سیِّدُنا طیفور بن عیسٰی بِسطامی عَلَیْہِ الرَّحمَہ:
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Deen o Dunya Ki Anokhi Baatein (Jild 1) | دین و دنیا کی انوکھی باتیں (جلداول)

book_icon
دین و دنیا کی انوکھی باتیں (جلداول)

یہاں تک کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ آپ کے یہاں مجھ سے زیادہ خاص مرتبہ کسی کا نہیں ہے ، اپنے تمام ہم نشینوں کے ساتھ آپ کا یہی رویہ ہوتا تھا۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قیامت کے دن ان کے چہرے کو روشن فرمائے اور اپنے فضل وکرم سے انہیں ان کی منزل تک پہنچائے۔

          آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مالکی مذہب کے فقیہ اور بہت بڑے امام تھے، آپ کے زمانے میں آپ کی کوئی نظیر اور مثال نہیں تھی۔علمِ حقیقت سےمتعلق بھی آپ کے کئی اقوال ہیں ، ہم نے آپ کے متعددمکاشفات اور احوال کا مشاہدہ کیا ہے،  اگر میں آپ کے تمام فضائل ومناقب ذکر کرنا چاہوں تو اس  کتاب میں اس کی گنجائش نہیں ہے لیکن میں صرف اتنا  کہوں گا کہ آپ اپنے زمانے کی یگانہ شخصیت تھے۔ آپ پر سلامتی ہو۔

          آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے60سال سے کچھ زائد عمر پائی، آپ کے زمانے میں لوگ اچھے حال میں عمدہ زندگی گزارتے تھے۔آپ کو بہت سے امراض اور بیماریاں لاحق تھیں ،  حیاتِ ظاہری کے آخری دنوں میں آپ شدید کمزوری میں گرفتار ہوئے  جو تقریباً ایک سال تک رہی ، پھر ماہِ ذوالحجۃ الحرام کے پہلے عشرے میں مرض نے شدت اختیار کی، جب گیارہویں رات آئی تو بیماری کی شدت میں مزید اضافہ ہوا اور آپ قریب المرگ ہوگئے، اس رات  کے تہائی حصے تک حالتِ نزع طاری رہی اور پھر آپ نے شبِ جمعہ 11ذُوالْحِجَّۃِ الْحَرَام ۸۲۷ھ کو مبارک حالت میں انتقال فرمایا۔

          جب لوگوں کو آپ کے انتقال کی خبر پہنچی تو یہ مصیبت ان پر بہت گراں گزری اور تمام شہروں یہاں تک کہ دشمنانِ اسلام عیسائیوں وغیرہ کے یہاں بھی رونے دھونے اور افسوس کا سلسلہ ہوا ، لوگ آپ کے فراق پر روتے اور افسوس کا اظہار کرتے تھے، بھلا ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ اپنے زمانے کے امام اور بہت بڑے عالِم تھے۔شاعر کا یہ قول آپ پر صادق آتا ہے:

حَلَفَ الزَّمَانُ لَیَاْتِیَنَّ بِمِثْلِہٖ                                                                                                 حَنَثَتْ یَمِیْنُکَ یَا زَمَانُ فَکَفِّر

          ترجمہ: زمانے نے قسم کھائی کہ وہ ان کی مثل ضرور لائے گا۔اے زمانے!تیری قسم ٹوٹ چکی ہے، اس کا کفارہ ادا کر۔

          اللہ عَزَّ  وَجَلَّان پر رحمت ورضوان کی بارش برسائے اور ہمیں دین اور دنیا وآخرت میں ان کی برکات سے مالا مال فرمائے۔

          اب لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے غسل وکفن کے معاملات میں مشغول ہوئے، میں بھی غسل دینے والوں میں شامل تھا لیکن آپ کے انتقال کی پریشانی کے باعث میرا دماغ میرے ساتھ نہیں تھا، بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ میرے لئے شفیق والد ، نیکوکار محسن اور میرے محبوب  تھے۔جب غسل کا مرحلہ مکمل ہوا تو بڑے بڑے قاضی،  وزیرمشیر اور حاکم آئے اور آپ کے مبارک جنازے کو اپنے کندھوں پر اُٹھاکر جامع مسجد کی طرف جانے لگے۔ لوگوں کی کثیر تعداد کے باعث گلیاں اور راستے تنگ پڑگئے اور جامع مسجد اپنی وسعت کے باوجود چھوٹی پڑگئی۔اس  دن سے زیادہ  نہ تو کسی جنازے میں شرکا کی کثرت نظر آئی اور نہ ہی لوگوں کو کسی کے لئے اتنا زیادہ روتا ہوا دیکھا گیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے زمانے کے قطب تھے۔

          حضرت سیِّدُنا امام احمدبن حنبلرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا: ہمارے اور ان کے  (یعنی بادشاہوں ،  مالداروں کے)  درمیان جنازے کا فرق ہے ۔اس سے آپ کی مراد لوگوں کا جمع ہونا ہے (کہ بادشاہوں اور دنیا داروں کے جنازے میں اتنے لوگ جمع نہیں ہوتے جتنے اللہ والوں کے لئے  جمع ہوتے ہیں ) ۔

          جامع مسجد پہنچ کر آپ کے مبارک جنازے کو کندھوں سے نیچے رکھا گیا اور آپ کے شیخ، عارف باللہ حضرت سیِّدُنا سلیمان دواخلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے آگے بڑھ کر نمازِ جنازہ پڑھائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سَنْدَفا کے مقام پر جو خانقاہ تعمیرکروائی تھی اس میں جمعۃ المبارک کے دن آپ کو آپ کے والدِ ماجد مفتیٔ مسلمین سراج الدین حضرت علامہ امام ابوحفص عمر طرینی مالکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے پہلو میں  دفنایا گیا۔

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّہمیں ان کی برکات سے نفع پہنچائے، جنت کو ان کا ٹھکانابنائے، ہمارا اور ان کا حشر اگلوں اور پچھلوں کے سردار،  سِلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے اور سب مسلمانوں سے افضل حضرت محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گروہ میں فرمائے۔ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے اپنے لئے توفیق وامداد کا سوال کرتے ہیں اور یہ التجاکرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے بھائی حضرت سیِّدُنا شیخ شمس الدین محمد طرینی کی طویل عمر سے فائدہ پہنچائے۔

٭…٭…٭…٭…٭…٭

باب نمبر31:                                                     فضائلِ صالحین اورکراماتِ اولیا

          اس بات كو جان لو کہ اوليائے کرام کی کرامتوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور ان کے فضائل ومناقب اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا۔ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دعا کرتے ہیں کہ روزِ قیامت ہمارا حشر رحمتِ عالَم،  نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گروہ میں ان اولیائے کرام کے ساتھ فرمائے، بے شک وہ اس بات پر قادر ہےاوروہی دعاؤں کو قبول کرنے والا  ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مجھے کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔

گُدڑی کا لعل:

          حضرت سیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار کا بیان ہے: ایک دفعہ کافی عرصے تک بصرہ میں بارش نہ ہوئی، ہم لوگ کئی مرتبہ بارش کی دعا کرنے کے لئے نکلے لیکن بارش کے آثار ظاہر نہ ہوئے۔پھر میں ،  حضرت عطاء سُلمی، حضرت ثابت بنانی، حضرت یحییٰ بکاء، حضرت محمد بن واسع، حضرت ابومحمد سختیانی، حضرت حبیب فارسی، حضرت حسان بن ثابت بن ابی سنان، حضرت عتبہ غلام اورحضرت صالح مُزنیرَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی بارش کی دعا کرنے نکلے ،  جب ہم بصرہ کی عید گاہ میں پہنچے تو مدرسے کے بچے بھی ہمارے ساتھ دعا میں شرکت کے لئے آگئے ۔ ہم سب نے نمازِ استسقاء ادا کرکے دعا مانگی لیکن قبولیتِ دعا کے اثرات ظاہر نہ ہوئے یہاں کہ نصف النہار کا وقت ہوگیا،  لوگ واپس چلے گئے،  صرف میں اور حضرت سیِّدُنا ثابت بنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی عید گاہ میں باقی رہ گئے۔ جب رات کا وقت ہوا تو میں نے ایک پتلی پنڈلیوں والے خوبروسیاہ فام غلام کو دیکھا جس نے اونی جبہ پہن رکھا تھا، میں نے اندازہ لگایا تو  اس کا لباس دو درہم کا تھا۔وہ پانی لے کر آیا ، وضو کیا،  محراب کے پاس آکر مختصردو رکعتیں ادا کیں ، پھرآسمان کی طرف نظر اٹھائی اور بارگاہِ خداوندی میں عرض گزار ہوا: اے میرے معبود!اے میرے آقا ومولیٰ!جس میں تیرا کوئی نقصان نہیں اُس معاملے میں تو کب تک اپنے بندوں کو خالی لوٹاتا رہے گا؟ کیا تیرے پاس  نعمتیں ختم ہوگئیں یا تیرے خزانے خالی ہوگئے ؟ میں تجھے اُس محبت کی قسم دیتا ہوں جو تو مجھ سے فرماتا ہے !ابھی ہم پر بارش برسا۔

          حضرت سیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں : ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور ایسی بارش شروع ہوگئی جیسےمَشکوں کا منہ کھل گیا ہو۔میں اس غلام کے سامنے گیا اور اس سے کہا: اے سیاہ فام شخص!کیا تمہیں ایسی بات کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ اس نے پوچھا: میں نے کیا کہا ہے؟ میں نے کہا: تم کہہ رہے تھے کہ اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ!تجھے مجھ سے جو محبت ہے اس کے طفیل بارش نازل فرما،  تمہیں کیا پتا کہ وہ تم سے محبت فرماتا ہے؟ یہ سن کر اس نے کہا: اے وہ شخص جو اپنے نفس  کی وجہ سے غفلت کا شکار ہے!مجھ سے الگ ہوجاؤ، كيا تم ديكھتے نہیں کہ اس نے صرف مجھ سے اپنی محبت کے باعث یہ معاملہ ظاہر فرمایا ہے۔ اس کی مجھ سے محبت میری قدر ومنزلت کے مطابق جبکہ میری اُس سے محبت اس کی قدر ومنزلت کے مطابق ہے ۔میں نے اس سے کہا:  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے!کچھ دیر ٹھہر جائیے۔اس نے جواب دیا: میں ایک غلام ہوں اور مجھ پر میرے مجازی مالک کی اطاعت فرض ہے۔اس کے بعد وہ واپس چلا گیا اور ہم دور سے اس کا پیچھا کرتے رہے  یہاں تک کہ وہ ایک غلام بیچنے والے کے گھر میں داخل  ہوگیا۔

            صبح ہوئی تو ہم اس غلام فروش کے پاس گئے اور اس سے کہا:  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تم پر رحم فرمائے!کیا تمہارے پاس کوئی ایسا غلام ہے جسےہماری خدمت کےلئے ہمیں بیچ دو۔اس نے جواب دیا: جی ہاں !میرے پاس بیچنے کےلئے100غلام ہیں ۔ اس کے بعد اس نے ایک ایک  کرکےمختلف غلاموں کو ہمارے سامنے پیش کرنا شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں 70غلام دکھادیئے لیکن ہمارا مطلوب ان میں شامل نہیں تھا۔اس نے کہا: تم لوگ

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن