30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
روتا ہوا جہنَّم میں داخل ہو گا
حضرت سیِّدُنا عبد اللّٰہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’جو ہنستا ہوا گناہ کرتا ہے وہ روتا ہوا جہنَّم میں داخل ہوگا۔‘‘ ( احیاء العلوم (اردو ) ج ۳ ص ۳۹۱ ) تابعی بُزرگ حضرتِ سیِّدُنا عامِر بن قیس رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ’’جو شخص دنیا میں بہت ہنستا ہے وہ قیامت میں بہت روئے گا۔‘‘ (تنبیہ المغترین ص ۴۲)
وہ پھر کبھی ہنستا نہ دیکھا گیا(حکایت)
عظیم تابعی بُزرگ حضرت سیِّدُنا امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہنس رہا ہے آپ نے فرمایا: یَافَتٰی ہَلْ مَرَرْتَ بِالصِّرَاطِ ؟ یعنی اے جوان! کیا تو پُل صراط سے گزر چکا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ پھر فرمایا: ہَلْ تَدْرِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ تَصِیْرُ اَمْ اِلَی النَّارِ ؟ یعنی کیا تو جانتا ہے کہ تو جنت میں جائے گا یادوزخ میں ؟ اس نے کہا: نہیں ۔ فرمایا: فَمَا ھَذَا الضِّحْکُ یعنی پھر یہ ہنسنا کیساہے؟ (احیاء العلوم ج ۴ ص ۲۲۷) یعنی جب ایسی مشکلات تیرے سامنے ہیں اور تجھے اپنی نجات کا بھی علم نہیں تو پھر کس خوشی پر ہنس رہا ہے؟ اس کے بعد وہ شخص کسی سے ہنستا ہوا نہیں دیکھا گیا ۔ (اخلاق الصّالحین ص ۴۹)
جنّت میں کوئی روئے تو تعجب کی بات ہے
حضرت سیِّدُنامحمد بن واسع رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :جب تم جنت میں کسی کو روتا ہوا دیکھوگے تو کیا تمہیں اس کے رونے سے تَعَجُّب نہیں ہوگا؟ عرض کی گئی: ضرور ہوگا۔ ارشاد فرمایا: جو دنیا میں ہنستا ہے لیکن اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا ٹھکانا کیا ہے(یعنی جنّت پانا ہے یا جہنَّم میں جانا ہے) تو اس (ہنسنے والے) شخص پر اس سے بھی زیادہ تَعَجُّب ہے۔ (احیاء العلوم (اردو ) ج ۳ ص ۳۹۱)
موت کا یقین رکھنے والا کیسے ہنسے؟
حدیث قدسی میں آیا ہے (اللّٰہ پاک فرماتا ہے): عَجَبًا لِّمَنْ اَیْقَنَ بِالْمَوْتِ کَیْفَ یَفْرَحُ ۔یعنیتَعَجُّب ہے اُس شخص پر جو موت کا یقین رکھتاہے، پھر کیسے ہنستا ہے! (شعب الایمان ج ۱ص ۲۲۳ حدیث ۲۱۲)
40سال تک نہ ہنسے
حضرت سیِّدُنا سعید بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ علیہ چالیس سال تک نہ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ اسی طرح حضرت غَزْوان رَقاشی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ نہیں ہنستے تھے ۔ (تنبیہ المغترین ص ۴۲)
50سال تک ہنستے نہ دیکھا
حضرت سیِّدُنا عون بن ابو زید رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :میں حضرت عطاء سلمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کے پاس پچاس سال رہا میں نے ان کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔(تنبیہ المغترین ص ۴۲)
لباس نیکوں والا اور......
حضرت مُعَاذَہ عَدَوِیَّہ رَحْمَۃُ اللہِ علیہا ایک دن ایسے نوجوانوں پر گزریں جو کہ ہنس رہے تھے اور ان کا لباس صوف(اون) کا تھا یعنی لباس صوفیانہ تھا تو آپ نے فرمایا: سُبْحٰنَ اللّٰہ ، لِبَاسُ الصَّالِحِیْنَ وَضِحْکُ الْغَافِلیْنَ ۔ سُبْحٰنَ اللّٰہ ! لباس تو نیک لوگوں کا ہے اور ہنسنا غافلوں کا ۔ (تنبیہ المغترین ص ۴۲)
نماز میں ہنسنے کے اَحکام
{1} رُکوع و سجود والی نماز میں بالِغ نیقَہقَہہ لگا دیا یعنی اِتنی آواز سے ہنسا کہ آس پاس والوں نے سنا تو وُضو بھی گیا اور نماز بھی گئی، اگر اتنی آواز سے ہنسا کہ صِرف خود سنا تو نماز گئی وُضوباقی ہے، مسکرانے سے نہ نَماز جائے گی نہ وُضو ۔ مسکرانے میں آواز باِلکل نہیں ہوتی صرف دانت ظاہِر ہوتے ہیں {2}بالِغ نے نمازِ جنازہ میں قَہقَہہ لگایا تو نماز ٹوٹ گئی وُضو باقی ہے۔
{3}نماز کے علاوہ قَہقَہہ لگانے سے وُضو نہیں جاتا مگر دو بارہ کر لینا مستحب ہے۔ (مراقی الفلاح ص ۹۱۔ ۸۴) ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی بھیقَہقَہہ نہیں لگایا لہٰذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم زور زور سے نہ ہنسیں۔
یاربِّ مصطَفٰے ! ہمارے دِلوں کی سختی دُور کر کے اِنہیں اپنی یاد سے معمور فرما، فضول گوئی، بے جاہنسی اور نفسانی خواہشات کی اِتباع سے ہم کو بچا، ہر طرح کے گناہ سے ہماری حفاظت فرما اور ہمیں ہر دم ذکرودُرود میں مشغول رہنے کی سعادت عنایت فرما۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہو گیا قلب ہائے سیاہ لُطف نورِ خدا کیجئے
قلب پتھر سے بھی سخت ہے اس کو نرمی عطا کیجئے
جگمگا دیجے قلبِ سیاہ لطف بدرُ الدُّجٰی کیجئے
(وسائلِ بخشِش (مُرمَّم) ص۵۰۵)
میوزک سینٹر بند کردیا
اے آخرت کی بہتری کا درد رکھنے والو! بے جا ہنسی کی عادت مِٹانے، دل آزاریوں سے خود کو بچانے اور سنجیدگی پانے کیلئے عاشقانِ رسول کی صحبت میں رہئے۔ آپ کی ترغیب کیلئے ایک ’’مدنی بہار‘‘ پیش ِ خدمت ہے: سُوئی (بلوچستان) کے ایک اسلامی بھائی اُس وقت آٹھویں کلاس میں پڑھتے تھے جب بُرے دوستوں کی صحبت نے ان پر اپنا رنگ چڑھانا شروع کیا۔ میٹرک کے بعدکالج میں داخلہ ہوا تو گویا انہیں ہر بُرا کام کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی! شیطان نے ہاتھ پکڑ کر انہیں تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ اب شراب نوشی، ماردھاڑ ،جوا اور طرح طرح کے برے کام کیا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو ساری ساری رات جوا کھیلتے اورنشا کرتے ہوئے گزر جاتی یہاں تک کہ فجر کی اَذانیں سنائی دیتیں لیکن افسوس! وہ اپنے دوستوں کے ساتھ موج مستیوں میں لگے ہوتے۔ اگر کبھی ان کی ماں انہیں سمجھاتی بھی تو اس سے زبان درازی کیا کرتے بلکہ مَعَاذَ اللہ گالیاں تک بک دیتے۔ انہوں نے اپنے کمرے میں چاروں طرف فلمی اداکاراؤں کی تصویریں لگا رکھی تھیں اور ان تصویروں کے پیچھے ایک جگہ ’’خفیہ خانہ‘‘ بنا رکھا تھا جہاں ہروقت شراب کی بوتل موجود ہوتی۔ انہی سیاہ کاریوں میں مصروف رہتے ہوئے 1998ء کا سال آگیا۔ انہوں نے اپنا ’’میوزِک سینٹر‘‘ کھول لیا، ایک دن وہ دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ سبز عمامے والے ایک اسلامی بھائی نے انہیں مکتبۃ المدینہ سے جاری ہونے والے سنتوں بھرے بیان کی ایک کیسٹ دی اور چلانے کی درخواست کی، انہوں نے جونہی کیسٹ چلائی تو کسی مولانا کی آواز سنائی دی انہوں نے گھبرا کر بند کردی اور اسلامی بھائی کو کیسٹ واپس کرکے کہنے لگے: بھائی! میں ان چیزوں سے الرجک ہوں ، میں یہ کیسٹ نہیں چلا سکتا۔ اس اسلامی بھائی نے غصہ کرنے کے بجائے رونی صورت بنا کر کہا: اگر یہاں نہیں چلا سکتے تو براہِ کرم! یہ کیسٹ گھر لے جائیں اور سن ضرور لیجئے گا۔ انہوں نے جان چھڑانے کے لئے ان سے کیسٹ لے کر جیکٹ کی جیب میں ڈال لی۔ رات جب سونے لگے تو انہیں وہ کیسٹ یاد آئی، سوچا کہ سن لیتا ہوں ، صبح اگر اس اسلامی بھائی نے پوچھ لیا تو شرمندگی ہوگی۔ جب انہوں نے وہ کیسٹ چلاکر سنی تو سکتے میں آگئے، کیسٹ ختم ہونے کے بعد دوبارہ روتے روتے سنی۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی اور صبح فجر پڑھنے مسجد پہنچ گئے۔ نمازیوں نے خوش گوار حیرت سے ان کی طرف دیکھا کہ یہ شخص نماز پڑھنے آگیا؟ وہ بھی فجر کی!پھر انہوں نے اپنا ’’میوزِک سینٹر‘‘ بھی بند کردیا اور کچھ ہی عرصے میں داڑھی شریف سے ان کا چہرہ سج گیا۔ پھر 2003ء میں عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں مَدَنی قافِلہ کورس کرنے کی بھی سعادت ملی۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ بارہ ماہ کے مَدَنی قافلے میں سفر کا موقع ملا اور بلوچستان کی دوکابینات میں مَدَنی قافلہ ذمّہ دار کی حیثیت سے دعوتِ اسلامی کا کام کرنے کی سعادت بھی مُیَسَّر ہوئی ۔
گر آئے شرابی مٹے ہر خرابی
چڑھائے گا ایسا نشہ مَدنی ماحول
(وسائلِ بخشش (مُرمَّم) ص۶۴۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع