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بہتر ہے)۔ اور اگر فاسقِ معلن ہے تو اُسے امام بنانا گناہ ہے اور اُس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پڑھ لی ہو تو پھر سے نماز پڑھنا واجب۔(45)
سوال: جب کوئی نماز پڑھانے والا نہ ہو تو فاسق، فاجر کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر علانیہ فسق و فجور کرتا ہے اور کوئی دوسرا امامت کے قابل نہ مل سکے تو تنہا ء نماز پڑھے۔ کیونکہ تقدیمِ فاسق (نماز کے لئے فاسق کو امام بنانا)گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ اور اگر کوئی گناہ چھپ کر کرتا ہے تو اُس کے پیچھے نماز پڑھیں اور اس کے فسق کے سبب جماعت نہ چھوڑیں۔ کیونکہ جماعت واجب ہے اور علانیہ گناہ نہ کرنے والے فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ سے زیادہ مکروہِ تنزیہی ہے۔ (46)
سوال:جمعہ پڑھانے کے لئے فاسق امام کے علاوہ کوئی دوسرا نہ ہو تو کیا اس کے پیچھے جمعہ پڑھنا جائز ہے؟
جواب: فاسق کی اقتدا نہ کی جائے مگر صرف جمعہ میں کہ اس میں مجبوری ہے۔ باقی نمازوں میں دوسری مسجد کو چلا جائے اور جمعہ اگر شہر میں چند جگہ ہوتا ہو تو اس میں بھی اقتدا نہ کی جائے، دوسری مسجد میں جا کر پڑھیں۔ (47)
سوال: جوشخص داڑھی مونڈے یاایک مٹھی سے کم کرےاس کےپیچھے نمازپڑھنے کاکیاحکم ہے؟
جواب:پوری ایک مُشت داڑھی رکھناواجب ہےاورمنڈانایاایک مٹھی سے کم کروانادونوں حرام وگناہ ہیں اورایساکرنے والا فاسقِ مُعلِن ہے اور فاسقِ مُعلِن کوامام بنانا یا اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی یعنی پڑھنا گناہ ہے اور اگر پڑھ لی ہو تو اس کا اعادہ واجب ہے۔ غنیۃ میں ہے: اگرکسی فاسق کو مقدم کیا تو وہ گناہگار ہوں گے اس بناء پر کہ فاسق کو مقدم کرنا مکروہ تحریمی ہے۔(48)فتاوی رضویہ میں ہے:”داڑھی منڈانا اور کُتَروا کر حدِ شرع سے کم کرانا دونوں حرام وفسق ہیں اور اس کا فسق بالاِعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے اور فاسقِ مُعلِن کی امامت ممنوع و گناہ ہے ۔“(49)
سوال:صاحبِ ترتیب کسے کہتے ہیں؟
جواب:صاحبِ ترتیب وہ شخص جس کی بلوغت کے بعد سے لگاتارپانچ فرض نمازوں سے زائد کوئی نماز قضانہ ہوئی ہو۔(50)
سوال:جس شخص کی نمازِ فجر قضا ہو وہ نمازِ ظہر یا دیگر اوقات کی نمازوں میں امام ہوسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:اگرصاحبِ ترتیب ہے تو جب تک قضائے فجر ادا نہ کرلے ظہر کی امامت نہیں کرسکتا ورنہ کرسکتا ہے۔(51)
سوال:بالغ امرد جس کی عمر سولہ سال ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب:ہاں جائز ہے بشرطیکہ کوئی مانعِ شرعی موجود نہ ہو کیونکہ وُہ شرعی طور پر بالغ ہے اگرچہ بلوغ کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں البتّہ اگر وہ امرد خوبصورت ہے تو پھر نماز مکروہ ہوگی کیونکہ وہ محلِ فتنہ ہوتاہے۔(52)اسی طرح چودہ برس کی عمر کا لڑکا جب کہےکہ میں بالغ ہوں اُس کا قول واجبُ القبول ہے (یعنی اس کی یہ بات ماننا لازم ہے)اور اُسے بالغ مانا جائے گا اور اس کے پیچھے نماز جائز ہوگی جبکہ ظاہرِحال اس کی تکذیب نہ کرتاہو، اور نابالغ ہمارے ائمہ کےنزدیک بالغ کا امام نہیں ہوسکتا کہ وہ متنفل (نفل پڑھنے والا)ہے اور یہ (بالغ)مفترض (فرض پڑھنے والا)،اورنفل متضمنِ فرض نہیں ہوسکتا۔(53)
سوال: نابالغ امامت کراسکتا ہے؟
جواب: نابالغ اگر سمجھ دار ہو تو وہ صرف نابالغوں کا امام بن سکتا ہے۔
سوال:بہرا جو اونچا سنتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب:بہرے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔
سوال: امامت کن کن شخصوں کی جائز ہے اور کن کن کی ناجائز اور مکروہ، اور سب سے بہتر امامت کس شخص کی ہے؟
جواب:.جوقرأت غلط پڑھتاہوجس سےمعنی مفسدہوں یاوضویاغسل صحیح نہ کرتاہویاضروریاتِ دین (جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج میں )سےکسی چیز کا منکر ہو یا وہ جو اُن (ضروریاتِ دین کا انکار کرنے والوں )میں سے کسی کے عقائد پرمطلع ہوکر اس کے کفر میں شک کرے یا اس کے کافر کہنے میں تامل کرے اُن کے پیچھے نماز محض باطل ہے ۔(یعنی نماز ہوگی ہی نہیں)۔
.اور جس کی گمراہی حدِ کفر تک نہ پہنچی ہو، ان کے پیچھے نماز بکراہتِ شدیدہ تحریمیہ مکروہ ہے کہ انھیں امام بنانا حرام ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ اورجتنی پڑھی ہوں سب کا پھیرنا واجب۔
.اور انھیں کے قریب ہے فاسقِ معلن مثلاً داڑھی منڈا یا خشخاشی رکھنے والا یا کتروا کر حدِ شرع سے کم کرنے والا یا کندھوں سے نیچے عورتوں کے سے بال رکھنے والا خصوصاً وہ جو چوٹی گُندھوائے اور اس میں موباف ڈالے یا ریشمی کپڑے پہنے یا ساڑھے چار ماشے زائد کی انگوٹھی یا کئی نگ کی انگوٹھی یا ایک نگ کی دو انگوٹھی اگرچہ مل کر ساڑھے چار ماشے سےکم وزن کی ہوں یا سُود خور یاناچ دیکھنے والا اُن کے پیچھے بھی نماز مکروہِ تحریمی ہے ۔
.امام اُسے کیا جائے جو سنّی صحیح العقیدہ ، صحیح الطہارۃ، صحیح القرأءۃ، مسائلِ نماز و طہارت کا عالم، غیرفاسق ہو ، نہ اُس میں کوئی ایسا جسمانی یا روحانی عیب ہو جس سےلوگوں کوتنفر (نفرت)ہو۔(54)
سوال: امام پر غسل لازم ہو اور اس کو کوئی مرض ہو جس کی وجہ سے وہ غسل کئے بغیر، صرف تیمم کرکے نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جسے بالفعل (واقعی میں)ایسا مرض موجود ہو جس میں نہانا نقصان دے گا یا نہانے میں کسی مرض کے پیدا ہوجانے کا خوف ہے اور یہ نقصان و خوف یاتو اپنے تجربے سے معلوم ہوں یا طبیبِ حاذق (ماہر طبیب) مسلمان، غیرِ فاسق کے بتائے سے، تو اُس وقت اُسے تیمم سے نماز جائز ہوگی اور اب اس کے پیچھے سب مقتدیوں کی نماز صحیح ہے۔ غرض امام کا تیمم اور مقتدیوں کا پانی کی طہارت سے ہونا صحتِ امامت میں خلل انداز نہیں۔(55)
سوال:اگر امام نے عذر کی وجہ سے تیمم کیا یا زخم پر بندھی پٹی پر مسح کیا یا موزے پر مسح کیا تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: جس نے وضو کیا ہے، تیمم والے (امام) کی اور پاؤں دھونے والا، موزہ پرمسح کرنے والے (امام) کی ، اور اعضائے وضو کا دھونے والا ، پٹی پر مسح کرنے والے (امام)کی، اقتدا کر سکتا ہے۔ یعنی اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ (56)
سوال:اگر امام نے بھول کر بغیر طہارت کے نماز پڑھادی یا نماز کی کوئی شرط یا رکن ادا کرنے سے رہ گیا تو امام کیا کرے؟
جواب: امام نے اگر بلا طہارت نماز پڑھائی یا کوئی اور شرط یا رکن نہ پایا گیا جس سے اس کی اِمامت صحیح نہ ہو، تو اس پر لازم ہے کہ اس امر کی مقتدیوں کو خبر کر دے جہاں تک بھی ممکن ہو، خواہ خود کہے يا کہلا بھیجے، یا خط ( یا کال وغیرہ)کے ذریعہ سے۔ اور مقتدی اپنی اپنی نماز کا اعادہ کریں۔ (57)
سوال:اگر امام دکاندار ہو تو اس کی امامت جائز ہے یا نہیں؟
جواب:جائز چیز بیچنا اور جائز طور پر بیچنا کچھ حرج نہیں رکھتا، نہ اُس کے سبب امامت میں کوئی خلل آئے، ہاں اگر ناجائز چیز بیچے یا مکر (دھوکا)،فریب کذب (جھوٹ) یا عقودِ فاسدہ مثلِ ربا (سود ) وغیرہ کا ارتکاب کرے تو فاسق ہے اور فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ۔ (58)
سوال: فرض، واجب، سنتِ موکدہ، مستحب اور مباح کام ترک کرنے والے کی امامت کا کیا حکم ہے؟
جواب: فرض کے ایک بار ترک سے فاسق ہے اور ترکِ واجب کی عادت سے،سنّتِ موکدہ حکم میں قریبِ واجب ہے، فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے،اور فسق بالاعلان ہوتو اسے امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ،مستحب و مباح کے ترک میں کچھ گناہ نہیں،نہ ان کے تارک (چھوڑنے والے)کی امامت میں کچھ نقص۔(59)
سوال:ایسا شخص جسے پیشاب کے قطرے آنے، یا ہر وقت پیٹ سےگیس خارج ہونے، یا ہر وقت زخم اور پھوڑے سے خون اور زرد پانی کی بیماری ہو، اس کی امامت درست ہے؟
جواب:ایسے شخص کی امامت درست نہیں ہے۔(60)
سوال:امام فرضِ ظہر کے پہلے کی چار رکعت سنت پڑھے بغیر امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: بلا عذر چار رکعت سنت پڑھے بِغیر ظہر ِفرض کی امامت کرنا مکروہ ہے اور بالکل ترک کردینے یعنی بعدِ فرض بھی نہ پڑھنے والے کے لیے وعید ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مَنْ تَرَکَ اَرْبَعاً قَبْلَ الظُّھْرِ لَمْ تَنِلْہُ شَفَاعَتِیْ یعنی جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں کو چھوڑ دیا تو اسے میرے شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(61)
سوال:اگر امام کی لڑکی لڑکے کا چال چلن درست نہ ہو تو اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟
جواب:امام کی لڑکی اور لڑکے کا چال چلن اگر واقعی خراب ہے اور امام ان کی حالتوں پر مطلع ہو کر بقدرِ قدرت انہیں منع نہیں کرتا بلکہ لڑتا ہے تو وہ دَیُّوث اور فاسق ہے ۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہے جو نمازیں پڑھی گئیں ان کو پھر سے پڑھنا واجب ہے۔ (اگر امام انہیں بقدرِ قدرت منع کرتا ہے تو اس میں امام کا کوئی قصور نہیں اس کے پیچھے نماز جائز ہوگی)۔ اگر اِمام کے لڑکے اور لڑکی کی چال چلن خراب نہیں ہے بلکہ از روئے دشمنی لوگ الزام لگاتےہیں تو امام مذکور کے پیچھے سب کو نماز پڑھنا جائز ہے۔(62)
سوال:معذوراپنے جیسے معذور یا اپنے سے زائد عذر والے کی اِمامت کر سکتا ہے یا نہیں؟
جواب:معذوراپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی اِمامت کر سکتا ہے، کم عذر والے کی اِمامت نہیں کر سکتا اور اگر امام و مقتدی دونوں کو دو قسم کے عذر ہوں، مثلا ایک کو ریاح کا مرض ہے، دوسرے کو قطرہ آنے کا، تو ایک دوسرے کی اِمامت نہیں کرسکتا۔(63)
سوال:معذور اپنے جیسے معذور کی اقتدا کرسکتا ہے یا نہیں نیز ایک عذر والا دو عذر والے کی اقتدا کر سکتا؟
جواب:معذور اپنے مثل معذور کی اقتدا کرسکتا ہے اور ایک عذر والا دو عذر والے کی اقتدا نہیں کر سکتا، نہ ایک عذر والا دوسرے عذر والے کی اور دو عذر والا ایک عذر والے کی اقتدا کر سکتا ہے، جب کہ وہ ایک عذر اسی کے دو میں سے ہو۔(64)
سوال:اقتدا کی کتنی اور کون کونسی شرائط ہیں؟
جواب:اقتدا کی تیرہ (13) شرطیں ہیں: (1) نیت اقتدا۔ (2) اور اس نیت اقتدا کا تحریمہ کے ساتھ ہونا یا تحریمہ پر مقدم ہونا، بشرطیکہ صورت تقدم میں کوئی اجنبی نیت و تحریمہ میں فاصل نہ ہو۔ (3) امام و مقتدی دونوں کا ایک مکان میں ہونا۔ (4) دونوں کی نماز ایک ہو یا امام کی نماز، نماز ِمقتدی کو متضمن ہو۔ (5) امام کی نماز مذہبِ مقتدی پر صحیح ہونا۔ اور (6) امام و مقتدی دونوں کا اسے صحیح سمجھنا۔ (7) عورت کا محاذی(یعنی برابر) نہ ہونا ان شروط کے ساتھ جو مذکور ہوں گی۔(8) مقتدی کا امام سے مقدم (یعنی آگے) نہ ہونا۔(9) امام کے انتقالات کا علم ہونا۔ (10) امام کا مقیم یا مسافر ہونا معلوم ہو۔ (11) ارکان کی ادا میں شریک ہونا۔(12) ارکان کی ادا میں مقتدی امام کے مثل ہو یا کم۔ (13) یوہیں شرائط میں مقتدی کا امام سے زائد نہ ہونا۔ (65)
1…بخاری ،کتاب الکسوف ،باب الذکر فی الکسوف،1/ 363،حدیث: 1059
2…درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلٰوة ، باب الکسوف، 3/ 77- 79
3…جوہرة نیرة، کتاب الصلٰوة ، باب الصلٰوة الکسوف، ص124
4… بہارِ شریعت ،1/788حصہ: 4
5… بہارِ شریعت ،1/788،حصہ: 4
6…بدشگونی،ص81
7…ترمذی،کتاب البر والصلۃ ،باب ما جاءفی مملوک الصالح، 3/397، حدیث:1993
8…نسائی،کتاب الاذان ،باب رفع الصوت بالاذان، ص112،حدیث:643
9…مرآۃ المناجیح،2/196
10… مرآۃ المناجیح،2/196
11… نور الايضاح کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، ص155
12… فتاوی رضویہ، 6/381
13… فتاوی رضویہ ، 6/ 501تسہیلا
14… بہارِ شریعت،1/567،حصہ3:
15… مختصر فتاوی اہل سنت،ص53
16… فتاوی رضویہ، 6/382
17… بہارِ شریعت،1/562،حصہ 3:
18… فتاوی رضویہ، 6/543
19… فتاوی رضویہ، 6/554
20… فتاوی رضویہ،6/576
21…بہارِ شریعت،1/357،حصہ 3:
22… فتاوی رضویہ، 6/601
23…فتاوی رضویہ، 6/ 631 ماخوذا
24… فتاوی رضویہ،6/642
25… فتاوی فیض الرسول، 1/311- 312 ملتقطا
26… فتاوی فیض الرسول، 1/317
27… فتاوی فیض الرسول، 1/318
28… فتاوی فیض الرسول، 1/319
29…فتاوی فیض الرسول، 1/343 ملتقطا
30…فتاوی رضویہ، 7/50
31… فتاوی فیض الرسول، 1/344 ملتقطا
32…فتاوی فیض الرسول،1/346
33… فتاوی رضویہ، 6/618
34… فتاوی رضویہ، 6/543 ملتقطا
35…ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب 53، 4/226، حدیث: 2513، فتاوی رضویہ، 6/552 ملتقطا
36… فتاوی رضویہ،6/625
37…معجم کبیر،12/233،حدیث: 13180 / فتاوی رضویہ،6/558
38… فتاوی رضویہ، 6/557-558
39… فتاوی رضویہ، 6/559
40… بخاری،کتاب الاذان،باب من اخف الصلٰوة …الخ، 1/253، حدیث: 709
41… مرآۃ المناجیح،2/203تا 204
42… فتاوی رضویہ، 6/559
43… فتاوی رضویہ، 6/575
44…فتاوی رضویہ، 6/601
45…فتاوی رضویہ، 6/601 تسہیلا
46… فتاوی رضویہ، 6/600-601
47… بہار شریعت،1/569،حصہ:3
48…حلبی کبیر ، فصل فی الامامۃ،513
49… فتاوی رضویہ،6/505
50… بہار شریعت،اصطلاحات ،1/51
51… فتاوی رضویہ، 6/603
52… فتاوی رضویہ،6/612
53… فتاوی رضویہ، 6/625
54… فتاوی رضویہ، 6/625-626ملتقطا
55… فتاوی رضویہ، 6/386
56… فتاوی ہندیہ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس فی الا مامۃ،1/84
57…بہارِ شریعت،1/574،حصہ 3:
58… فتاوی رضویہ، 6/623
59… فتاوی رضویہ، 6/641
60… فتاوی رضویہ، 6/495
61… فتاوی فیض الرسول،1/262
62… فتاوی فیض الرسول، 1/293-292 ملتقطا
63…بہارِ شریعت،1/561،حصہ :3
64…بہارِ شریعت،1/561،حصہ :3
65…بہارِ شریعت،1/562-563،حصہ :3
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع