30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
موئے مبارک کا غسالہ پی لیا
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ایک بار مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رِدا ( چادر) مُقدّسہ اور موئےمبارک ہیں، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں، حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حصولِ بَرَکت کے لئے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا۔
(تاریخ ابنِ عساکر،59/153)
غسالہ شریف سے شِفَا مل جاتی
اُمّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چند موئے مبارک تھے جنہیں آپ رضی اللہ عنہا نے چاندی کی ایک ڈبیہ میں رکھا ہو اتھا۔ لوگ جب بیمار ہوتے تو وہ ان موئے مبارک سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا طلب کرتے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے موئے مبارک کو پانی کے پیالے میں رکھ کر وہ پانی پی جاتے تو انہیں شفا مل جایا کرتی۔
(عمدة القاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، ۱۵/۹۴، تحت الحدیث: ۵۸۹۶)
اسلامی بھائیو! اس حدیثِ پاک سے دو مسئلے معلوم ہوئے: (1):صحابۂ کرام علیہم الرضوان حضور جانِ کائناتصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّمکے بال مبارک برکت کے لئے اپنے گھروں میں رکھتے تھے (2):صحابۂ کرام علیہم الرضوان موئے مقدس کا کمال ادب و احترام کیاکرتے تھے کہ اس کے رکھنے کو خاص اور قیمتی ڈبیہ بناتے اور اس میں خوشبو بسایا کرتے تھے۔
موئے مبارک کی تعظیم فرض ہے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ ُاللہ علیہ فرماتے ہیں: آیات و اَحادیث کے نقوش (یعنی صفحے پر دکھنے والے الفاظ) کی جیسی تعظیم فرض ہے، یونہی حضُور پُر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رِدا (چادر) و قمیص خصوصاً ناخُن و مُوئے مبارک کی (تعظیم بھی فرض ہے) ۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد۹، ص۱۱۹)
موئے مبارک کی زیارت کا شرف ملا
حضرت عثمان بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس موئے مبارک تھے جو آپ نے چاندی کی کپی میں نہایت ادب سے رکھے ہوئے تھے، جب کسی آدمی کو نظر لگ جاتی تو اسے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہ اکے ہاں بھیج دیا جاتا، حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا موئے مبارک نکالتیں، اسے پانی میں ہِلا دیتی اور مریض پی لیا کرتا، حضرت عثمان بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ گھر والوں نے مجھے بھی حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بھیجا، میں نے چاندی کی کپی میں جھانکا تو چند سرخ بال دیکھے۔
مفسر شہیر، حکیم الا ُمت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ ُاللہ علیہ اس حدیث مبارک کے تحت فرماتے ہیں :بال کی یہ سرخی خضاب کی نہ تھی بلکہ وہ بال خوشبوؤں میں رکھے گئے تھے، یہ رنگ اسی خوشبو کا تھا۔ اس حدیث سے چند فائدے حاصل ہوئے: ایک یہ کہ حضرات صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال شریف برکت کے لیے اپنے گھروں میں رکھتے تھے۔دوسرے یہ کہ اس بال شریف کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے کہ اس کے لیے خاص کپی(ڈبی) بناتے اس میں خوشبو بساتے تھے۔ تیسرے یہ کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال شریف کو دافعِ بلا، باعث شفا سمجھتے تھے کہ انہیں پانی میں غسل دے کر شفاء کے لیے پیتے تھے۔
(مراٰ ۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، 6/405)
تبرکات میں شِفَا کے دلائل
قرآنِ کریم میں ہے، حضرت یُوسُف علیہ السلام کے والِدِ محترم، نبئ مکرم حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی مبارک میں کمی آئی تو حضرت یوسُف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو فرمایا:
اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ-
(سورہ یوسف آیت نمبر 93)
ترجمہ ٔکنزالایمان: میرا یہ کُرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
اللہ اکبر! مقامِ غور ہے۔ جب حضرت یُوسُف علیہ السلام کے جسم مبارک سے عارضی طور پر مَسْ ہونے والا کپڑا باعِثِ شِفا ہے تو حضرت یُوسُف علیہ السلام کے بھی آقا، دوجہاں کے داتا، محبوبِ خُدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جسم مبارک سے جُڑے ہوئے، جُزوے بدن رہنے والے موئے مبارک کیونکر باعِثِ شِفَا نہیں ہوں گے...؟
امام احمد بن حنبل کا عشقِ موئے مبارک
حضرت امام احمد بن حنبل شَیْبَانی رحمۃ ُاللہ علیہ کے پاس سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک موئے مبارک تھا۔ آپ موئے مبارک کو کبھی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر چومتے، کبھی آنکھوں پر رکھتے اور بیماری کی حالت میں موئے مبارک کو پانی میں ڈال کراس کا دھوون پیتے اورشفا حاصل کرتے تھے۔
(تھذیب التھذیب، الرقم: ۱۰۶ احمد بن محمدبن حنبل، ۱/۹۷، ۱۰۰)
ہمیشہ فتح و نُصْرت ملتی
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خوش قسمتی سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیشانی مبارک کے بال میرے پاس تھے ۔ میں نے ان کو اپنی ٹوپی میں آگے کی طرف سی رکھا تھا۔ان بالوں کی برکت تھی کہ عمر بھر ہر جہاد میں فتح و نصرت حاصل ہوتی رہی۔
(شفا شریف،1/331)
کافِر لشکریوں کے پاؤں اُکھڑ گئے
ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھوڑی سی فوج لے کر ملک شام میں جبلہ بن ایہمکی قوم کے مقابلہ کے لیے تشریف لے گئے اور ٹوپی گھر میں بھول گئے ۔جب مقابلہ ہوا تو رومیوں کا بڑا افسر مارا گیا ۔اس وقت جبلہ نے تمام لشکر کو حکم دیا کہ مسلمانوں پر یکبارگی سخت حملہ کر دو۔حملے کے وقت صحابہ کرام علیہم الرضوان کی حالت نازک ہوگئی۔ یہاں تک کہ رافع بن عمر طائی رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا: آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سچ کہتے ہو،اس کی وجہ یہ ہے کہ میں آج ٹوپی گھر بھول آیا ہوں جس میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے موئے مبارک ہیں ۔
ادھر یہ حالت تھی اور ادھر اسی رات حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے خواب میں تشریف لائے، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کے امیر تھے، سرکارِ عالی وقار، مکی مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: (اے ابوعبیدہ!) تم اس وقت سو رہے ہو، اُٹھو اور خالِد بن ولید کی مدد کو پہنچو! کفّار نے انہیں گھیر لیا ہے۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے اور لشکر تیار کر کے فوراً تیزی سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک سوار کو دیکھا جو گھوڑا دوڑائے ہوئے ان سے آگے جا رہا تھا ،یہ دیکھ کر آپ نے چند تیز رفتار سواروں کو حکم دیا کہ اس سوار کا حال معلوم کرو!سوار جب قریب پہنچے تو پکار کر کہا:اے جواں مرد سوار! ذرا ٹھہرو! یہ سنتے ہی وہ ٹھہر گیا۔معلوم کیا تو وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں۔حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سفر کی وجہ پوچھی تو کہا:اے امیر !جب رات کو میں نے سنا کہ آپ نے لشکر اسلام میں اعلان کروایاکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دشمنوں نے گھیر لیا ہے، فوراً تیار ہو جاؤ! تو میں نے خیا ل کیا کہ وہ کبھی ناکام نہ ہوں گےکیونکہ ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے موئے مبارک ہیں ۔لیکن جوں ہی میں نے دیکھاتو میری نظر ان کی ٹوپی پر پڑی جس میں موئے مبارک تھے۔نہایت افسوس ہوا اور اسی وقت چل پڑی کہ کسی طرح ان تک ٹوپی پہنچا دوں۔حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:خدا تمہیں برکت دے۔ وہ بھی ان کے ساتھ شریک لشکر ہوگئیں۔
حضرت رافع بن عمرو رضی اللہ عنہ جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے فرماتے ہیں کہ حالت یہ تھی کہ ہم اپنی زندگیو ں سے بالکل مایوس ہوگئے تھے کہ اچانک تکبیر کی آواز آئی ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے۔ جب رومیوں کے لشکر پر نظر پڑی تو کیا دیکھا کہ چند سوار ان کا پیچھا کیے ہوئے ہیں اور بد حواس ہو کر بھاگے چلے آرہے ہیں۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑا کر ایک سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جوانمرد سوار! تو کون ہے؟اس نے جواب دیا: میں آپ کی زوجہ اُمِّ تمیم رضی اللہ عنہ اہوں ،آپ کی مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے دشمنوں پر فتح پایا کرتے ہیں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ٹوپی مبارک پہن لی۔ راوی حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ٹوپی پہن کر جب کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی۔
(ذکر جمیل ص 78)
فقط اس واسطے خالد نے ہر اک معرکہ جیتا انہوں نے ٹوپی میں رکھے میرے سرکار کے گیسو
عین جنگ میں ٹوپی کی فکر کیوں؟
جنگ یرموک میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اپنی شجاعت بیان کرتے ہوئے لشکر کفار کی طرف بڑھے،ادھر سے ایک پہلوان نکلا ،جس کا نام نسطور تھا، دونوں کا دیر تک سخت مقابلہ ہوتا رہاحتی کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کاگھوڑا ٹھوکر کھا کر گر گیااور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کے سر پر آگئے، مبارک ٹوپی زمین پر تشریف لے آئی ،نسطور موقع پاکر آپ رضی اللہ عنہ کی پشت پر آگیا ۔اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پکار پکار کراپنے رفقا سے فرما رہے تھے کہ میری ٹوپی مجھے دو ! خدا تم پر رحم کرے۔ایک شخص جو آپ کی قوم بنی مخزوم سے تھا وہ دوڑ کر آیا اور ٹوپی آپ کو دی آپ نے اسے پہن لیا اور نسطور کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ نے اسے قتل کر دیا ۔ لوگوں نے اس واقعہ کے بعد آپ سے پوچھاکہ دشمن تو پشت پر آپہنچا تھا اور آپ ٹوپی کی فکر کر رہے تھے، ٹوپی اتنی بھی قیمتی نہیں ہے؟ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ٹوپی میں حضور سید عالم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک ہیں جو مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر بھر ہر جنگ میں ان مبارک بالوں کی برکت سے فتح و نصرت حاصل ہوتی رہی ،اس لیے میں بے قراری سے اپنی ٹوپی کی طلب میں تھا کہ کہیں ان کی برکت میرے پاس نہ رہے اور کافروں کے ہاتھ لگ جائے ۔
(شفا شریف 3/ 44)
تم ہمیشہ کامیاب رہو گے
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی کریم، رَ ء ُوفٌ رَّحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حلق کروایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک بالوں میں سے چند بال اپنے پاس رکھ لیے۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: مَا تَصْنَعُ بِہٰوُ لَا ئِ یَا خَالِدُ خالد! تم ان بالوں کا کیا کرو گے؟ میں نے عرض کی: اَتَبَرَّکُ بِہَا یَا رَسُوْلَ اللہ وَاسْتَعِیْنُ بِہَا عَلَی الْقِتَالِ قِتَالَ اَعْدَائِیْ
یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیک و سلم! ان موئے مبارک کو بطور تبرک اپنے پاس رکھوں گا اور ان سے مدد لیتے ہوئے اپنے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا کروں گا۔ یہ سُن کر رسولِ اکرم، نورِمجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت خالِد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مبارک عقیدہ پر نبوی مہر ثبت کرتے ہوئے فرمایا: لَا تَزَالُ مَنْصُوْراً مَا دَامَتْ مَعَکَ یعنی خالد!جب تک یہ بال تمہارے پاس رہیں گے، ان کی برکت سے تم ہمیشہ غالِب اور منصور رہو گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فَجَعَلْتُہَا فِیْ مُقَدَّمَۃِ قَلَنْسُوَتِیْ فَلَمْ اَلْقِ جَمْعًا قَطُّ اِلَّا اِنْہَزَمُوْا بِبَرَکَۃِ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم اس وقت سے میں نے یہ موئے مبارک اپنی ٹوپی کے اگلے حِصّے میں محفوظ کر لئے ہیں، میں جب بھی دشمنوں کے مقابلے پر جاتا ہوں تو رسولِ اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی برکت سے دشمن شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔
(فتوح الشام، الشعارجلد۱صفحہ۲۱۰)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع