30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےاستفسارفرمایا: اےزبیر!کیاہوا؟ عرض گزارہوئے: میں نےیہ سناتھاکہ آپ کوشہیدکردیاگیاہے۔استفسارفرمایا: اس صورت میں تمہارا کیاکرنےکاارادہ تھا؟ عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم!میرایہ ارادہ تھا کہ اہْلِ مکہ سے قتال کروں ۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے عرض کی: میرا ارادہ تھا کہ جس پر قدرت پاؤں اس کی گردن اڑادوں ۔یہ سن کر تاجدارِ رِسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں سینے سے لگالیا، پھر انہیں اپنا مبارک تہبند عنایت فرمایا جسے انہوں نے پہن لیا۔پھران سےارشادفرمایا: تم میرےحواری (خاص صحابی) ہو ، اور ان کے لئے دعا فرمائی۔ ([1])
حضرت سیِّدُنا امام اوزاعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بیان ہے کہ حضرت سیِّدُنا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ایک ہزار غلام تھے جو جزیہ (اپنی آمدنی کا مخصوص حصہ) ادا کیا کرتے تھے لیکن اس میں سے ایک درہم بھی آپ کےخزانے میں نہیں جاتا تھا بلکہ آپ وہ ساری رقم صدقہ فرمادیا کرتے تھے۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنا ایک گھر چھ لاکھ درہم میں فروخت فرمایا تو آپ سے عرض کی گی: اے ابو عبْدُاللہ!آپ کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ارشاد فرمایا: ہر گز نہیں ، خدا کی قسم مجھے دھوکانہیں دیا گیا، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ساری رقم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں خیرات ہے۔
غزوۂ اُحدکےدن حضرت سیِّدُناطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکواپنی پیٹھ پراٹھاکرایک چٹان تک پہنچایاتھا، اس دوران حضرت سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَامنےبارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکرعرض کی: یہ کون ہیں جنہوں نےآپ کواپنی پیٹھ پر اٹھارکھاہے؟ شہنشاہِ نَبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشاد فرمایا: یہ طلحہ ہیں ۔حضرت سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام عرض گزار ہوئے: انہیں میرا سلام پہنچادیں اور یہ بتادیں کہ قیامت کےدن میں انہیں جس بھی مصیبت میں گرفتاردیکھوں گااُس سےانہیں بچالوں گا۔پھرعرض کی: یہ آپ کے دائیں جانب کون ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: یہ مِقْدادبن اَسْوَد ہیں ۔عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان سے محبت فرماتاہےاورآپ کوحکم ارشادفرماتا ہےکہ آپ بھی ان سے محبت فرمائیں ۔پھرعرض کی: یہ آپ کےآگےکون ہیں جوآپ کا دفاع کر رہے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: یہ عمار بن یاسرہیں ۔حضرت سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَامعرض گزار ہوئے: انہیں جنت کی خوش خبری سنادیں اوربتادیں کہ جہنم ان پر حرام کردی گئی ہے۔ ([2])
زمین سے زیادہ آسمانوں میں شہرت:
حضرت سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام حضرت سیِّدُنا دِحْیَہ کَلْبیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی صورت میں سیِّدعالَم، نُورِمُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ ایک جگہ موجود تھے کہ حضرت سیِّدُناابوذرغفاریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ وہاں سے گزرے لیکن سلام نہ کیا۔حضرت سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے: یہ ابوذر ہیں ، اگر یہ سلام کرتے تو ہم ضرور اس کا جواب دیتے۔آپ نےاستفسار فرمایا: اے جبریل!کیا تم انہیں جانتے ہو؟ عرض کی: اس ذاتِ مقدسہ کی قسم جس نےآپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کربھیجا!یہ زمین سےزیادہ ساتوں آسمانوں میں مشہور ہیں ۔ پوچھا: کس عمل کے سبب انہوں نےاس مرتبےکوپایا؟ عرض کی: اس فانی دنیا سے بے رغبتی کے باعث یہ اس مقام پر فائز ہوئے ہیں ۔
حضرت سیِّدُناابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا بیان ہے کہ میں نے سَیِّدِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ارشاد فرماتے سنا: بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ نیک مسلمان کی برکت سے اس کے پڑوس کے ایک ہزار گھروں سے مصیبت وپریشانی کو دور فرماتا ہے، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس آیتِ مقدسہ کی تلاوت فرمائی:
وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ (۲۵۱) (پ۲، البقرة: ۲۵۱)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے۔ ([3])
سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ الرَّحمَہ:
ابوبکر سفاح نے حضرت سیِّدُنا ابوبکر ہذلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی سے پوچھا: حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کون سے عمل کے سبب اس مقام ومرتبے تک پہنچے؟ حضرت سیِّدُنا ابوبکر ہذلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی نے جواب دیا: آپ نے بارہ سال کی عمر میں قرآنِ پاک کو اس شان سے حفظ فرما لیا کہ جب تک ایک سورت کی تفسیر نہ جان لیتے دوسری سورت کی طرف نہ بڑھتے۔آپ نے تجارت میں کبھی درہم کی چھان بین نہ کی اور نہ ہی کبھی بادشاہ کے لئے کام کیا، کسی کام کو خود کرنے سے پہلے اس کا حکم نہ دیا اورکسی چیزسےدوسروں کواس وقت تک منع نہ کیاجب تک خوداس سےنہ رک گئے۔ ابوبکر سفاح نےیہ سن کرفرمایا: واقعی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہانہی اعمال کی بدولت اس مقام ومرتبےپرفائزہوئے تھے۔
جاحظ کا بیان ہے کہ جب کسی شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے اس کے فضائل بیان کیے جاتے تو اس میں حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کااستثناکرنا پڑتا، مثلاً: وہ شخص حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے علاوہ دیگر تمام لوگوں سے زیادہ زاہد ہے، ان کے علاوہ سب لوگوں سے بڑا فقیہ ہے، ان کے علاوہ تمام لوگوں سے زیادہ فصیح وبلیغ ہے اور انہیں چھوڑ کر سب لوگوں سے بڑا خطیب ہے۔
سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ الرَّحمَہ:
ایک بزرگ نے ارشاد فرمایا: حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز حضرت سیِّدُنا اویس قرنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی سے بڑے زاہد تھے کیونکہ آپ دنیا کے مالک ہوئے پھر بھی اس سے بے رغبتی فرمائی جبکہ حضرت سیِّدُنا اویس قرنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی کی ملک میں دنیا نہیں آئی۔یہ سن کر کسی نے کہا: اگرحضرت سیِّدُنا اویس قرنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیکی ملکیت میں دنیاآتی توآپ بھی ایساہی کرتےجیساحضرت سیِّدُناعُمَربن عبدالعزیزعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز نے کیا۔بزرگ نے ارشادفرمایا: جس نے تجربہ نہیں کیا وہ اس کی طرح نہیں ہوسکتا جس نے تجربہ کیا ہے۔
سیِّدُنا ثابت بنانی عَلَیْہِ الرَّحمَہ:
حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا ثابت بنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے متعلق ارشاد فرمایا: بے شک خیر وبھلائی کے لئے کنجیاں ہوتی ہیں اور حضرت سیِّدُنا ثابت بنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بھلائی کی چابیوں
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع