30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
یہ تمہارے غموں کو کافی ہو گا اور تمہارے گناہ مِٹا دے گا۔ ([1])
؏ ہر درد کی دوا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد
تعویذِ ہر بَلا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد ([2])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
چھٹی صدی عیسوی جب انسان جاہلیت کے زمانۂ شروفساد میں اپنی حَیَات کے قیمتی ایّام غفلت میں پڑے بسر کر رہا تھا اور اس کا رُواں رُواں کفر وشرک کی نجاستوں سے لِتھڑا ہوا تھا تب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عرب کے ریگ زاروں ([3]) اور کوہساروں ([4]) میں اپنے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا۔ آفتابِ رِسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارگاہِ ربُّ الْاَنام عَزَّ وَجَلَّ سے وہ پیارا دین اسلام لے کر اس کرۂ ارضی پر تشریف لائے جس نے اپنے نُور سے جاہلیت کے اندھیروں کو دُور کر دیا اور شرک وکفر کی تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو توحید وایمان کے انوار سے جگمگا کر راہِ ہِدایت پر گام زَن کیا۔
السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب اِعْلانِ نبوت فرمایا اور لوگوں کو قبولِ اسلام کی دعوت دی تو بغض وحَسَد سے پاک دل رکھنے والی نیک طینت ہستیوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق پر لبیک کہا، ان کے اَعْضا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اِطاعت کے لئے جھک گئے اور قُلُوب واذہان (دل ودماغ) دین اسلام کی خدمت کے لئے تیار ہو گئے۔ اس طرح یہ پاک باز ہستیاں کفر وجہالت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آ گئیں۔ ان میں سے وہ حضرات جنہوں نے اسلام کو اس کے ابتدائی دنوں میں قبول کیا، قرآنِ کریم نے اِنہیں اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے دل نشین خطاب سے نوازا اور ساتھ ہی ساتھ یہ تین۳ عظیم وجلیل بشارتیں بھی سنائیں کہ
٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن سے راضی ہے۔
٭وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی ہیں۔
٭اُن کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رہیں گے۔
چنانچہ پارہ گیارہ ، سورۂ توبہ، آیَت نمبر 100 میں ہے:
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۰۰) (پ۱۱، التوبة: ۱۰۰)
ترجمۂ کنزالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مُہاجِر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے، اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور اُن کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
یہ اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ جنہوں نے اِسلام کو اس کے ابتدائی ایّام میں قبول کیا اور سب سے پہلے حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت ورِسالت کی گواہی دی، اِن میں سے جلیل القدر صَحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدنا سُھَیْل بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کے بھائی حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اور آپ کی زَوْجہ حضرتِ سیِّدَتُنا سَوْدَہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی تھیں۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! یہ وہ دَور تھا کہ جب اِسلام کے جِلَوْ (ہم راہی) میں آنے والوں کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا اور اس کی ایذا رسانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جاتی تھی، ایسے پُرآشوب دَور میں یہ نیک سیرت وپاک طبیعت ذواتِ مُقَدَّسہ اِسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہوئیں اور اس پختگی کے ساتھ وابستہ رہیں کہ کفر وشر کے تُند وتیز جھونکے بھی ان کے پایۂ ثبات (استقامت) میں لَغْزِش نہ لا سکے۔
جب دین اسلام کے پیروکاروں پر کفار کی جانب سے جور وسِتَم کی انتہا ہو گئی اور ان کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو غم گسارِ جہاں، شفیع مُذنِباں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان دین اسلام کے فِدائیوں کو یہ کہتے ہوئے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی اِجازت مرحمت فرما دی کہ ” اِنَّ بِاَرْضِ الْحَبَشَةِ مَلِكًا لَا يُظْلَمُ اَحَدٌ عِنْدَهٗ فَالْحَقُوْا بِبِلَادِهٖ حَتّٰى يَجْعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ فَرَجًا وَّمَخْرَجًا مِمَّا اَنْتُمْ فِيْهِ سرزمین حبشہ میں ایسا عادِل بادشاہ ہے کہ اس کے ہاں کسی پر ظُلْم نہیں کیا جاتا، تم لوگ اس کے ملک میں چلے جاؤ حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے لئے کُشَادْگی اور اِن مَصائِب سے نکلنے کا راستہ بنا دے جس میں تم مبتلا ہو۔ “ ([5])
مسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ اور کفار کا تَعَاقُب
کُفَّارِ مکہ کو جب ان لوگوں کی ہجرت کا پتا چلا تو اُن ظالموں نے اِن لوگوں کی گِرِفتاری کے لئے اِن کا تَعَاقُب کیا لیکن یہ لوگ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے اس لئے کفار ناکام واپس لوٹے۔ یہ مُہَاجِرین کا قافلہ حبشہ کی سرزمین میں اتر کر امن وامان کے ساتھ خدا کی عِبادت میں مصروف ہو گیا۔ چند دنوں بعد ناگہاں یہ خبر پھیل گئی کہ کفارِ مکہ مسلمان ہو گئے۔ یہ خبر سن کر چند لوگ حبشہ سے مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آ کر پتا چلا کہ یہ خبر غلط تھی۔ چنانچہ بعض لوگ تو پھر حبشہ چلے گئے مگر کچھ لوگ مکہ میں رُوپوش ہو کر رہنے لگے لیکن کفارِ مکہ نے ان لوگوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان لوگوں پر پہلے سے بھی زیادہ ظُلْم ڈھانے لگے تو حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پھر لوگوں کو حبشہ چلے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ حبشہ سے واپس آنے والے اور ان کے ساتھ دوسرے مظلوم مسلمان کل تراسی (۸۳) مَرد اور اٹھارہ عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ ([6]) اِس دوسری بار کی ہجرت میں حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اور آپ کی زوجہ حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی شریک ہوئے۔ ([7])
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع