my page 9
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Faizan e Muye Mubarak | فیضان موئے مبارک

book_icon
فیضان موئے مبارک
            

تَبَرُّکات زِندگی بخش ہیں

اس جگہ ایک باریک نکتہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت جبریل علیہ السّلام اللہ کے پیارے ہیں، اُن کا بابرکت ہونا واضِح ہے مگر واسطوں کی گنتی کیجئے: حضرت جبریل علیہ السّلام اللہ کے پیارے ، ان سے گھوڑے کو نسبت ہوئی ، گھوڑے کے قدموں سے مٹی کو نسبت ہوئی ، اس مٹی کے اندر اللہ پاک نے اتنی تاثیر پیدا کر دی کہ وہ مٹی لگنے سے بےجان بچھڑے میں جان پڑ گئی، وہ بولتا نہیں تھا، بولنے لگا۔ پتا چلا تَبَرُّکات زِندگی بخش ہوتے ہیں، ان کی برکت سے مردہ دِل زِندہ ہوتے ہیں، مردہ قوموں کو عروج ملتا ہے اور اللہ پاک تَبَرُّکات میں مُردہ شے میں جان ڈال دینے کی بھی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔

یہ شان ہے خدمت گاروں کی

یہیں سے ایک اور جانِب نگاہ کیجئے! حضرت جبریل علیہ السلام جن کے گھوڑے کے قدموں سے لگنے والی مٹی بےجان میں جان ڈالنے کا اَثَر رکھتی ہے ،یہ جبریل علیہ السلام کون ہیں؟ فرشتوں کے سردار اور ہمارے پیارے نبی،مُحَمَّدعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خادِم۔ اب ہم کیوں نہ کہیں : چاہیں تو اشاروں سے اپنے کایا ہی پلٹ دیں دُنیا کی یہ شان ہے اُن کے غلاموں کی سرکار کا عالم کیا ہو گا اللہ ! اللہ ! اندازہ کیجئے! جب خادم کے ، گھوڑے کے ، قدموں سے لگنے والی مٹی ایسی ہے تو اللہ کی نعمت،مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مُبَارَک قدم جس خاک پر لگ جائیں اس خاک کا رُتبہ کیا ہو گا! عاشقوں کے امام ، اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت رحمۃ ُاللہ علیہ اس خاکِ پاک کی شان بیان کرتے ہیں : ذَرَّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے تاجِ سَر بَنتے ہیں ، سیاروں کے

… سکینہ

قرآنِ کریم میں تبرکات کے لئے دوسرا لفظ استعمال ہوا؛سَکِیْنَہ۔ اس کا لفظی معنی ہے : دل کو اطمینان اور سکون دینے والی چیز۔ تابوتِ سکینہ کا واقعہ مشہور ہے ، اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ، دوسرے پارے کے آخر میں اسے بیان کیا، ہُوا یہ کہ حضرت طالوت رضی اللہ عنہ کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا گیا ، بنی اسرائیل نے اس فیصلے کی مخالفت کی کہ طالوت تو غریب ہیں ، یہ بادشاہ کیسے بن سکتے ہیں؟اس پر اس وقت کے نبی حضرت شمویل علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے اللہ کے حکم سے فرمایا: اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ (پ2،البقرة:248) ترجمہ کنزالایمان:اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے ۔ یہاں تابوت کے اَنْدر موجود چیزوں کو اللہ پاک نے سَکِیْنَہ فرمایا ، اس صندوق میں کیا تھا؟ یہ بھی قرآنِ کریم ہی سے پوچھ لیجئے، ارشاد ہوتا ہے: وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ (پ:2 ، بقرہ : 248) ترجمہ کنز الایمان:اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی۔ تفاسیر میں ہے: اس تابوت میں توریت شریف کی تختیوں کے ٹکڑے ، حضرت موسیٰ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے کپڑے، آپ کے نعلین شریف(مُبَارَک جوتے)،حضرت ہارون علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا عمامہ اوران کی لاٹھی مُبَارَک تھی۔بنی اسرائیل کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اس تابوت کو سامنے رکھ کر دُعا کرتے ، ان کی دُعا قبول ہوتی ، اس تابوت کی برکت سے انہیں جنگوں میں فتح ملتی تھی۔ (تفسیر صراط الجنان جلد ۱صفحہ۳۷۳بتغیر) پتا چلا اللہ پاک کے محبوب بندوں سے نسبت رکھنے والی چیزوں میں دِل کا سکون ہے،ان کی برکت سے مصیبت ٹلتی ہے ، دُعا قبول ہوتی ہے اور اللہ پاک کی رحمت چھما چھم برستی ہے۔

… شَعَائِرُ اللہ

تبرکات کے لئے استعمال ہونے والا تیسرا لفظ ہے:شَعَائِرُ اللہ ۔اس کا معنی ہے : اللہ کی نشانیاں۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ چار4مرتبہ آیا ہے۔ مُفَسِّر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ ُاللہ علیہ فرماتے ہیں :ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام یا اپنی قدرت یا اپنی رحمت کی علامت قرار دیا، ہر وہ چیز جس کو دینی عظمت حاصل ہو ، اس کی تعظیم مسلمان ہونے کی علامت ہو، وہ شَعَائِرُ اللہ ہے۔ (تفسیر نعیمی جلد ۶ص۱۷۲) ایک مقام پر فرماتے ہیں : انبیائے کرام،مشائخ اور علما بھی شَعَائِرُ اللہ میں داخِل ہیں بلکہ یہ تو شَعَائِرُ اللہ بنانے والے ہیں یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ شَعَائِرُ اللہ بَن جاتی ہے ، مثلاً کعبہ شریف اس لئے معظم ہوا کہ اس کو انبیاء سے نسبت ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کو بنانے والے ، حضرت اسماعیل علیہ السّلام اس کی تعمیر میں مُعَاوَنت کرنے والے،سیدِانبیاء،احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس سے محبت فرمائی۔ عرفات(جہاں حج ہوتا ہے)۔مِنیٰ(جہاں حاجی قربانی کرتے ہیں،انہیں بھی)باعظمت قرار دیا گیا ، اس لئے کہ انہیں اللہ والوں سے نسبت ہے،مِنٰی میں اللہ کے دو نیک بندوں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے قربانی پیش کی۔ ( مواعظ نعیمیہ، ص:۲۲۱بتغیر)

صَفَا مروہ شَعَائِرُ اللہ ہیں

اللہ پاک نے صَفَاومروہ کو شَعَائِرُ اللہ فرمایا: اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ- (پ:2، بقرہ : 158) ترجمہ کنز الایمان:بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں۔ یعنی صَفَا اورمَرْوَہ ، دو مقدس پہاڑ جہاں اللہ کی نیک بندی ، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی والدہ، حضرت ہاجرہ رحمۃ ُاللہ علیہ ا نے پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے، یہ دونوں پہاڑیاں کعبہ شریف کے قریب ہیں، قیامت تک کے لئے جو بندہ حج و عمرہ کرے اس پر حضرت ہاجرہ رحمۃ ُاللہ علیہ اکی یاد میں ان پہاڑوں پر دوڑنا، سات چکر لگانا ضروری ہے۔ معلوم ہوا انبیائے کرام، اولیائے کرام، اللہ کے نیک بندوں کے تَبَرُّکات عظمت والی چیزیں ہیں ، ان کی تعظیم کرنا دین کی علامت ہے۔

شَعَائِرُ اللہ کی تعظیم دِل کا تقویٰ ہے

قرآنِ کریم نے شَعَائِرُ اللہ کی تعظیم کرنے کو دِل کا تقویٰ فرمایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ (پ17،الحج:32) ترجمہ کنز الایمان:اورجو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔ تفسیر نُور العرفان میں ہے: اس آیت سے معلوم ہوا کہ عباداتِ ظاہِری تو ظاہِری جسم کا تقویٰ ہیں اور دِل میں بزرگوں اور ان کے تبرکات کی تعظیم ہونا دِلی تقویٰ ہے، اللہ نصیب کرے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس جانور یا پتھر کو عظمت والے سے نسبت ہو جائے، وہ شَعَائِرُ اللہ بن جاتا ہے، قرآن نے ہَدِی کے جانور کو کعبہ کی نسبت سے اور صفا و مروہ پہاڑ کو کعبہ والی سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی برکت سے شَعَائِرُ اللہ فرمایا، تفسیر روحُ البیان میں فرمایا کہ بزرگوں کی قبریں بھی شَعَائِرُ اللہ ہیں اور جن لوگوں کو اللہ کے پیاروں سے نسبت ہو جائے، وہ سب شَعَائِرُ اللہ ہیں۔ (تفسیر نور العرفان، ص:۵۳۵) اللہ پاک ہم سب کو آثار ِ انبیا و تبرکاتِ بزرگان کی تعظیم، دِل سے ان کی محبت و الفت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد *-*-*-*-*-*-*-*-*

فصل دُوُم

تبرکات سے متعلق سوال جواب

(فتاویٰ رضویہ، جلد:21 بَدْرُ الاَنْوار مسہلاً و ملخصاً)

تَبَرُّکاتِ انبیا و آثارِ اولیاکے وُجُود کا انکار کرنا کیسا؟

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی تبرک اور حضور کے آثارِ شریفہ سے کوئی چیز اصلاً باقی نہیں، نہ صحابہ کے پاس تبرکات شریفہ سے کچھ تھا، نہ کبھی کسی نبی کے آثار سے کچھ تھا؟ جواب:ایسا کہنے والا شخص قرآنی آیات و احادیثِ مصطفےٰ کا منکر، سخت جاہِل و نامراد یا کمال گمراہ ہے، اس پر توبہ فرض ہے، مسئلہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی توبہ نہ کرے تو ضرور گمراہ بےدین ہے۔

قرآنی آیت

اللہ فرماتا ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ ﳛ (پ۴، آلِ عمران:۹۶و۹۷) ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی، اس کے قدمِ پاک کا نشان اس پتھر میں بَن گیا، اَجِلّہ محدثیں عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المُنذر، ابن ابی حاتم، اَرْزُقِی نے امامِ اجل امام مجاہد جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں، ان سے اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں روایت کی: قَالَ اَثَرُ قَدَمَیْہِ فِی الْمَقَامِ آیَۃ بَیِّنَۃ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کے دونوں قدمِ پاک کا اس پتھر میں نشان ہو جانا یہ کھلی نشانی ہے، جسے اللہ پاک آیاتِ بینات فرمارہا ہے۔ (تفسیر طبری جلد ۶صفحہ ۲۸) تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے: ان کل واحد من اثرقدمیہ فی صخرۃ صماء و غوصہ فیہا الی الکعبین والانۃ بعض الصخور دون بعض وابقائہ دون سائر اٰیات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام وحفظہ مع کثرۃ الاعداء الوف سنۃ اٰیۃ مستقلۃ یعنی اس ایک پتھر کو اللہ تعالیٰ نے مُتَعَدَّ د آیات فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نشانِ قدم ہوجانا ایک، ان کے قدموں کا گٹوں تک اس میں پَیْر جانا دو، پتھرکا ایک ٹکڑا نرم ہوجانا باقی کا اپنے حال پر رہنا تین، معجزات انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم میں اس معجزے کا باقی رکھنا چار اور باوُجُود اس کے کہ دِین کے دُشمن بہت سارے ہیں، اس کا محفوظ رہنا پانچ، غرض یہ ایک پتھر قُدْرت کی کئی نشانیوں کا مجموعہ ہے۔ (ارشاد العقل السلیم جلد ۲صفحہ۶۱) قرآنی آیت2: مولیٰ سبحانہ وتعالیٰ فرماتاہے : وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۠(۲۴۸) (پ۲، البقرہ:۲۴۸) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بےشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لیے اگر ایمان رکھتے ہو وہ تبرکات جو تابوتِ سکینہ میں تھے، کیا تھے؟ موسیٰ علیہ السلام کا عصا، ان کی نعلین مبارک، حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ مقدسہ وغیرہ۔ ان کی برکات تھیں کہ بنی اسرائیل اس تابوت کو جس لڑائی میں آگے کرتے، فتح اور جس مراد میں اس سے تَوَسُّل کرتے، اِجابَت (یعنی مراد کا پُورا ہونا) دیکھتے۔ ابن جریر و ابنِ ابی حامت حضرت عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ سے روای:قال: وبقیۃ مما ترک اٰل موسٰی عصاہ ورضاض الالواح تابوت سکینہ میں تبرکات موسویہ سے ان کا عصا تھااور تختیوں کی کِرْچَیں۔ (تفسیر طبری جلد ٥ صفحہ ٣٣١ملتقطاً) وکیع بن جراح، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابنِ ابی حاتم اور ابوصالح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے راوی:قال: کان فی التابوت عصا موسٰی وعصا ھٰرون وثیا ب موسٰی وثیاب ہرون ولوحان من التوراۃ والمن تابوتِ سکینہ میں حضرت موسٰی و حضرت ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام کے عصاء اور دونوں حضرات کے ملبوس اور توریت کی دو تختیاں اور تھوڑا مَنّ و سلویٰ جو بنی اسرائیل پر اُترا تھا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم جلد ٩ صفحہ ٢٠٩ ) تفسیر معالم التنزیل میں ہے: کان فیہ عصاموسٰی ونعلاہ وعمامۃ ھرون وعصاہ تابوت میں حضرت موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کا عصا اور ان کی نعلین اور ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمامہ وعصا مبارک تھا۔ (تفسیر بغوی جلد ۱صفحہ ۲۹۹)

احادیثِ طیبہ

حدیث:1
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دعا بالحلاق وناول الحالق شقہ الایمن فحلقہ ثم دعا اباطلحۃ الانصاری فاعطاہ ایاہ ثم ناول الشق الایسر فقال احلق فحلقہ فاعطاہ اباطلحۃ فقال اقسمہ بین الناس یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حجام کو بلا کر سرمبارک کے داہنی جانب کے بال مونڈنے کا حکم فرمایا پھر ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلاکر وہ سب بال انھیں عطا فرمادئے پھر بائیں جانب کے بالوں کوحکم فرمایا اور وہ ابوطلحہ کو دئے کہ انھیں لوگوں میں تقسیم کردو۔ (مسلم جلد ۲صفحہ ۹۴۸، حدیث:۱۳۰۵ ) حدیث:2 صحیح بخاری شریف کتابُ اللباس میں عیسٰی بن طہمان سے ہے: قال اخرج الینا انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ نعلین لہما قبالان فقال ثابت البنانی ہذا نعل النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صحابئ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ دو نعل مبارک ہمارے پاس لائے، ان کےدو تسمے تھے ان کے شاگرد رشید ثابت بنانی نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نعل مقدس ہے۔ (بخاری جلد ٤صفحہ ۸۳، حدیث:۳۱۰۷) حدیث:3 صحیحین میں ابوبردہ سے ہے: قال اخرجت الینا عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کساء وازارا غلیظا فقالت قبض روح النَّبِيِّ صلی اﷲ علیہ وسلم فی ھٰذین ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک رضائی یا کمبل اور ایک موٹا تہبند ہمیں دکھایا اور فرمایا : وقت وصال حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے یہ دو کپڑے تھے۔ (بخاری جلد ٧صفحہ١٤٧، حديث:٥٨١٨) حدیث:4 صحیح مسلم شریف میں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا سے ہے: انہا اخرجت جبۃ طیالسیۃ کسروانیۃ لہا لبنۃ دیباج وفرجیہا مکفوفین بالدیباج وقالت ہذہ جبۃ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کانت عند عائشۃ فلما قبضت قبضتہا وکان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یلبسہا فنحن نغسلہا للمرضی يُسْتَشْفَى بہا یعنی انہوں نے ایک اُونی جبہ کسروانی ساخت نکالا، اس کی پلیٹ ریشمین تھی اور دونوں چاکوں پر ریشم کا کام تھا اور کہایہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جبہ ہے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا ان کے انتقال کے بعد میں نے لے لیا نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے تو ہم اسے دھو دھو کر مریضوں کو پلاتے اور اس سے شفا چاہتے ہیں۔ (مسلم جلد ٣صفحہ ١٦٤١، حديث:٢٠٦٩ملتقطاً) حدیث:5 صحیح بخاری میں عثمان بن عبد اللہ بن موہب سے ہے: قالت دخلت علی ام سلمۃ فاخرجت الینا شعرا من شعر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مخضوبا میں حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے موئے مبارک کی ہمیں زیارت کرائی اس پر خضاب کا اثر تھا۔ (بخاری جلد ۷صفحہ ۱۶۰، حدیث:۵۸۹۷)

فرمانِ اعلیٰ حضرت کا خلاصہ

مسئلہ کی وضاحت کے لئے یہ چند حدیثیں بُخاری و مسلم سے لکھ دیں، ورنہ اس مسئلہ میں بکثرت احادیث موجود ہیں اور آئمۂ کرام کے اقوال تو تواتر تک ہے اور مسئلہ خُود واضِح ہے، اس کا انکار کرنا واضِح جہالت ہے،آخر میں صِرْف شِفَا شریف کی ایک عبارت سُن لیجئے!

آثارِ مُقَدَّسہ کی تعظیم تعظیمِ مصطفٰی ﷺہے

قاضِی عیاض مالکی رحمۃ ُاللہ علیہ فرماتے ہیں: ومن اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ ومالمسہ اوعرف بہ وکانت فی قلنسوۃ خالد بن الولید رضی اﷲ تعالٰی عنہ شعرات من شعرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فسقطت قلنسوتہ فی بعض حروبہ فشد علیہا شدۃ ورأی ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما واضعایدہ علی مقعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من المبنر ثم وضعہا علی وجہہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کا ایک جزیہ بھی ہے کہ جس چیز کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کچھ نسبت ہو، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے چھوا ہو یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نامِ پاک سے پہچانی جاتی ہو، اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ٹوپی میں چند موئے مبارک تھے، کسی لڑائی میں وہ ٹوپی گر گئی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اس کے لئے شدید حملہ فرمایا۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے منبرا طہر میں جس جگہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما ہوتے تھے، اسے ہاتھ لگا کر اپنے چہرے پر پھیر لیا کرتے تھے۔ (شفا شریف جلد ٢صفحہ ٤٧ملتقطاً) اللھم ارزقنا حب حبیبک وحسن الادب معہ ومع اولیائہ اٰمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وبارک وسلم وعلیہم اجمعین "اے اللہ ! ہمیں اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اولیائے کرام کی محبت اور حسنِ ادب نصیب فرما"۔ آمین!

کیا اولیائے کرام کے آثار بھی بابرکت ہیں؟

سوال: ایک شخص آثارِ بزرگانِ دِین کی برکت کا منکِر ہے، کہتا ہے: بزرگوں کے لباس وغیرہ سے کوئی برکت حاصِل نہیں ہوتی، وہ صاحب پڑھے لکھے ہیں، اس لئے کہتے ہیں: اگر سو سال پہلے کے کسی عالِم نے اپنی کتاب میں اس برکت کو لکھا ہے تو میں مان لوں گا۔ سرورِ عالَم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آثار کے متعلق گفتگو نہیں (کہ شخص مذکور ان کی برکات کو تسلیم کرتا ہے)۔ جواب: بزرگانِ دین کے آثار کی برکات کا انکار چمکتے سورج کا انکار کرنے جیسا ہے، پھر تعجب کی بات دیکھئے! جب حضور پُرنور، سید عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آثارِ شریفہ کی برکت تسلیم ہے تو واضِح بات ہے اولیاء و علما حضور پُر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وُرَثَاء ہیں، ان کے آثار میں برکت کیوں نہ ہو گی، آخر یہی تو برکاتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وارِث ہیں۔ خیر! سائِل سو سال پہلے کے عُلَما سے تصریح چاہتا ہے، لہٰذا اِتِّمامِ حُجّت کے لئے آئِمّہ و عُلما کی چند عبارات پیش کی جاتی ہیں، ان آئمہ و علما میں بعض سو سال پہلے کے ہیں، بعض پانچ، چھ سو سال پہلے کے۔ (1): مسلم شریف میں ہے:حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: انی احب ان تاتینی فَتُصَلِّيَ فی مَنْزِلِي فاتخذہ مُصَلًّى (مسلم جلد ۱صفحہ ۶۱، حدیث:۳۳) (یعنی یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری تمنا ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لاکر کسی جگہ نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ کو نماز پڑھنے کے لئے متعین کرلوں) امامِ اجل امام زکریا نووی جن کی ولادت باسعادت ۶۳۱ھ اور وفات شریف ۶۷۷ھ میں ہوئی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: فیہ التبرک باٰثار الصالحین وفیہ زیارۃ العلماء والصلحاء، والکبار و اتباعہم وتبریکھم ایاھم اس میں بزرگان دین کے آثار سے تبرک اور علماء صلحاء، اوربزرگوں اور ان کے متبعین کی زیارت اور ان سے برکات کا حصول ثابت ہے۔ (شرح نووی علی المسلم جلد ۱صفحہ ۲۴۴) (2) : مسلم شریف ہی کی حدیثِ پاک، حضرت انس بن مالِک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مایوتی باناء الا غمس یدہ فیہ (یعنی مدینہ کے خدام پانی سے بھرے ہوئے برتن لے کر آتے، حضور ہر برتن میں اپنا ہاتھ ڈبودیتے۔) (مسلم جلد ۴صفحہ ۱۸۱۲، حدیث:۲۳۲۴) اس کے تحت امام مذکور، امام نووی رحمۃ ُاللہ علیہ فرماتے ہیں: فیہ التبرک باثارالصالحیناس میں صالحین کے آثار سے تبرک ثابت ہے۔ (شرح نووی علی المسلم جلد ۱صفحہ ۲۴۴) (3):بُخاری شریف میں حدیثِ پاک ہے، حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فجعل الناس یتمسحون بوضوئہ لوگ رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وُضُو کے پانی سے مسح کرنے (یعنی ہاتھوں پر لے کر جسم پر ملنے) لگے۔ (بخاری جلد ١ صفحہ ١٠٦، حديث:٥٠١) اس کے تحت امام احمد قسطلانی ۹۲۳ھ ارشادالساری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں: استنبط منہ التبرک بما یلامس اجساد الصالحین اس میں صالحین کے اجسام سے مس کرنیوالی چیز سے تبرک کا ثبوت ہے۔ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری جلد ۱صفحہ ۴۶۷، تحت الحدیث:۵۰۱ ) (4): سُننِ نسائی کی حدیثِ پاک میں ہے: حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وُضُو کا باقی پانی حضور سے مانگ کر اپنے ملک لے گئے (سنن نسائی جلد ۲صفحہ ۳۸، حدیث:۷۰۱) اس حدیثِ پاک کے تحت علّامہ مُلّا علی قاری مکی متوفی ۱۰۱۴ھ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ فرماتے ہیں: فیہ التبرک بفضلہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ونقلہ الی البلاد نظیرہ ماء زمزم یعنی اس سے ثابت ہوا کہ سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے استعمال سے بچی ہوئی چیز سے برکت لینا اور دوسرے شہروں میں لے جانا جائِز ہے، جیسا کہ آبِ زم زم سے تبرک لیتے اور بطور تبرک دوسرے شہروں میں لے جاتے ہیں۔ پھر فرمایا: ان فضلۃ وارثیہ من العلماء وَالصَّالِحِينَ کذٰلک حضور علیہ الصلوٰۃ ولسلام کے وارثوں علماء وصلحاء کا بچا ہوا بھی یونہی متبرک ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد ۲صفحہ ۶۰۳ملتقطاً) (5): مولٰنا شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۲۵ھ نے اشعۃ اللمعات میں اسی مذکورہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں: دریں حدیث استحباب است بہ بقیہ آب وضو ے وپس ماندہ آنحضرت ونقل آں ببلاد و مواضع بعیدہ مانندآب زمزم وتبرک مے ساخت وفضلہ وارثان او کہ علماء وصلحاء اند وتبرک بآثار وانوار ایشاں ہم بریں قیاس ست ترجمہ: اس حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وضو سے بچا ہوا پانی اور دیگر استعمال شُدہ اشیاء کا متبرک ہونا اور ان کو دوسرے شہروں میں منتقل کرنے کی نظیر آب زمزم شریف ہے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وارث علماء وصلحاء کی بچی ہوئی چیز اور ان کے آثار وانوار کا اسی پر قیاس ہے۔ (اشعة اللمعات جلد ۱صفحہ ۳۳۱) (6):امام علامہ احمد بن محمد مصری مالکی جو شیخِ محقق رحمۃ ُاللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، آپ اپنی کتاب مستطاب فتح المتعال فی مدح خیر النعال میں فرماتے ہیں: وہذا لفظ حکی جماعۃ من الشافعیۃ ان الشیخ العلامۃ تقی الدین ابا الحسن علیا السبکی الشافعی لما تولی تدریس دارالحدیث بالاشرافیۃ بالشام بعد وفاۃ الامام النووی احد من یفتخر بہ المسلمون خصوصا الشافعیۃ انشد لنفسہ اس بات کو شوافع کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ علامہ تقی الدین علی سبکی شافعی جب شام میں امام نووی کی وفات کے بعد مدرسہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے: وفی دارالحدیث لطیف معنی الی بسط لہا اصبو و اٰوی لعلی ان امس بحر وجھی مکانامسہ قدم النواوی ترجمہ اشعار: دارالحدیث میں ایک لطیف معنی سے بسط کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف میں مائل اور راجع ہوں یہ کہ ہوسکتاہے کہ محبت کی شدت میں اس جگہ کو اپنے چہرے سے مس کروں جس کو امام نووی کے قدموں نے مس کیا ہے۔ (7) :شاہ ولی اللہ دہلی متوفی ۱۱۷۴ھ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں: من اراد ان یحصل لہ ماللملاء السافل من الملئکۃ فلا سبیل الے ذٰلک الا الاعتصام بالطہارۃ و الحلول بالمساجد القدیمۃ التی صلی فیہا جماعات من الاولیاء جو شخص ملاءِ سافل کے فرشتوں کا مقام چاہتاہے اس کی صرف یہی صورت ہے کہ وہ طہارت کااور پُرانی مساجد جہاں اولیائے کرام نے نماز پڑھی ہو ان میں جانے کا التزام کرے۔ ( فیوض الحرمین (مترجم اردو) ،ص۶۲) (8) :یہی شاہ صاحب ہمعات میں لکھتے ہیں: حفظ اعراس مشایخ ومواظبت زیارت قبور ایشاں والتزام فاتحہ خواندن وصدقہ دادن برائے ایشاں واعتنائے تمام کردن بہ تعظیم آثار واولاد ومنتبان ایشاں مشائخ کے عرس، ان کے مزارات کی زیارت، ان کے لئے فاتحہ خوانی اور صدقات کا اہتمام ضروری ہوجاتاہے اور ان کے آثار واولاد اور جو چیز ان کی طرف منسوب ہو ان کی تعظیم کا مکمل اہتمام لازم قرار پاتاہے۔ (ہمعات، ہمہ:۱۱، صفحہ:۵۸) (9):انہی شاہ صاحب کی انفاس العارفین میں ہے: حرمین شریفین میں ایک شخص تھا، اسےحضرت غو ث الاعظم رحمۃ ُاللہ علیہ کی کلاہ مبارک تبرکا سلسلہ وار اپنے آباء واجداد سے ملی ہوئی تھی، جس کی برکت سے وہ شخص حرمین شریفین کے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور شہرت کی بلندیوں پر فائز تھا۔ ایک رات حضرت غوث الاعظم رحمۃ ُاللہ علیہ کو (خواب میں) اپنے سامنے موجود پایا، آپ فرمارہے تھے: یہ کلاہ ابوالقاسم اکبرآبادی تک پہنچادو! حضرت غوثِ اعظم رحمۃ ُاللہ علیہ کا یہ فرمان سن کر اس شخص کے دل میں آیا کہ اس بزرگ کی تخصیص لازمی کوئی سبب رکھتی ہے۔چنانچہ امتحان کی نیت سے کلاہ مبارک کے ساتھ ایک قیمتی جبہ بھی شامل کرلیا اور پوچھتے پوچھاتے حضرت خلیفہ ابو القاسِم اکبر آبادی رحمۃ ُاللہ علیہ کی خدمت میں جاپہنچا اور ان سے کہا: یہ دونوں تبرک حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے ہیں، انہوں نے مجھے خواب میں حکم دیا ہے کہ یہ تبرکات ابوالقاسم اکبر آبادی رحمۃ ُاللہ علیہ کو دے دو! یہ کہہ کر تبرکات ان کے سامنے رکھ دئے۔ حضرت ابوالقاسم رحمۃ ُاللہ علیہ نے تبرکات قبول فرمائے اور بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اس شخص نے کہا: یہ تبرک ایک بہت بڑے بزرگ کی طرف سے عطا ہوئے ہیں، لہذا شکریے میں ایک بڑی دعوت کا انتظام کیجئے۔ حضرت ابو القاسم رحمۃ ُاللہ علیہ نے فرمایا: کل تشریف لانا، دعوت کا اہتمام کریں گے،آپ جس جس کو چاہیں بلالیجئے! دوسرے روز صبح صبح وہ درویش روسائے شہر کے ساتھ آیا، دعوت کھائی اور فاتحہ پڑھی، فارغ ہونے کے بعد لوگوں نے شیخ ابو القاسِم رحمۃ ُاللہ علیہ سے پوچھا: آپ تو متوکل ہیں، ظاہری سامان کچھ بھی نہیں رکھتے، پھر ایسی پُر تکلف دعوت کا اہتمام کیسے کیا؟ فرمایا: اس قیمتی جبے کو بیچ کر ضروری اشیاء خریدی ہیں۔ یہ سن کر وہ شخص چیخ اٹھا کہ میں نے اس فقیر کو اللہ والاسمجھا تھا مگر یہ تو مکار ثابت ہوا، ایسے تبرکات کی قدر اس نے نہ پہچانی۔ آپ نے فرمایا: چپ رہو جو چیز تبرک تھی وہ میں نے محفوظ کرلی اور جو سامان امتحان تھا اسے بیچ کر دعوتِ شکرانہ کاانتظام کر ڈالا۔ اب وہ شخص جان گیا اور اس نے تمام اہل مجلس پر ساری حقیقت حال کھول دی۔ (انفاس العارفین مترجم، صفحہ:۸۹) اعلیٰ حضرت رحمۃ ُاللہ علیہ آئمہ کرام کی یہ اور ایسی کئی عبارات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:ایسی سینکڑوں عبارات ہیں، یہ سب عبارات ایک طرف میں حدیثِ صحیح سے ثابت کرتا ہوں کہ خود حُضُور پُرنور، سیدِ یومُ النّشور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آثارِ مسلمین سے تبرک فرماتے تھے، چنانچہ طبرانی معجمِ اوسط اور ابو نعیم حِلْیَہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ما راوی، فرماتے ہیں: کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یبعث للمطاہر فیوتی بالماء فیشربہ یرجوبہ برکۃ ایدی المسلمین یعنی حضور پر نور، سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسلمانوں کی طہارت گاہ (مثلاً حوض وغیرہ جہاں مسلمان وُضُو کیا کرتے تھے، وہاں) سے پانی منگوا کر بطور تبرک نوش فرماتے تھے۔ (معجم اوسط جلد ١صفحہ ٢٤٢، حديث:٧٩٤) علامہ عبد الرؤف مناوی نے تیسیر میں، علامہ علی بن احمد عزیزی نے سراج المنیر میں اس حدیثِ پاک کے متعلق فرمایا: باسناد صحیح (یعنی اس کی سند صحیح ہے)۔ (التيسير شرح جامع صغير جلد ٢صفحہ ٢٦٩) اللہ اکبر! اللہ اکبر !اللہ اَعلٰی واجل واکبر ! یہ حضور پر نور، سیدُ الْمُبَارِکِیْن صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں جن کی نعلینِ پاک کی خاک تمام جہانوں کے لئے تبرکِ دِل وجان اور سرمۂ چشمِ دین و ایمان ہے، آپ اس پانی کو جس میں مسلمانوں کے ہاتھ دُھلے، تبرک ٹھہرائیں اور اسے منگا کر بطور تبرک نوش فرمائیں، حالانکہ و اللہ مسلمانوں کے ہاتھ، زبان، دِل و جان میں جو برکتیں ہیں، سب انہی نے عطا فرمائیں، انہی کی نعلینِ پاک کے صدقے نصیب ہوئیں، یہ سب تعلیمِ اُمّت کے لئے اور خوابِ غفلت میں بھٹکنے والوں کی تنبیہ کے لئے تھا کہ دلائل سے نہ سمجھیں تو اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عَمَل مبارک سُن کر بیدار ہوں اور آثارِ اولیا و علما سے برکت کے طلب گار ہوں، پھر کیسا جاہِل، محروم، نافہم ہے وہ کہ محبوبانِ خُدا کے آثار کو تبرک نہ جانے اور اس سے حُصُولِ برکت نہ مانے۔ ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدا لمرسلین محمد واٰلہ وصحبہ واولیائہ وعلمائہ وامتہ وحزبہ اجمعین اٰمین۔ واﷲ وتعالٰی اعلم۔ چار سوال اور ان کے جوابات سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ (1):رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آثارِ شریفہ سے تبرک کیسا ہے؟ (2):اور اس کے لئے ثبوت یقینی درکار ہے یا صرف شہرت کافی ہے؟ (3):اور نعلین شریفین کے نقشہ مبارک کو بوسہ دینا اور اس سے تَوَسُّل (یعنی اس کے وسیلہ سے دُعا مانگنا) جائِز ہے یانہیں؟ (4):بعض لوگ نعل شریف کے نقشہ پر بسم اللہ شریف پھر اللھم ارنی برکۃ صاحب ہذین النعلین الشریفین یا اللہ ! مجھے ان نعلین پاک کی برکت سے نواز، پھر اس کے نیچے دُعائے حاجت لکھتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب سوالِ اَوَّل

آثارِ شریفہ سے تبرک مستحب و محبوب ہے

فی الواقع سرورِ عالَم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آثارِ شریفہ سے تبرک سلفاً خلفاً حضور پُر نور، سید عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے زمانۂ اَقْدس سے لے کر آج تک بغیر کسی انکار کے رائِج و معمول ہے، مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ عمل مستحب و محبوب ہے۔ اس کے جواز میں بخاری و مسلم وغیرہ کتبِ حدیث کی صحیح احادیث موجود ہیں۔

جواب سوالِ دُوُم

تبرکات کے ثبوت کے لئے شہرت کافی ہے

ایسی جگہ (یعنی تبرکات شریف کے ثبوت کے لئے) ثبوتِ یقینی یا سندِ محدثانہ کی بالکل حاجت نہیں، اس کی تحقیق کے پیچھے پڑنا اور جب تک مکمل تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک آثارِ شریفہ کی تعظیم اور ان سے تبرک سے باز رہنا سخت محرومی و کم نصیبی ہے، آئِمۂ دین نے صِرْف حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے (یعنی جس شَے کے متعلق مسلمانوں میں مشہور ہو کہ مثلاً یہ سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عمامہ شریف یا نعلین مقدس ہیں، تو اس کی تعظیم و تکریم بھی کی جائے گی اور اس سے برکت بھی لی جائے گی)۔ امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ ُاللہ علیہ شفا شریف میں فرماتے ہیں: من اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ و اکرام مشاہدہ وامکنتہ من مکۃ والمدینۃ ومعاہدہ ومالمسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اواعرف بہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام متعلقات کی تعظیم اور آپ کے نشانات اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے مقامات اور آپ کے محسوسات اور آپ کی طرف منسوب ہونے والی اشیاء جو آپ کی نسبت سے مشہور ہوں، ان کا احترام یہ سب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم وتکریم ہے۔ (شفا شریف، ومن اعظامہ و اکبارہ، ۲/۴۷ملتقطاً)

جواب سوالِ سوم

نقشِ نعلِ پاک کی برکات

اسی طرح مشرق و مغرب، عرب و عجم کے عُلمائے کرام و آئمۂ دین حضور پُرنور سید البشر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نعلِ مقدس کے نقشے کاغذوں پر بناتے، کتابوں میں تحریر فرماتے اور انہیں بوسہ دینے، آنکھوں سے لگانے، سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے ہیں، نیز امراض سے شفا اور مرادوں کے حصول کے لئے ان کے وسیلے سے دُعائیں بھی فرماتے ہیں۔ علّامہ ابن عساکر، شیخ ابو اسحٰق ابراہیم وغیرہ علما رحمہم اللہ نے اس بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں اور علّامہ احمد رحمۃ ُاللہ علیہ کی فتح المتعال فی مدح خیر النعال اس مسئلے میں بہت جامع اور نہایت نفع بخش کتاب ہے۔ محدث علامہ ابو الربیع کلاعی، قاضی شمس الدین رشیدی، شیخ فتح اللہ بیلونی، سید محمد موسیٰ حسینی مالکی، شیخ محمد بن فرج سبتی، شیخ محمد بن رشید فہری، علامہ احمد بن محمد تلمسانی، علامہ ابو الیمن ابن عساکر، علامہ ابو الحکم مالِک بن عبد الرحمٰن مغربی اور امام ابو بکر احمد انصاری قرطبی وغیرہم رحمۃ ُاللہ علیہ م نے نقشہ نعلِ پاک کی مدح میں قصیدے لکھے، ان قصیدوں میں نقشِ نعلِ پاک کو بوسہ دینے، سر پر رکھنے کا حکم دیا اور اس کا مستحسن (یعنی اچھا عَمَل ہونا) بتایا۔

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن