30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
کنیت سے نہیں پکارا۔میں نے اس گھر میں ایسی چیزیں دیکھیں جو میں نے صرف خلیفہ کے محل میں دیکھی تھیں ۔ کچھ دیر کے بعد کھانا حاضر کیا گیا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !میں نے حسنِ ترتیب، اچھی خوشبو اور برتنوں کی کثرت کے اعتبار سے ایسا کھانا کبھی نہیں دیکھاتھا۔اس شخص نے مجھے دعوت دیتے ہوئے کہا: اے منارہ! آؤ، کھانا کھاؤ۔میں نے جواب دیا کہ مجھے حاجت نہیں ہے، اس کے بعد اس نے دوبارہ دعوت نہیں دی۔اب میں نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں تھا، میں اپنے ساتھیوں کی غیر موجودگی اور اس کے اہْلِ خانہ کی کثرت کے سبب خوف زدہ ہوگیا۔کھانے کے بعد جب اس نے ہاتھ دھولیے تو اس کے پاس لوبان لایا گیا جس سے اس نے دھونی لی۔
اس کے بعد وہ نمازِ ظہر پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا اور خوب اچھی طرح رکوع وسجود کی ادائیگی کے ساتھ نماز ادا کی، نمازِ ظہر کے بعد اس نے کثیر نوافل پڑھے اور پھر میری طرف متوجہ ہوا اور کہا: اے منارہ!تم کس مقصد کے لئے آئے ہو؟ میں نے اسے امیرالمؤمنین کا خط دیا جسے اس نے چوم کر سر پر رکھا، پھر اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا، خط پڑھنے کے بعد اس نے اپنے تمام بیٹوں ، خاص دوستوں ، ملازمین اور دیگر تمام گھر والوں کو بلایا اور جب یہ سب لوگ جمع ہوئے تو اس کا وسیع وعریض گھر بھی تنگ محسوس ہونے لگا۔یہ معاملہ دیکھ کر میں خوف زدہ ہوگیا اور مجھے اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ وہ مجھے گرفتار کرنا چاہتا ہے۔سب کے جمع ہونے پر اس شخص نے کہا: جب تک یہ معاملہ انجام کو نہ پہنچ جائے تم میں سے کوئی دو شخص ایک جگہ جمع نہ ہوں گے ورنہ اس پر طلاق، حج، غلام آزاد کرنا اور صدقہ وغیرہ لازم ہوں گے، پھر اس نے گھر کی خواتین کے حوالے سے کچھ ضروری ہدایات دیں ، اس کے بعد وہ میرے پاس آیا اور اپنے پاؤں میری طرف بڑھاکر کہا: اے منارہ!اپنی بیڑیاں لاؤ۔میں نے بیڑیاں منگوا کر اسے پہنائیں ، اسے اٹھا کر پالکی میں بٹھایا گیا ، میں بھی اس کے ساتھ سوار ہوا اور ہم نے سفر کاآغاز کردیا۔
جب ہم دمشق کے بیرونی حصے میں پہنچے تو وہ بے تکلفی کے ساتھ مجھ سے گفتگو کرنے لگا اور کہنے لگا: یہ زمینیں میری ہیں ، ان سے ہر سال اتنی اتنی کمائی ہوتی ہے۔یہ باغات بھی میرے ہیں ، ان میں انتہائی عمدہ درخت اور بہترین پھل لگتے ہیں اور یہ کھیت بھی میرے ہیں جن میں ہر سال اتنی فصلیں ہوتی ہیں ۔اس کی یہ باتیں سن کر میں نے اس سے کہا: اے شخص!کیا تم نہیں جانتے کہ تمہاری شان وشوکت نے امیرالمؤمنین کو اتنا پریشان کیاکہ انہوں نے تمہیں لانے کے لئے مجھے بھیجا ہے جبکہ وہ خود کوفہ میں تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ تم ان کے پاس جارہے ہو اور نہیں جانتے کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔میں نے تمہیں تمہارے گھر بار، اہل وعیال اور آسائشوں سے جدا کرکے تنہا کردیا ہے اور تم مجھ سے ایسی گفتگو کررہے ہو جو غیر مفید ہے، نہ تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی میں نے تم سے اس کے بارے میں پوچھا ہے، تمہارے لئے بہتر تو یہ ہے کہ تم اپنے بارے میں فکر کرو۔میری یہ گفتگو سن کر اس نےاِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھا اور کہا: اے منارہ!تمہارے بارے میں میرا اندازہ غلط ثابت ہوا، میں تو یہ سمجھا تھا کہ تم اپنی عقل ودانائی کے سبب خلیفہ کے قریب ہوگے لیکن تم تو ایک جاہل اور عام سے شخص ہو جو اس قابل بھی نہیں کہ کوئی خلیفہ اس سے بات کرے۔ مجھے اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروساہے جس کے دستِ قدرت میں میری اور امیرالمؤمنین کی پیشانی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مرضی کے بغیرخلیفہ مجھے کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اگر میرے خلاف کوئی فیصلہ فرمادیا ہے تو میں کسی بھی حیلے سے اس نقصان سے نہیں بچ سکتا اور نہ ہی مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ اسے روک سکوں اور اگر اس نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو پھر اگرچہ امیرالمؤمنین اور زمین پر بسنے والے سارے انسان مجھے نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوجائیں لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اِذن کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتے۔میں نے ایسا کوئی کام بھی نہیں کیا جس کے سبب میں خوف زدہ ہوجاؤں ، معاملہ صرف اتنا ہے کہ کسی چغل خور نے امیرالمؤمنین کے پاس مجھ پر بہتان طرازی کی ہے لیکن وہ کامل عقل والے ہیں ، جب وہ میری بے گناہی پر مطلع ہوجائیں گے تو ہرگز مجھے تکلیف دینے کی اجازت نہ دیں گے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!اب میں تمہارے سوالوں کے جواب کے علاوہ تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔
اس کے بعد اس شخص نے مجھ سے منہ پھیر لیا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوگیا اور اس کا یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم تیرہویں دن کی صبح کوفہ پہنچ گئے۔کوفہ میں امیرالمؤمنین کی طرف سےخاص نمائندوں نے ہمارا استقبا ل کیا اور ہمارا حال پوچھا۔اس کے بعد جب میں امیرالمؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کہا: آؤ، اے منارہ!ہمارے پاس سے روانگی کے دن سے لے کر آج تک کے تمام حالات کی خبر دو۔میں نے تفصیل کے ساتھ امیرالمؤمنین کو تمام حالات بتانے شروع کئے اور اس کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوئے، جب میں اس مقام تک پہنچا جب اس شخص نے اپنی اولاد، غلاموں اور خاص افراد کو جمع کیا، ان سب کے جمع ہونے سے اس کا گھر تنگ پڑگیا جبکہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی میرے ساتھ موجود نہ تھا تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، جب میں نے ذکر کیا کہ اس نے ان تمام افراد کو جمع کرکے انہیں کتنی سخت قسم دی تو ان کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے ، پھر جب میں نے بتایا کہ اس شخص نے بیڑیاں پہنانے کے لئے اپنے پاؤں آگے بڑھادیے تو ان کا چہرہ روشن ہوگیا اور اس پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔ جب میں نے امیرالمؤمنین کو اس گفتگو کی خبر دی جو میرے اور اس شخص کے درمیان اس کی زمینوں اورباغات کے بارے میں ہوئی تھی تو انہوں نے کہا: یہ ایک ایسا شخص ہے جس کی نعمتوں کے سبب لوگ اس سے حسد کرتے ہیں اور اس کے بارے میں ہمیں جھوٹی خبر دی گئی ہے۔ہم نے اسے پریشان اور خوفزدہ کردیا ہے، اسے اور اس کے اہْلِ خانہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، اس کے پاس جاکر اس کی بیڑیاں کھول کر اسے آزاد کردو اور عزت و احترام کے ساتھ اسے میرے پاس لے آؤ۔میں نے ایسا ہی کیا، جب وہ شخص حاضر ہوا تو امیرالمؤمنین نے اسے خوش آمدید کہا ، اسے بٹھایا، معذرت کی اور اس سے اچھی طرح بات چیت کی۔امیرالمؤمنین نے اس سے کہا: اگر تمہیں کوئی ضرورت ہےتو مانگ لو۔اس نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ میں جلد اپنے شہر واپس پہنچوں اور اپنے اہل وعیال سے ملوں ۔مامون الرشید نے کہا: یہ تو ہونا ہی ہے ، اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لو۔اس نے کہا: اپنی رعایا کے بارے میں امیرالمؤمنین کے عدل کے سبب مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔امیرالمؤمنین نے اسےعمدہ لباس پہنایا اور مجھ سے کہا: اے منارہ! اسی وقت اس شخص کے ساتھ روانہ ہوجاؤ اور جہاں سے تم اسے لائے ہو اسی جگہ جاکر چھوڑو۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حفاظت اور رعایت میں سفر کرو اور اپنی خبر اور ضرورتیں ہم سے منقطع نہ کرنا۔
ذرا غور کرو کہ اس حکایت میں مذکور شخص نے کس طرح اپنے خالق و مالک پر توکل کیا، بے شک جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرتاہے تو وہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے ، جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے سوال کرتا ہے وہ اسے اس کی مطلوبہ چیز عطا فرماتا ہے۔
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے توریت شریف میں یہ کلمات ملاحظہ فرمائے تو انہیں تحریر فرمالیا: اے انسان!جب تک میری بادشاہت باقی ہے کسی بادشاہ سے خوفزدہ نہ ہونا اور میری بادشاہت کبھی ختم نہ ہوگی۔ اے انسان!جب تک میرے خزانے بھرے ہوئے ہیں رزق کی تنگی کا خوف نہ کرنا اور اور میرے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے۔اے انسان !میرے علاوہ کسی اور سے مانوس مت ہونا حالانکہ میں تمہارے لئے ہوں ، اگر تم مجھے طلب کرو گے پالو گے اور میرے علاوہ کسی اور سے مانوس ہوئےتو ہلاک ہوجائے گے اور تمام بھلائیوں سے محروم ہوجاؤگے۔
اے انسان!میں نے تجھے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے تو کھیل کود میں مت لگ جانا اور میں نے تمہارا رزق تقسیم کر دیا ہے اس لئے (اس کی تلاش میں ) مت تھکنا، اس سے زیادہ کی لالچ نہ کرنا اور نہ ہی اس سے کم ملنے کا خوف کرنا۔میں نے جو رزق تمہارا مقدر کردیا ہے اگر تم اس پر راضی رہے تو تمہارے دل اور بدن کو راحت حاصل ہوگی اور تم میرے نزدیک قابل تعریف ٹھہرو گے اور اگر تم اپنی قسمت پر راضی نہ رہے تو میری عزت و جلال کی قسم!میں تم پر دنیا کو اس طرح مُسَلّط کردوں گاکہ تم جانوروں کی طرح دوڑتے پھرو گے لیکن اپنی قسمت سے زیادہ نہ پاسکو گے اور میرے نزدیک قابلِ مذمت ٹھہروگے۔
اے انسان!میں نے ساتوں آسمان اور زمین بنائے اور ان کے بنانے میں نہ تھکاتو کیا تمہاری محنت کے بغیر تمہیں ایک روٹی پہنچانے میں تھک جاؤں گا۔اے انسان!میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ، تجھ پر میرا جو حق
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع