my page 5
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Duniya Ki Mohabbat | دنیا کی محبت

book_icon
دنیا کی محبت
            

زُہْد کی اقسام

زُہد (یعنی دنیا سے بے رغبتی )کی وجہ سے عبادت زیادہ اور بُلند مرتبہ ہو جاتی ہے لہٰذا عبادت کے طلبگار پر لازم ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور اس سے دور رہے۔ زُہد کی دو قسمیں ہیں: (1) …اِخْتِیاری اور (2)…غیر اِخْتِیاری۔ اِخْتِیاری زُہد یہ ہے کہ جو پاس نہ ہو اس کی طلب نہ کرے، جو پاس ہو اسے تقسیم کر دے اور دنیا اور اس کے سازوسامان کا ارادہ چھوڑ دے۔ جس شخص میں یہ تین خوبیاں موجود ہوں وہ زاہد ہے ،تیسرے جُز یعنی طَلَبِ دُنیا بھی دل سے نکال دینا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت ایسے ہیں جو اوپر اوپر سے توتارکِ دُنیا(یعنی دنیا کو چھوڑنے والے) ہیں مگر ان کے دلوں میں دُنیا کی محبت چٹکیاں لیتی رہتی ہے ایسا شخص اسی کَشْمکش میں مبتلا رہتاہے، حالانکہ زُہد کی اصل شان اسی تیسرے جُزسے ہی پیداہوتی ہے ۔ غیر اِخْتِیاری زُہد یہ ہے کہ دل دنیاوی اشیا کے شوق وخیالات سے سرد پڑ جائے۔ جب بندہ اختیاری زہد اپنائے گا، یوں کہ جو پاس نہیں اسے طلب نہ کرے، جو پاس ہے اسے دور کر دے اور دل سے دنیا کا ارادہ بھی نکال دے تو پھر اس کا دل دنیا سے سَرد پڑ جائے گا، دنیا اس کے نزدیک حقیر ہو جائے گی اور اسے دنیا کا خیال نہ آئے گا اور یہ غیر اختیاری زہدہے۔ (منہاج العابدین، ص 29)

زُہْد کے درجات

(1)انسان تَکلُّف کے ساتھ دُنیا سے بے رغبتی اختیارکرے اوراپنی خواہشات کے باوجود اسےچھوڑنے کی کوشش کرےتو ایسا شخص مُتَزَہِّدْہے اور ہوسکتا ہے وہ اس پر ہمیشگی اختیار کرکے زُہد کو پالے۔ (2) وہ اپنی خوشی سے دُنیاسے بے رغبتی اختیار کرے یعنی وہ جس چیز کی لالچ کر رہا ہے اس کی نسبت سے دنیا کو حقیر جانے جیسے کوئی شخص دو درہم کے لئے ایک درہم چھوڑ دیتاہے اور یہ چیز اس پر دشوار نہیں ہوتی لیکن اس کی توجہ دنیا اور اپنے نفس کی طرف بھی رہتی ہے (یعنی وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑی اہم چیز کو چھوڑا ہے)اور یہ بھی زہد ہے، لیکن اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ (3) تیسرا درجہ سب سے اعلیٰ ہے اور وہ یہ کہ بندہ خوشی سے زُہد اختیار کرے اور اپنے زہد میں مُبالغہ اِخْتِیار کرے اور یہ خیال نہ کرے کہ اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ دنیا کوئی چیز نہیں، دنیا کی آخرت کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں۔اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ تم رِضائے الٰہی کے لئے اس کے سوا ہر چیز سے بے رغبت ہوجاؤ اور یہ چیز اللہ پاک (کے دیدار)کی لذّت اوراس کے سوا ہر نعمت سے زُہد اختیار کرنے کی پہچان سے حاصل ہوتی ہےلہٰذاتمہیں چاہیے کہ اپنی ضرورت کے مُطابق کھانا، لباس، نکاح اور رہائش اختیار کرو، جس سے تمہارے بدن کا گزارہ ہو اور تم اپنا دِفاع کر سکو، یہی حقیقی زُہدہے۔(لباب الاحیاء، ص 333) ۔(مختصر احیاء علوم الدین، ص296)

زُہْد کے حُصُول کے اسباب

زُہد سے مقصود یہ ہے کہ فضول،زائد اورغیر ضروری چیزوں سے بچاجائے غرض یہ کہ صرف اس قدر طاقت و قدرت موجود رہے جس سے عبادت اور اللہ پاک کی فرمانبرداری کرسکو۔مَحْض کھانا پینااورلذّت حاصل ہونا مقصد نہ ہو اور اللہ پاک کواس پر بھی قدرت ہے کہ تمہیں بغیر کسی ظاہری سبب کے جیساکہ فرشتے اِن مادی اسباب و ذرائع کے بغیر ہی زندہ ہیں ، اللہ پاک کو اس کی بھی طاقت ہے کہ تمہیں تمہارے پاس موجود شےکے ذریعے زندہ رکھے یا ایسی شےمہیا فرمادے جس کا تمہیں وہم و گمان تک نہ ہواس لئے اگر تم تقویٰ پرقائم رہوگےتوتمہیں بقائے حیات کیلئے طلبِ دنیا و غیرہ کی حاجت نہیں اوراگر زہد کایہ درجہ تمہیں حاصل نہ ہوتوزادِ آخرت اور تقویٰ کی نیّت سے تلاش کرو۔شَہْوت و لذّت کی غرض سے تلاش نہ کروکیونکہ جب تمہاری نیت نیک ہوگی تویہ طلبِ آخرت میں ہی شمار ہوگی اوراس طرح تمہارے زہد میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ (منہاج العابدین، ص 32) (1)کبھی تودوزخ کا خوف اورعذاب کا اندیشہ زُہْد کا سبب بن جاتاہے اوراس زُہْد کو خائِفین کا زُہْد کہتے ہیں۔(2)کبھی اُخْرَوِی نِعْمَتوں کی لذّت زہد کا باعث ہوجاتی ہے اور اس کو راجین کا زہد کہتے ہیں یہ پہلے درجے والے سے بڑھاہواہے۔ (3)یہ سب سے اعلیٰ ہے مَاسِوَی اللہ کی جانب سے بے تَوجُّہی اور نفس کا اللہ کے علاوہ کوحقیرسمجھ کرچھوڑدینا زہد کا باعث ہو اس کو حقیقی زُہد کہتےہیں۔ (خطباتِ امام غزالی، ص191)(الاربعین فی اصول الدین، ص209)

زُہْد سےاَفضل حالت

زُہْد سے بھی افضل حالت یہ ہے کہ بندے کے نزدیک مال کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہو۔ مال ملنے پر نہ تو خوش ہو اور نہ ہی تکلیف محسوس کرے جبکہ نہ ملنے پر بھی یہی حالت ہو بلکہ اس کی حالت ایسی ہوجائے جیسی اُمُّ المؤمنین حضرتِ بی بی عائشہ صِدِّیقہ طَیِّبَہ طاہِرہ رضی اللہ عنہا کی تھی کہ کسی نے آپ کی خدمت میں ایک لاکھ دِرْہم کا عَطِیَّہ نَذر کیا تو آپ نے قُبُول فرما لیا اور اُسی دن تقسیم فرمادیا۔خادِمہ نے عرض کی:آپ نے آج جو مال تقسیم فرمایا اگراس میں سے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو ہم اس سے روزہ افطار کرتے۔ فرمایا:اگر تم یاد دلادیتیں تو میں ایسا ہی کرتی۔(احیاء العلوم، 4/235) جس شخص کی کَیْفِیَّت ایسی ہواگرپوری دنیابھی اس کے قبضے میں ہو تو اسے کوئی نقصان نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ مال کو اپنے قبضے میں نہیں بلکہ اللہ پاک کے خزانے میں سمجھتا ہے اور اس کے نزدیک اس بات میں کوئی فَرق نہیں ہوتا کہ مال اس کے قبضے میں ہے یا کسی اور کے، ایسی حالت والے شخص کانام’’مُسْتَغْنِی‘‘رکھنا چاہیےکیونکہ وہ مال کے ہونے نہ ہونے دونوں سے بے پروا ہے۔(احیاء العلوم، 4/235)

زُہْد کا کمال دَرَجہ

مال کے مُعامَلے میں زُہْد کا کمال دَرَجہ یہ ہے کہ بندے کے نزدیک مال اور پانی برابر ہوں، ظاہر ہے کہ کثیر پانی کا انسان کے قریب ہونا اسے نقصان نہیں دیتاجیسا کہ ساحِلِ سمندر پر رہنے والاشخص اورنہ ہی پانی کا کم ہونا ضرر دیتا ہے جبکہ بقدرِ ضرورت پانی دستیاب ہو۔ پانی ایک ایسی چیز ہے جس کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے،انسان کا دل نہ تو کثیر پانی سے نفرت کرتا ہے اور نہ ہی راہِ فِرار اختیار کرتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں اس سے اپنی حاجت کے مطابق پیوں گا، اللہ پاک کے بندوں کو پلاؤں گا اور اس میں بُخْل نہیں کروں گا۔ انسان کے نزدیک مال کی حالت بھی یہی ہونی چاہئےکہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اسے کوئی فَرق نہ پڑے ۔ جب بندے کو اللہ پاک کی مَعْرِفَت حاصل ہوجائےاور توکُّل کی دولت نصیب ہو جائےتو پھر اسے اس بات پر کامِل یقین ہوجاتا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہے اسے بقدرِ ضرورت روزی ملتی رہے گی جیسا کہ پانی ملتا ہے۔(احیاء العلوم، 4/237) نہ مجھ کو آزما دنیا کا مال و زَرْ عطا کر کے عطا کر اپنا غم اور چشمِ گِریاں یا رسولَ اللہ (وسائلِ بخشش، ص 340)

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن