30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
قارون وغیرہ کے ساتھ حشر ہونے کی تفصیل
بعض علما فرماتے ہیں : ’’جو مال ودولت کی مشغولیت کی وجہ سے نماز چھوڑے گا وہ بروزِقیامت قارُون کے ساتھ اُٹھایا جائے گا،جو حکومت کی مصروفیت کی وجہ سے نماز میں غفلت کرے گا وہ قِیامت کے روز فرعون کے ساتھ اُٹھے گا، جو وِزارَت کی مصروفیت کے سبب نماز سے محروم ہوگا اسے فرعون کے وزیر ہامان کے ساتھ بروزِ قیامت اٹھایا جائے گا اور جو تجارت کی مصروفیات کی وجہ سے نماز چھوڑا کرے گا وہ مکّے شریف کے بدنام کافر تاجِر اُبَیّ بِن خَلَف کے ساتھ بروزِ قیامت اُٹھایا جائے گا۔‘‘ (کتاب ا لکبائر ص ۲۱)
اُبَیّ بِن خَلَف کی عبرت ناک حکایت
رِوایت میں ہے کہ اُبَیّ بِن خَلَف (جنگ بدر میں پکڑا گیا تو چھوٹنے کے لئے اُس) نے جب اپنا فدیہ(یعنی نقد مُعاوَضہ ) ادا کیا تو اس نے کہا :میں اپنے گھوڑے کو روزانہ بہت زیادہ دانے کھلاؤں گا اور (مَعَاذَ اللہ ) رسولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شہید کرتے وَقت اس گھوڑے کو استعمال کروں گا، جب حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے اس بات کا ذِکر ہوا تو اِرشاد فرمایا: ’’ اِنْ شَآءَ اللہ میں اسے قتل کروں گا۔‘‘پھر غزوۂ اُحُد کے موقع پر اُبَیّ بِن خَلَف زِرہ، خود اوردیگر اَسلحہ وسامانِ حفاظت سے لدا ہو ا گھوڑے پر سُوار ہوا اور کہنے لگا: لَا نَجَوْتُ اِنْ نَجَا مُحَمَّدٌ یعنی اگر محمد(صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) بچ گئے تو میں نہیں بچوں گا(یعنی اگر میں نے انہیں شہید نہ کیا تو وہ مجھے قتل کردیں گے)۔ اُحُد کا میدانِ کارزار گرم تھا (یعنی جنگ زور شور سے جاری تھی) کہ اس نے سرکارِ نامدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب گھوڑا دوڑایا،اُس کے تیوَر (تے۔ور) دیکھ کرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے روکنا چاہا مگر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اس کا راستہ چھوڑدو اور پھر اس کے جسم پر نیزے کی اَنی (یعنی نوک) چبھودی، اُبَیّ بِن خَلَف زخمی ہوکر گھوڑے سے نیچے گرا اورمکّے شریف تک زندہ نہ پہنچ سکا ، راستے ہی میں مر گیا۔ اُبَیّ بِن خَلَف جب زخمی ہوکر گرا تو اُس کے کچھ ساتھی اسے پوچھنے آئے مگر وہ بیل کی طرح ڈَکرا (یعنی چلا) رہا تھا،انہوں نے کہا کہ کیوں اتنا شور مچا رہا ہے؟ تجھے تو ایک معمولی سی خرا ش آئی ہے! اُس نے اُن سے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس ارشاد کا ذکر کیا کہ (انہوں نے فرمایا ہے:) ’’میں اُبَیّ کو قتل کروں گا!‘‘ پھر اس نے کہا کہ قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھ پر گزر رہی ہے اگر وہ اہلِ ذُوالْمَجاز ( ’’ ذُوالمجاز‘‘ عرب کے ایک بازار کا نام تھا)پر ہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے ۔پھر وہ مکّے شریف پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی مرگیا۔ (الخصائص الکبری ج ۱ص ۳۵۲)
مقامِ غور
اے عاشقانِ رسول! مقامِ غور ہے کہ ایک پکے غیر مسلم اور دشمنِ مصطفی کو تو فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایسا کامل یقین ہے کہ جب اُس نے یہ ارشادِ مصطَفٰے سن لیا کہ’’ میں اِنْ شَآءَ اللہ اسے قتل کردوں گا!‘‘ تووہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا مگر ہم غلامانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بھی عجیب حال ہے کہ ہم عشقِ رسول کا دم بھرنے،جاں نِثاری کا دعویٰ کرنے اور سلطانِ دو جہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر ہر فرمان پر سچے دل سے ایمان رکھنے کے باوجود نافرمانیوں کے بارے میں اُن کے بیان کردہ عذاب کے مُعامَلے میں غفلت کا شکار ہیں ۔
کفن چور کی آپ بِیتی(حکایت)
حضرت سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کے دست ِمبارَک پر ایک ایسے کفن چور نے توبہ کی جس نے سینکڑوں کفن چرائے تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کے استفسار(یعنی پوچھنے) پر اس نے تین قبروں کے پُراَسرار واقعات بیان کیے۔ چنانچِہ اُس نے کہا:
آگ کی زَنجیریں
ایک بار میں نے ایک قبر کھودی تو اس میں ایک دل ہلادینے والا منظرتھا! کیا دیکھتا ہوں کہ مردے کا چہرہ سیاہ(Black) ہے، ہاتھ پاؤں میں آگ کی زنجیریں ہیں اور اُس کے منہ سے خون اور پیپ جاری ہے۔ نیز اس سے اِس قَدَر بدبورآرہی تھی کہ دِماغ پھٹا جارہا تھا۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر میں ڈر کر بھاگنے ہی والا تھا کہ مردہ بول پڑا: کیوں بھاگتا ہے؟ آ، اور سن کہ مجھے کس گناہ کی سزا مل رہی ہے! میں مردے کی پکار سن کر ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا اور تمام ہمت اِکٹھی کر کے قبر کے قریب گیا اورجب اندر جھانک کر دیکھا تو عذاب کے فرشتے اُس کی گردن میں آگ کی زنجیریں باندھے بیٹھے تھے۔ میں نے مردے سے پوچھا: تو کون ہے؟ اُس نے جواب دیا: ’’میں مسلمان ابن مسلمان ہوں مگر افسوس! میں شرابی وزانی تھا اوراسی بدمستی کی حالت میں مرا اور عذاب میں گرفتار ہوگیا۔‘‘ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے اس کفن چورنے مزید بتایا:
کالا مردہ
ایک اور موقع پر جب کفن چرانے کی غرض سے میں نے قَبْر کھودی تو ایک کالا مردہ زَبان نکالے کھڑا ہوگیا ! اس کے چاروں طرف آگ لپک رہی تھی، فرشتے اس کے گلے میں زنجیریں باندھے کھڑے تھے۔ اُس شخص نے مجھے دیکھتے ہی پکارا: ’’بھائی! میں سخت پیاساہوں مجھے تھوڑا ساپانی پلادو۔‘‘ فرشتوں نے مجھ سے کہا: خبردار! اس بے نمازی کو پانی مت دینا۔ پھر میں نے ہمت کر کے اس مردے سے پوچھا: تو کون تھا اور تیر اجرم کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: ’’میں مسلمان تھا مگر افسوس! میں نے اللہ پاک کی بہت نافرمانیاں کی ہیں اور میری طرح بہت سے گنہگار عذاب میں گرفتار ہیں۔‘‘ اُس کفن چور نے مزید کہا:
قَبْر میں باغ
اِسی طرح ایک دَفعہ میں نے ایک قبر کھودی تو وہ اندر سے بہت وسیع تھی اور ایک نہایت خوشنما باغ دیکھا جس میں نہریں بہ رہی تھیں ، ایک حسین وجمیل نوجوان اُس باغ میں مزے لوٹ رہا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا: تجھے کس عمل کے سبب یہ انعام ملاہے؟ وہ بولا: میں نے ایک واعظ (یعنی وعظ کرنے والے) سے سنا تھا کہ جو شخص عاشورے کے روز چھ رَکعت نفل پڑھے اللہ پاک اُس کی مغفرت فرمادیتاہے ۔لہٰذا میں ہرسال عاشُورے کے دن چھ رَکْعَتَیں پڑھا کرتا تھا۔(1) (راحتُ الْقُلُوب ص ۶۰ بالتَّصرف )
جو دفن نہ ہو، کیا اُس کو بھی عذاب وغیرہ ہو گا؟
اے اللہ پاک سے ڈرنے والو! دیکھا آپ نے بے نمازی، شرابی وزانی اور اللہ پاک کی نافرمانی کرنے والے کس قدر خوفناک عذاب میں مبتلا دیکھے گئے۔ یاد رکھئے ! عذاب ِ قَبْر حق ہے، ’’حَدیقَۂ نَدِیَّہ ‘‘میں ہے : عذابِ قَبْر دراَصل عذابِ برزَخ ہی کو کہتے ہیں ، اِسے عذاب ِ قَبْر اس لیے کہتے ہیں کہ عُموماً لوگ قَبْر ہی میں دفن ہوتے ہیں ، ورنہ خواہ کوئی شخص جل جائے، ڈوب جائے، دَرِندے پھاڑ کھائیں ، کیڑے مکوڑے کھا جائیں ، یا ہوا میں اُس کی راکھ اُڑادی جائے، ہر صورت میں اُس کے ساتھ جَزا و سزا کا سلسلہ ہوگا۔ (الحدیقۃ الندیہ ج ۱ص ۲۶۶)
مُسلمانوں کا عذاب دِکھانے کا سَبب
برزَخ کے لفظی معنی آڑ اور پردہ کے ہیں اور مرنے کے بعد سے لے کر قیامت میں اُٹھنے تک کا وَقفہبرزَخ کہلاتا ہے، برزَخ کے معاملات زندہ لوگوں کو نظر نہیں آتے ، البتہ کبھی کبھی اللہ پاک اپنے بندوں کو ترغیب(یعنی نیکی کی طرف رغبت دلانے) یا ترہیب(یعنی گناہوں کی سزاؤں سے ڈرانے) کے لیے دِکھا دیتا ہے !مشہور محدث حضرتِ سَیِّدُنا اِمام اَوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ سے دَریافت کیا گیا کہ غیر مسلم مرتے ہیں تو ان کا عذاب نظر نہیں آتامگر گنہگارمسلمانوں کا عذاب بعض اَوقات دکھادیا جاتا ہے اِس کا کیا سَبَب ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ غیر مسلموں کے جہنمی ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں لیکن مسلمانوں میں یہ حالت اس لیے دکھائی جاتی ہے تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور گناہوں سے بے خوف نہ رہیں ۔ (شرحُ الصُّدُور ص ۱۷۸ملخصا )
عذابِ قَبر کا قراٰن سے ثُبُوت
عذابِ قبر کا حق ہونا قراٰنِ کریم سے ثابِت ہے ۔چُنانچِہ پارہ 29 سُوْرَۃُ نُوْح آیت 25 میں حضرتِ سیِّدُنا نُوح عَلَیْہِ السَّلَام کی نافرمان قوم کے طوفان میں غرق ہونے کے بعد عذابِ قبر میں مبتلا ہونے کا اس طرح بیان ہے :
مِمَّا خَطِیْٓــٴٰـتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا ﳔ
ترجَمۂ کنزالایمان : اپنی کیسی خطاؤں پر ڈَبوئے گئے پھر آگ میں داخِل کئے گئے۔
اِس آیتِ مبارَکہ کے اس حصے’’ پھر آگ میں داخِل کئے گئے ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے: ہِیَ نَارُ الْبَرْزَخِ وَالْمُرَادُ عَذَابُ الْقَبْر ۔ یعنی اس آگ سے مراد برزخ کی آگ ہے اورمراد عذابِ قبر ہے ۔( روح المعانی جزء ۲۹ ص ۱۲۵)
عذابِ قبر کے مُتَعَلِّق پارہ 24 سُوْرَۃُ الْمُؤْمِن آیت46 میں اللہ پاک فرماتا ہے :
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّاۚ-وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ- اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ(۴۶)
ترجَمۂ کنز الایمان : آگ جس پر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں ۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی حکم ہو گا فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔
اِس آیت میں واضح طور پر عذابِ قبر کا بیان ہے اس طرح کہ اَشَدَّ الْعَذَابِ (یعنی سخت ترعذاب) سے جہنم کا عذاب مراد ہے جو قیامت کے دن ہوگا اس سے پہلے جو عذاب ہے وہ عذاب ، عذابِ قبر ہے۔ (نزھۃ القاری ج ۲ص ۸۶۲ ، عمدۃ القاری ج ۶ص ۲۷۴)
عذابِ قبر و جہنم سے تو بچا یا رب!
ترے حبیب کادیتا ہوں واسِطہ یا رب!
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
پانچ قبریں (حکایت)
خلیفہ عبدالملک کے پاس ایک بار ایک شخص گھبرا یا ہوا حاضر ہوا اورکہنے لگا: عالی جاہ!میں بے حد گنہگار ہوں اورجاننا چاہتاہوں کہ میرے لئے مُعافی بھی ہے یا نہیں ؟ خلیفہ نے کہا : کیا تیرا گناہ زمین وآسمان سے بھی بڑا ہے ؟ جواب دیا:بڑا ہے ۔خلیفہ نے کہا:کیا تیر اگناہ لوح وقلم سے بھی بڑا ہے ؟ اُس نے کہا : بڑا ہے ۔ پوچھا: کیا تیر اگناہ عرش وکرسی سے بھی بڑا ہے؟ جواب دیا: بڑا ہے۔ خلیفہ نے کہا: بھائی! یقینا تیرا گناہ اللہ پاک کی رحمت سے تو بڑا نہیں ہو سکتا ۔ یہ سن کر اس کے سینے میں تھما ہوا طوفان آنکھوں کے ذَرِیعے اُمنڈآیا اوراُس نے رونا شروع کر دیا! خلیفہ نے کہا:بھئی !آخِر پتا بھی تو چلے کہ تمہارا گناہ کیاہے ؟ اِس پر اُس نے کہا: حضور!مجھے آپ کو بتاتے ہوئے بے حد نَدامت ہورہی ہے، تاہم عرض کیے دیتاہوں ، شاید میری توبہ کی کوئی صورت نکل آئے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی خوفناک داستان سنانی شروع کی۔ کہنے لگا:عالی جاہ ! میں ایک کفن چور ہوں ، آج رات میں نے پانچ قبروں سے عبرت حاصل کی اور توبہ پر آمادہ ہوا۔
1 واعظ کے کہنے پر حسن ظن کی بنا پر نوجوان نے عاشورے کے نفل پڑھنے کا صِلہ یعنی بدلہ پایا ۔ورنہ کتب ِ اَحادیث میں عاشورے کے چھ نوافل کی روایت نہیں ملی۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع