30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اگر اناج خرید کرمستحقین زکوٰۃ کو کم قیمت میں بیچیں اور جتنی رقم کم کی گئی اسے زکوٰۃ میں شمار کریں تو ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ یہ صورت رعائت کی ہے ، مالک بنانا نہیں پایا گیا ۔ اس کے بجائے عاقل وبالغ مستحقین زکوٰۃ کو اناج اصل قیمت مثلاً 50 روپے کلو ہی بیچا جائے اور جتنی رعائت مقصود ہومثلاً پانچ روپے تواتنی رقم اپنے پاس سے زکوٰۃ کے طور پر دے کراس کا قبضہ ہوجانے کے بعد قیمت کے طور پر واپس لی جائے ۔اب فی کلو پانچ روپے بطور زکوٰۃ ادا ہوگئے اس کو جمع کرکے زکوٰۃ میں شمار کر لیں۔(ماخوذفتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۷۲)
اگرشک ہو کہ زکوٰۃ ادا کی تھی یانہیں ؟توایسی صورت میں زکوٰۃ ادا کرے ۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ۔۔۔الخ، ج۳، ص۲۲۸ )
اگر لاعلمی کی بنا پر زکوٰۃ کم ادا کی تو جتنی زکوٰۃ دی وہ ادا ہوگئی کیونکہ ادائے زکوٰۃ میں نیت ضرور شرط ہے لیکن مقدارِ زکوٰۃ کا صحیح معلوم ہونا شرط نہیں۔مگرایسا شخص گنہگار ہوگاکیونکہ زکوٰۃکی ادائیگی میں تاخیر گناہ ہے ، ایسے شخص کو چاہئے کہ توبہ کرے اور حساب لگا کر بقیہ زکوٰۃ ادا کرے ۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)
زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے وکیل بنانا
زکوٰۃکی ادائیگی کے لیے کسی کووکیل بنانا جائز ہے ۔(ماخوذ ازردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ۔۔۔الخ، ج۳، ص۲۲۴ )
وکیل کو زکوٰۃ کے بارے میں بتاناضروری نہیں ، اگر دل میں زکوٰۃ کی نیت ہے اور وکیل کو کہا کہ یہ نفلی صدقہ وخیرات ہے یا عیدی ہے یا قرض ہے فلاں کو دے دو، تو بھی وکالت درست ہے ۔ لیکن بتادینا بہتر ہے تاکہ وہ ادائیگی کی شرائط کا خیال رکھ سکے ۔(ماخوذ ازردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ۔۔۔الخ، ج۳، ص۲۲۳ )
کیا وکیل بھی زکوٰۃ کی نیت کرے ؟
اگر وکیل کو مالک (یعنی مؤکل )نے زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت سے مال دیا تو وکیل کو دوبارہ نیت کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ اصل یعنی مالک کی نیت موجود ہے ۔(الدرالمختار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ۔۔۔الخ، ج۳، ص۲۲۲ ملخصاً)
نفلی صدقہ کے لئے وکیل بنانے کے بعد زکوٰۃ کی نیت کرنا
وکیل کو دیتے وقت کہا نفل صدقہ یا کفارہ ہے مگر اس سے پہلے کہ وکیل فقیروں کو دے ، اُس نے زکوٰۃ کی نیّت کر لی تو زکوٰۃہی ہے ، اگرچہ وکیل نے نفل یا کفارہ کی نیّت سے فقیر کو دیا ہو۔ (الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۲۳)
اگر دینے والوں نے ملانے کی صراحۃً اِجازت دی تھی یا اس پر عرف جاری ہو اورمؤکل اس عرف سے واقف ہو تووکیل مختلف لوگوں کی زکوٰۃ کو آپس میں ملاسکتا ہے ورنہ نہیں۔(الدرالمختار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ۔۔۔الخ، ج۳، ص۲۲۳ ملخصاً)
وکیل مزید کسی کو وکیل بناسکتاہے ۔(المرجع السابق، ص۲۲۴)
کیا وکیل کسی کوبھی زکوٰۃ دے سکتا ہے ؟
اگر دینے والوں نے مطلقاً اجازت دی ہو کہ جس مصرفِ زکوٰۃ میں چاہو صرف کرو تو جس میں چاہے صرف کرے اور اگر دینے والوں نے کسی معیَّن مصرف میں خرچ کرنے کا کہا ہوتو وہیں صرف کرنا پڑے گا ۔فتاوی شامی میں ہے : ’’جب زکوٰۃ دینے والے نے یہ کہا ہو کہ فلاں پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرو تو وکیل کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرے ۔‘‘(المرجع السابق)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع