30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کرے اور خوب سوچ بچار کرےتو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے معاملے میں ایسا فیصلہ فرمائے گا جو اسے پسند ہوگا۔
ایک قول کے مطابق غور و تفکر کے بعد مشورہ دینے والا بلاسوچے سمجھے رائے دینے والے سے بہتر ہے اور مشورہ لینے میں اسے مُقدّم کرنا مُؤَخَّر کرنے سے اچھا ہے۔
کن لوگوں سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے؟
حضرت سیِّدُنااَحنف بن قسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنےارشادفرمایا: بھوکےشخص سےمشورہ نہ کرویہاں تک کہ پیٹ بھرکر کھالے، یونہی پیاسے سے سیرابی تک، قیدی سے آزاد ہونے تک جبکہ تنگدست سے اس کی تنگدستی دور ہونے تک مشورہ نہ کرو۔
عقلمند لوگوں کا قول ہے کہ ان افراد سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے: بچوں کو پڑھانے والا، چرواہا، عورتوں کی صحبت میں زیادہ رہنے والا، حاجت مند شخص جو اپنی حاجت پوری کرنے کی کوشش میں ہو، خوف کا شکار اور جسے پیشاب پاخانے کی حاجت ہو۔
ایک قول یہ ہے کہ سات قسم کے لوگوں سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے: جاہل، دشمن، حاسد، ریاکار، بزدل، کنجوس اور خواہش کی پیروی کرنے والا۔جاہل تو خود گمراہ ہوتا ہے، دشمن تمہاری ہلاکت چاہتا ہے، حاسد تمہاری نعمتوں کے زوال کا خواہش مند ہوتا ہے، ریاکار لوگوں کی مرضی پر چلتا ہے، بزدل ہر مشکل مقام سے بھاگنے کا مشورہ دیتا ہے ، کنجوس جمْعِ مال کا حریص ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی، خواہِشِ نفس کی پیروی کرنے والا خواہشات کا اسیر ہوتا ہے اور خواہش کی مخالفت کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
اچھے مشورے کی بدولت مالا مال ہوگیا:
مدینہ منورہ کا رہائشی ایک شخص جو اسلمی کے نام سے مشہور تھا اس کا بیان ہے کہ مجھ پر لوگوں کا کافی قرض چڑھ گیا تھا اور قرض خواہ مجھ سے اپنی رقم کا مطالبہ کررہے تھا جبکہ میرے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔ان حالات میں زمین مجھ پرتنگ ہوچکی تھی اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں ۔جب میں نے اس بارے میں اپنے قابل اعتماد دوست سے مشاورت کی تو اس نے مجھے حاکم مُہَلَّب بن ابو صُفْرَہ کے پاس عراق جانے کا مشورہ دیالیکن میں نے طویل مسافت، سفر کی مشقت اور مُہَلَّب کے تکبر کا عذر پیش کیا۔پھر میں نے ایک اور شخص سے مشورہ کیا تو اس نے بھی وہی کہا جوکہ پہلےدوست نےکہاتھا۔چنانچہ میں نےاس مشورےپرعمل کا فیصلہ کیا، اپنی اونٹنی پر سوار ہوا اورایک قافلے کے ساتھ عراق جاپہنچا۔
وہاں جاکر میں مہلب کے پاس گیا اور سلام کے بعد اس سے کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ امیر کا بھلا کرے!میں صحراؤں کو عبور کرکے اور طویل سفر کرکے مدینہ منورہ سے آپ کے پاس آیا ہوں کیونکہ مجھے اچھی رائے کے حامل لوگوں نے اپنی حاجت کی تکمیل کے لئے آپ کے پاس آنے کا مشورہ دیا تھا۔مہلب نے پوچھا: کیا تم کسی کی سفارش لائے ہو یاپھر ہمارے درمیان کوئی رشتہ یا قرابت ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ میری ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ اگر آپ ایسا کردیں تو مجھے آپ سے یہی امید ہے اور اگر کوئی رُکاوٹ ایسا کرنے سے مانع ہو تو میں آج کے دن آپ کی مذمت نہیں کروں گا اور نہ ہی مستقبل میں تکمیلِ حاجت سے مایوس ہوں گا۔
مہلب نے اپنے دربان سے کہا: اسے ساتھ لے کر جاؤ اور اس وقت ہمارے خزانے میں جو کچھ موجود ہے وہ اسے دے دو۔دربان مجھے ساتھ لے کر گیا تو خزانے میں اسّی ہزار درہم موجود تھے جو اس نے میرے حوالے کردیئے۔یہ دیکھ کر خوشی و مسرت کے باعث میں اپنے آپ پر قابو نہ پاسکا، اس کے بعد دربان مجھے دوبارہ مہلب کے پاس لایا تو اس نے پوچھا: کیا تمہیں جو مال ملا وہ تمہاری حاجت پوری کرنے کے لئے کافی ہے؟ میں نے کہا: اے امیر!یہ تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ مہلب نے کہا: تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے ہیں کہ تمہاری کوشش کامیاب ہوئی، تم نے اپنے مشورے کا پھل پالیا اور تمہیں میرے پاس آنے کا مشورہ دینے والے کا خیال درست ثابت ہوا۔ اس کے بعد میں مدینہ منورہ واپس آگیا، اپنا قرض ادا کیا، اہل خانہ پر وسعت کی، مشورہ دینے والوں کو بھی انعام دیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے عہد کیا کہ جب تک زندہ رہوں گا اپنے تمام کاموں میں مشورہ کرتا رہوں گا۔
منقول ہے کہ خلیفہ منصور کے چچا عبداللہ بن علی سے چند ایسی باتیں صادر ہوئیں جن سے درگزر کرنا ملکی سیاست کے اعتبار سے ممکن نہ تھا چنانچہ خلیفہ نے اسے قید کروا دیا، پھر اسے اپنے چچا زاد اور کوفہ کے گورنر عیسٰی بن موسٰی کے بارے میں چند ایسی باتیں معلوم ہوئیں جس نے اسے عیسٰی بن موسٰی سے بدظن کردیا اور اسے اس سے خوف محسوس ہونے لگا۔غور و تفکر کے بعد خلیفہ نے اس مسئلے کا ایک حل سوچا جسے اس نے اپنے تمام درباریوں اور وزیروں سے بھی پوشیدہ رکھا۔خلیفہ نے عیسٰی بن موسٰی کو اپنے پاس بلایا اور معمول کے مطابق اس کےساتھ عزت و اکرام سے پیش آیا، پھر تمام درباریوں کو باہر بھیج کر اس سے کہا: اے میرے چچازاد!میں تمہیں ایک ایسے معاملے سے آگاہ کرنے لگا ہوں جس کا اہل اور اس کا بوجھ اٹھانے میں اپنا مددگار تمہارے علاوہ کسی کو نہیں پاتا۔کیا تم اس معاملے میں میرے اعتماد پر پورے اُترو گے اور ایسا کام کرو گے جس سے تمہاری نعمتیں بھی برقرار رہیں اور میری بادشاہت بھی سلامت رہے۔عیسٰی بن موسٰی نے جواب دیا: میں امیرالمؤمنین کا غلام ہوں اور میری جان آپ کے احکام کی پابند ہے۔خلیفہ نے کہا: میرے اور تمہارے چچا عبداللہ نے کچھ ایسے کاموں کا ارتکاب کیا ہے جو اس کے خون کو حلال کرتے ہیں اور اسے قتل کرنے میں ہی مملکت کی بھلائی ہے اس لئے تم انہیں اپنے یہاں لے جاکر پوشیدہ طور پر قتل کردو۔پھر خلیفہ نے عبداللہ کو عیسٰی بن موسٰی کے حوالے کیا اور خود حج کے ارادے سے روانہ ہوگیا۔اس کا ارادہ یہ تھا کہ جب عیسٰی بن موسٰی اس کے چچاعبداللہ کو قتل کردے گا تو وہ اس پر قصاص لازم کرےگا اور اسے عبداللہ کے بھائیوں یعنی اپنے چچاؤں کے حوالے کردے گا تو وہ قصاص میں اسے قتل کردیں اور یوں اسے عبداللہ اور عیسٰی بن موسٰی دونوں سے چھٹکارا مل جائے۔
عیسٰی بن موسٰی کا بیان ہے کہ اپنے چچا کو تحویل میں لینے کے بعد جب میں نے اس کے قتل کے بارے میں غور کیا تو مجھے مناسب لگا کہ کسی صاحبِ رائے شخص سے اس بارے میں مشورہ کرلوں تاکہ درست فیصلے تک پہنچ سکوں ۔میں یونس بن قرہ کاتب کے پاس گیا جس کے بارے میں میرا اچھا گمان تھا اور اس سے کہا: امیرالمؤمنین نے اپنے چچا عبداللہ کو میرے حوالے کیا ہے اور مجھے اس کو قتل کرنے اور اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔آپ اس بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں ؟ یونس نے مجھ سے کہا: اے امیر! آپ اپنے اور امیرالمؤمنین کے چچا کی حفاظت کرکے اپنی حفاظت فرمائیے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ انہیں اپنے گھر کے کسی کمرے میں چھپا دیں اوران کے معاملے کو اپنے تمام مصاحبین سے بھی پوشیدہ رکھیں ، ان کا کھانا پانی بھی خود ان تک پہنچائیں ، ان کے کمرے کو مقفل رکھیں اور امیرالمؤمنین کے سامنے یہ ظاہر کریں کہ آپ نے انہیں قتل کرکے حکم کی تعمیل کردی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ جب امیرالمؤمنین کو اطمینان ہوجائے گا کہ آپ نے ان کے چچا کو قتل کردیا ہے تو وہ سب کے سامنے آپ کو ان کے چچا کو پیش کرنے کا حکم دیں گے۔ جب آپ اعتراف کرلیں گے کہ آپ نے ان کے حکم پر عبداللہ کو قتل کردیا ہے تو وہ اس بات کا حکم دینے کا انکار کرکے اپنے چچا کے قتل کے الزام میں آپ کو گرفتار کرکے قتل کروادیں گے۔
عیسٰی بن موسٰی کا بیان ہے کہ میں نے اس مشورے کو قبول کرکے اس پر عمل کیا اور امیرالمؤمنین کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کردی ہے۔خلیفہ منصور جب حج کرکے واپس آیا اور اسے یقین ہوگیا کہ میں نے اس کے چچا عبداللہ کو قتل کردیا ہےتو اس نے اپنے منصوبے کے مطابق اپنے چچاؤں یعنی عبداللہ کے بھائیوں کو اس بات پر اُبھارا کہ وہ اس کے دربار میں آکر اپنے بھائی کے بارے میں پوچھیں اور
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع