30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
مقابل آیا اس نے اُسے مار ڈلا (۳) … راکبُ الْبغلہ یعنی عباد بن حصین اس پر جو بھی مصیبت آئی وہ دور ہوگئی اور یہ اسلام کے شہسوار تھے۔
جنگوں میں مہلب جنگی چالوں کے حوالے سے بڑ امشہور تھا اوراس کے بڑے بڑے کارنامے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خوارج کو اس وقت شکست دی جب خوارج مسلمانوں پر غالب ہوچکے تھے۔ یہ بڑا عزت دار حکمران تھا اور بستر پر اس کا انتقال ہوااور اس کے بیٹے کا بھی یوں ہی انتقال ہوا۔خوارج ([1]) میں بھی مشہور شہسوار گزرے ہیں جن کے مقابلے میں لوگ ثابت قدم نہ رہ سکے اور ان کا ذکر بھی بڑا طویل ہے ہم ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں ۔
یہ 40 لوگوں کے ساتھ نکلا اور اس نےدو ہزارکے لشکر کو شکست دی۔
شبیب خارجی یہ وہ ہے جو دریائے فرات میں غرق ہوا تھا، اس کی بیوی غزالہ نے نذر مانی تھی کہ وہ کوفہ کی جامع مسجد میں دورکعت نماز پڑھے گی جس کی پہلی رکعت میں سورۃ البقرہ اور دوسری میں اٰل عمران پڑھے گی۔ اس نےاپنی بیوی کے ساتھ دریائے فرات کا پل پار کیا اوراسے جامع مسجد میں داخل کردیا اور خود مسجد کے دروازے پر اس کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوگیا حتّٰی کہ اس نے اپنی منت پوری کرلی۔ حجاج اس وقت کوفہ میں پانچ ہزار کے لشکر کے ساتھ موجود تھا۔
قَطَری بن فُجَاءہ یہ اپنے زمانے میں خارجیوں کا سردار تھاجسے خارجی امیر المؤمنین کہتے تھے اور اس کی بڑی تعظیم و توقیر کرتے تھے۔ قطری کی شجاعت کے حوالے سے جو اشعار ہیں وہ اس کے بہادر ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور خارجیوں کی کسی لڑائی میں یہ قتل ہوا۔
تیسرا طبقہ (زمانَۂ صحابہ کےبعدکےبہادروں کاتذکرہ)
معن بن زائدہ شیبانی کو مہدی کے دور حکومت میں سجستان کے خوارج نے قتل کیا۔
ولید بن طریف شیبانی کو یزید بن مزید نے قتل کیا۔
عمرو بن حنیف مشہور شہسواروں میں سے ایک ہے۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ یہ شکار کے لئے نکلا اور ایک نیل گائے کے پیچھے اپنا گھوڑا دوڑایا اور اس کے برابر آکر نیل گائے پر کود گیا اور ہاتھ میں پکڑی تلوار یا چھری سے اس کی گردن کاٹ کر اسے مار ڈالا۔
ابودُلَف قاسم بن عیسٰی عجلی شہسوار، بہادر، شاعراور مختلف فنون کا جامع تھا۔یہ سواری پرموجوددو شہسواروں میں نیزہ گھونپ کر اسے ان کی پیٹھوں سے آرپار کردیتا اوراپنے نیزے پر یہ چار لوگوں کو اٹھا لیتا تھا۔
بکر بن نطاح بھی بہادر شہسوار تھا اور بے دھڑک حملہ کرنے والا تھا۔ اس کے اشعار مشہور ہیں اور اس کے قصے کتابوں میں مذکور ہیں۔
حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اَلْخَيْرُ فِي السَّيْفِ وَالْخَيْرُ مَعَ السَّيْفِ وَالْخَيْرُ بِالسَّيْفِیعنی تلوار میں بھلائی ہے، تلوار کے ساتھ بھلائی ہے اور تلوار کے سبب بھلائی ہے۔“ ([2])
حضرت سیِّدُناعَمْروبن مَعْدِیْکَرِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تلوارعرب کی تلواروں میں مشہور تھی ۔نہشل شاعر اس کےبارے میں کہتا ہے:
اَخٌ مَاجِدٌ مَا خَانَنِي يَوْمَ مَشْهَدٍ كَمَا سَيْفُ عَمْرٍو لَمْ تَخْنُهٗ مَضَارِبُہ
ترجمہ: میرے کریم بھائی نےجنگ کے دن مجھ سے خیانت نہیں کی جیساکہ عَمْروکی تلوارنے لڑائی میں اس سے خیانت نہیں کی۔
حضرت سیِّدُنا عَمْروبن مَعْدِیْکَرِبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنی یہ تلوارحضورنبی اکرم، نُورِمُجَسّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مقرر کردہ حاکمِ یمن حضرت سیِّدُنا خالد بن سعید بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو ہبہ کی پھر یہ تلوار اُن کے خاندان میں رہی حتّٰی کہ خالد بن عبداللہ قسری نے خطیر رقم دے کر ہشام بن عبد الملک کے کہنے پر وہ تلوار اُس کے لئے خرید لی۔پھر یہ تلوار بنو مروان کے پاس رہی پھر اسےعباسی خلیفہ سفاح نے اور سفاح کے بعد خلیفہ ابوجعفر منصور اور مہدی نے طلب کیا مگر انہیں نہیں ملی بعد میں خلیفہ ہادی نے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی اور وہ کامیاب ہوگیا۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی عطا کردہ تلوار:
حضرت سیِّدُناعروہ بن زبیررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنےبھائی حضرت سیِّدُناعبداللہبن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شہادت کے بعدعبدالملک بن مروان کے پاس حضرت سیِّدُنا زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تلوار کا مطالبہ کرنے گئے اور عبدالملک سے کہا: وہ تلوار مجھے لوٹا دو کیونکہ وہ تلوار حضور نبی پاکصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنگ حُنین میں میرے والد کو عطا فرمائی تھی۔ عبدالملک نے کہا: آپ اس تلوار کو پہچان لیں گے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں ۔ عبدالملک نے کہا: کس طرح پہچانو گے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جتنا تم اپنے باپ کی تلوار کی پہچان نہیں رکھتے اس سے زیادہ میں اس کی پہچان رکھتا ہوں ۔
کمزور دل اور بزدل لوگوں کا بیان
سرورِ انبیا، محبوب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بزدلی سے پناہ مانگتے ہوئے یوں دعا فرمائی: اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنْ غَلْبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ
[1] وہ گمراہ فرقہ جوجنگِ صفّین کےموقع پرامیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکااس وجہ سے مخالف ہوگیاتھاکہ انہوں نےحضرت سیِّدُناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسےجنگ بندی کےلئےثالثی قبول کرلی تھی۔خوارج کے نزدیک گناہِ کبیرہ کامرتکب کافرہے۔ (شرح العقائدالنسفیة،ص۲۵۳۔النبراس،ص۲۲۶)
[2] الازمنة والامکنة،الباب الثامن والخمسون،فی معرفة ایام العرب فی الجاھلیة،ص۵۱۵
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع