30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کھیل کے میدان سے علمِ دین کی شاہراہ پر
اے عاشقانِ نماز! صفوں کی دُرُستی کی اہمیت دل میں اُجاگر فرمانے اور صفیں درست کرنے کروانے کا جذبہ پانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔ مَدَنی بہار: شہر حافظ آباد (پنجاب)سے پانچ کلومیٹر دور ایک گاؤں میں مقیم نوجوان اسلامی بھائی غفلت کی زندگی بسر کررہے تھے، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گندے رسائل پڑھنا، والدین کی دل آزاری کرنا، چھوٹے بھائیوں کو مارنا ان کے معمولات کا حصہ تھے۔ نمازیں بھی قضا کردیتے تھے، البتہ فجر پڑھ لیتے تھے کیونکہ والدین نرمی گرمی سے مسجد کا رُخ کرواتے تھے۔ اکثر کھیل کے میدان میں دن گزارتے، دعوتِ اسلامی سے وابستہ ایک اسلامی بھائی انہیں نیکی کی دعوت پیش کرتے لیکن وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے، یہ انہیں مکتبۃ المدینہ کے رسالے پڑھنے کو دیتے جن میں کوئی کوئی رسالہ وہ پڑھ لیا کرتے۔ اسلامی بھائی کی مسلسل انفرادی کوشش رنگ لائی اور وہ آہستہ آہستہ نمازیں پڑھنے والے بنے، درس و بیان بھی توجہ سے سننے لگے، پھر ایک دن وہ آیا کہ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں بھی شریک ہوگئے ۔ اجتماعی دعا میں ان پر بھی رقت طاری ہوئی اور دعوتِ اسلامی سے ان کی محبت بڑھنے لگی۔ وہ پانچ وقت کے نمازی بھی بن گئے ۔ ایک دن علم ِ دین کے فضائل پر بیان سنا تو جامعۃ المدینہ سیالکوٹ کا رخ کیا اور درسِ نظامی میں داخلہ لے کر علم دین حاصل کرنے لگے۔
سنور جائے گی آخِرت اِنْ شَآءَ اللہ
تم اپنائے رکھو سدا مَدنی ماحول
(وسائلِ بخشش (مُرمَّم) ص ۶۴۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
سیدھی طرف زیادہ ثواب ہے
اِمام کا بیچ میں ہونا سُنَّت ہے، صف میں دونوں طرف لوگ برابر ہوں تو اب آنے والا صف کی سیدھی جانِب آکر شامل ہو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔ چنانچِہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمُّ المُؤمِنِین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : ’’ اللہ اور اس کے فرشتے صف کی سیدھی جانب والوں پر رَحمت بھیجتے ہیں۔‘‘ (ابو داوٗد ج ۱ص ۲۶۸حدیث ۶۷۶)
سیدھی طرف کی فضیلت کا سبب
شارِحِ بخاری حضرت علامہ بدرالدین عینی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :سیدھی طرف والوں پر رحمت بھیجنے کا سبب یہ ہے کہ سیدھی طرف کو بائیں (یعنی Left) طرف پر ہر چیز میں فضیلت حاصل ہے۔ (شرح ابی داؤد للعینی ج ۳ص ۲۲۸) حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ ایک حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : سرمہ لگانا، ناخن و بغل کے بال لینا،حجامت اور مونچھیں کٹوانا، مسجد میں آنا اور مسواک کرنا وغیرہ سب میں سنت یہ ہے کہ داہنے (یعنی سیدھے) ہاتھ یا داہنی (یعنی سیدھی) جانب سے اِبتدا (یعنی شروعات) کرے کیونکہ نیکیاں لکھنے والا فرشتہ داہنی (یعنی سیدھی) طرف رہتا ہے ،اس کی وجہ سے یہ سمت افضل ہے حتّٰی کہ داہنا(یعنی سیدھی طرف والا) پڑوسی بائیں (یعنی الٹی طرف والے) پڑوسی سے زیادہ مستحقِ سُلوک ہے۔(مراٰۃ المناجیح ج۱ص۲۸۷)
دُ گنا ثواب .....کب؟
صحابی ابن ِ صحابیحضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے رِوایَت ہے، تاجْدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ’’جو مَسْجِد کی بائیں (یعنیLeft) جانِب کو اس لیے آباد کرے کہ اِدھر (یعنی دوسری جانب) لوگ کم ہیں تو اسے دُونا ثواب ہے۔‘‘ (معجم کبیر ج ۱۱ ص ۱۵۲ حدیث ۱۱۴۵۹)
علامہ عبد الرء وف مناوی رَحْمۃُ اللہِ علیہ ایک حدیث ِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صفوں کی دائیں (یعنی سیدھی) جانب کی فضیلت بیان فرمائی تو لوگوں نے بائیں (یعنی اُلٹی)جانب کو چھوڑدیا،آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے یہ بات عرض کی گئی تو آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی حالت میں بائیں (یعنی Left)جانب والوں کو دائیں (یعنی سیدھی) جانب والوں سے دُگنا اجر عطا فرمادیا،البتہ بائیں جانب والوں کے لیے دُگنا اجر اسی حالت کے ساتھ خاص ہے جب بائیں جانب چھوڑدی جائے۔ (فیض القدیر ج ۶ص ۲۳۶تحت الحدیث ۸۸۶۵)
سیدھی جانب کے مقابلے میں اُلٹی جانب افضل ہونے کی صورت
’’فتاوٰی فیض الرسول ‘‘جلد اوّل صفحہ344تا345پر دیئے ہوئے ’’سُوال جواب‘‘ ملاحظہ ہوں : سُوال: اگر امام کی داہنی (یعنی سیدھی )جانب مقتدی زیادہ ہوں اور بائیں (یعنیLeft)جانب کچھ کم ہوں یا دونوں جانب برابر ہوں تو نئے آنے والے مقتدی کو کہاں کھڑا ہونا چاہئے ؟ جواب : بائیں (یعنی اُلٹی) جانب مقتدی کچھ کم ہوں تو آنے والے مقتدی کو بائیں جانب کھڑا ہونا افضل ہے کہ وہ اَقْرَب اِلَی الْاِمَام (یعنی امام سے زیادہ قریب) ہے اور دونوں جانب برابر ہونے کی صورت میں داہنی (یعنی سیدھی )جانب کھڑا ہونا افضل ہے۔
امام کا فرض نماز کے بعد مُڑنا سنّت ہے
حضرت سیِّدُنا بَراء بن عازِبرضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’رحمت ِ عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِقتدا میں جب ہم نماز پڑھتے تو سیدھی جانِب کھڑا ہونا پسند کرتے تاکہ آپ اپنا رُخِ اَنور (یعنی نورانی چہرہ )ہماری طرف کریں ۔‘‘
(مسلم ص ۲۸۰ حدیث ۱۶۴۲ )
حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکثر(سلام پھیرنے کے بعد) داہنی (یعنی سیدھی) جانب منہ کرکے دعا مانگتے تھے، دوسرے یہ کہ حضور (صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کا چہرہ ٔپاک دیکھنا بہترین عبادت ہے کہ صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم )محض اس لیے صف کی داہنی (یعنی سیدھی) جانب پسند کرتے تھے تاکہ بعد نمازدیدارِ یا ر نصیب ہو۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۱۱۲)
ؔحبیبؔ اِس حال سے بڑھ کر بھی حالِ زار ہوجائے
جو ہونا ہو سو ہوجائے مگر دیدار ہوجائے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
امام کے مُڑنے میں حکمت
شارِحِ بخاری مفتی شریف الحق اَمجدی رَحْمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ تر داہنی (یعنی سیدھی) طرف رُخِ اَنور پھیرا کرتے تھے(نیز فرماتے ہیں :) ہمیشہ داہنی(یعنی سیدھی) ہی طرف نہیں مڑتے تھے، زیادہ تر داہنی طرف مڑتے تھے اور بہت(دفعہ) ایسا بھی ہوتا تھا کہ بائیں (یعنی Left) طرف مڑتے، اَحادیث میں اس کی تخصیص (یعنی خصوصیت )نہیں کہ صرف اُنہیں نمازوں کے بعد مڑتے تھے جن کے بعد نوافل نہیں ، (روایات) مطلق ہیں جس سے ظاہر کہ ہر نماز کے بعد مڑتے تھے خواہ اس کے بعد نوافل ہوں خواہ نہ ہوں ۔ (نزہۃ القاری ج۲ص۵۰۰)
سلام کے بعد نہ مُڑنے والا امام تارکِ سنّت ہوا
اے عاشقانِ رسول!امام کے لیے سنت یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد دائیں یا بائیں جانب مڑ جائے یا مقتدیوں کی جانب اپنا رُخ کرلے، البتہ مقتدیوں کی طرف رُخ کرنے کی صورت میں اس بات کا خیا ل رکھناہوگاکہ آخری صف تک کوئی بھی اس کے منہ کی سیدھ میں نماز نہ پڑھ رہا ہو۔میرے آقااعلیٰ حضرت رَحْمۃُ اللہِ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :(امام کے لیے) بعد سلام قبلہ رُو بیٹھا رہنا ہر نماز میں مکروہ ہے، وہ شمال و جنوب و مشرق میں مختار ہے (یعنی دائیں بائیں یا چاہے تو مقتدیوں کی طرف رُخ کرلے)مگر جب کوئی مسبوق (ادھوری جماعت پانے والا) اس کے محَاذات(یعنی سیدھ) میں اگر چِہ اخیر صف میں نماز پڑھ رہا ہو تو مشرق یعنی جانبِ مُقتدیان منہ نہ کرے ، بہرحال پھر نامطلوب ہے اگر نہ پھرا اور قِبلہ رُو بیٹھا رہا تو مبتلائے کراہت و تارکِ سنّت ہوگا۔(فتاوی رضویہ ج۶ص۲۰۵۔۲۰۶)
جماعت کے بعد مقتدیوں کیلئے ایک مستحب کام
مقتدیوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد صفیں توڑ کر آگے پیچھے ہو کر بیٹھیں ، اُسی طریقے پر نہ بیٹھیں جس پر نماز میں تھے،اعلیٰ حضرت رَحْمۃُ اللہِ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :مقتدیوں کے لئے شرعاً اتنا مستحب ہے کہ نقضِ صفوف کریں (یعنی صفیں توڑ دیں ) اور نماز کے بعد اُس انتظام پر نہ بیٹھے رہیں جیسے نماز میں تھے۔(فتاوٰی رضویہ ج۶ص۲۰۷) البتہ پیچھے جانے میں یہ خیال رکھناضروری ہے کہ کسی نماز پڑھنے والے کے ٹھیک سامنے اپنا چہرہ نہ ہونے پائے نیز کسی نمازی کے آگے سے گزرنا نہ پڑے، اِسی طرح پیچھے جانے میں کسی کو دھکا نہ لگے اِس کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
سُوال: اگر دو افرادنے آپس میں جماعت کی تو کیا اب بھی امام کے لئے قبلے سے اِنحر اف( یعنی مڑنا) سنّت ہے؟
جواب:اِس صورت میں قبلے سے مڑنا سنّت نہیں ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
امام کے عین پیچھے والے کو 100نمازوں کا ثواب
ایک روایت میں ہے: پہلی صف میں امام کے عین پیچھے( باجماعت) نماز پڑھنے والے کے لیے سو(100) نمازوں کا ثواب لکھا جاتا ہے اور پہلی صف کے دائیں (سیدھی) جانب والوں کے لیے پچھتر(75) نمازوں کا اور بائیں (یعنی الٹی۔Left) جانب والوں کے لیے پچاس(50) نمازوں کاا ور بقیہ ساری صفوں والوں کے لیے پچیس(25) نمازوں کا ثواب لکھا جاتاہے۔ (البحر الرائق ج ۱ص ۶۱۹)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع