30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
:حاجت روا صالحہ
حضرت بَنان حَمَّال رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ مصر سے مکۂ مکرمہ جاتے ہوئے راستے میں مجھے ایک خاتون ملیں،فرمانے لگیں:اے بَنان!تم واقعی حَمَّال ہو۔پیٹھ پر بوجھ اٹھا کر چلتے ہو اور یہ خَیال کرتے ہو کہ تمہیں رِزْق نہیں ملے گا۔فرماتے ہیں:میں نے توشہ راہ میں بانٹ دیا،اس کے بعد سَفَر کرتے کرتے تین دن گزر گئے،میں نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، راستے سے مجھے ایک پازیب ملی تو میں نے دل میں سوچا: اس کو اٹھا لوں، اس کا مالِک آئے گا تو شاید اس کے بدلے مجھے کچھ دے۔اتنے میں وہی خاتون آئیں اور فرمانے لگیں: تم سوداگر ہو،کہتے ہو اس کا مالِک آئے گا تو میں اس سے کچھ لوں گا۔پھر میری طرف کچھ درہم پھینک کر فرمانے لگیں:یہ خَرْچ کرو۔ وہ دِرْہَم مجھے مصر واپسی تک کافی ہو گئے۔1
:کنکریاں دینار بن گئیں
مذکورہ صورتیں وہ تھیں کہ صالحات کے پاس کچھ نہ تھا اور ان کی خواہش پر غیبی دولت سے ان کی ہتھیلیاں بھر گئیں، مگر کسی چیز کی حقیقت و مَاہِیَّت کا اچانک بدل جانا یا بدل دینا بھی چونکہ کَرَامَت کہلاتا ہے لِہٰذا تاریخ میں ایسے واقعات بھی مروی ہیں کہ جس میں اولیائے کرام نے تَصَرُّف فرما کر کنکروں کو درہم و دینار میں بدل دیا۔ جیسا کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں اور محمد عابد نامی ایک شخص بَیْتُ الْمُقَدَّس سے جمعہ کے دن رَمْلہ کے اِرَادہ سے نکلے، ہم ایک گھاٹی پر چڑھے تو ہمیں ایک آواز سنائی دی، کوئی کہہ رہا تھا:آدمی کتنا گھبراتا ہے جب اس کا کوئی ساتھی نہ ہو اور راستہ کس قدرتنگ ہوتا ہے جب اس کا کوئی رَاہ نُما نہ ہو۔ہم نے قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک بزرگ خاتون تھیں جن کے جسم پر بالوں سے بنا ہوا کُرتا اور اُون کی ایک چادَر تھی، جبکہ ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ہم نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر پوچھا:کہاں جا رہے ہو؟ ہم نے کہا:رَمْلہ۔پھر پوچھنے لگیں:رَمْلہ جا کر کیا کرنا ہے؟ہم نے کہا:ہمارے وہاں دوست رہتے ہیں۔پھر کہنے لگیں:تمہارے قُلُوب میں حبیب اکبر کا رُتبہ کتنا ہے؟ہم نے کہا:وہ اللہ ہمارا اور جملہ مومنین کا حبیب ہے۔اس پر فرمانے لگیں:وہ تمہارا اور جملہ مومنین کا تو صرف زبانی حبیب ہے مگر وہ میرا زبانی حبیب بھی ہے اور قلبی حبیب بھی۔
ہم نے ان سے کچھ سوالات بھی کئے جن کے انہوں نے تسلی بخش جواب دئیے، پھر جب میں نے اپنے کمبل سے کچھ دراہم نِکال کر انہیں پیش کئے تو فرمانے لگیں:یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے؟میں نے عرض کی:میں نے جائز طریقے سے کمائے ہیں۔بولیں:یہ کمائی کمزور ہے۔ میں نے کہا:کمائی کمزور کیسے ہو سکتی ہے؟فرمانے لگیں: یقین کی کمزوری کی وجہ سے۔عرض کی: یقین کی عَلامَت کیا ہے؟ بولیں:تم اس وقت تک یقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اس کی رضا کے بغیر پیدا ہونے والے گوشت کو قینچی سے نہ کاٹ دو یہاں تک کہ اس کی جگہ اس کی رضا مندی کے ساتھ نیا گوشت پیدا ہو جائے۔
ہم نے عرض کی:ہر چیز کی دلیل ہوتی ہے آپ کے سچا ہونے کی کیا دلیل ہے؟تو انہوں نے فوراً زمین پر ہاتھ مار کر مٹھی بھر کنکریاں اٹھائیں اور فرمانے لگیں:اے ضعیف الیقین! اسے پکڑ! میرے ساتھی نے انہیں پکڑا تو وہ کنکریاں سب کی سب دینار بن چکی تھیں۔پھر وہ فرمانے لگیں:انہیں لے جاؤ! یہ کبھی ترازو میں تلے ہیں نہ کبھی ان پر کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہے۔پھر مجھ سے فرمایا:تمہیں اس لیے نہیں دیئے کہ تم ان سے بھاگتے ہو۔اس کے بعد انہوں نے پھر ہم سے پوچھا:کہاں جانا چاہتے ہو؟ ہم نے عرض کی: رَمْلہ۔ فرمانے لگیں:یہی تو ہے رَمْلہ۔ہم نے دیکھا تو ہم رَمْلہ کے باغ میں تھے اور وہ بزرگ خاتون کہیں دکھائی نہ دیں۔ ہم رَمْلہ شہر میں داخِل ہوئے تو لوگ نَمازِ جُمُعَہ سے فارِغ ہو کر نِکَل رہے تھے۔محمد عابد نے ان دیناروں سے عَسْقَلان میں ایک مَسْجِد بنوائی جو مَسْجِد مباحی کے نام سے مشہور ہے۔2
عالَمِ برزخ سے آگاہ ہونا
دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں، مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے اور یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔3اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فتاویٰ رضویہ شریف میں ایک سوال کے جواب میں 60اَحادِیث مُبارَکہ اور 100جلیل القدر،صحابہ وتابعین کرام کے اَقْوَال ذکر کر کے یہ ثابِت کیا ہے کہ مرنے کے بعد رُوْح فنا نہیں ہوتی، اس کا سننا،بو لنا،دیکھنا کہیں آنا جا نا وغیرہ بدستور باقی رہتا ہے بلکہ ان صفات و اَفْعَال کی قوّت مزید بڑھ جاتی ہے کہ زِنْدَگی میں جن اعضا ہاتھ ، کان، آنکھ،زبان وغیرہ سے کام لیتے تھے اب روح ان ا عضاکے بغیر کام کررہی ہے، اگر چہ جسم مثالی کے ساتھ ہو۔ اس کے ثُبُوت میں بے شمار اَحادِیث،آثار اور کافی وشافی دلائل موجود ہیں کہ جن میں روح کے متعلق بہت زیادہ اُمُور کا ذکر آیا ہے، ان میں سے 50 یہ ہیں:
(1) بعد انتقال عقل وہوش بدستور رہنا
(2) روح کا پس از مرگ آسمانوں پر جانا
(3) اپنے رب کے حضور سجدے میں گرنا
(4) فرشتوں کو دیکھنا
(5) ان کی باتیں سننا
(6) ان سے باتیں کرنا
(7) اپنے منازلِ جنّت کا پیشِ نظر رہنا
(8) نیک ہمسایوں سے نفع پانا
(9) بدہمسایوں سے ایذا اٹھانا
(10) ملائکہ کا ان کے پا س تحفے لانا
(11) ان کی مزاج پرسی کو آنا
(12) ان کا منتظرِ صدقات رہنا
(13)قبر کا ان سے بزبانِ فصیح باتیں کرنا
(14)ان کے منتہائے نظر تک وسیع ہونا
(15) زندوں کے اعمال انہیں سنائے جانا
(16)نیکیوں پرخوش ہونا، بُرائیوں پرغم کرنا
(17) پسماندوں کے لیے دعائیں مانگنا
(18) ان کے ملنے کا مشتاق رہنا
(19) روحوں کاباہم ملنا جلنا
(20) ہر گُونہ کلام کے دفتر کھلنا
(21) منزلوں کی فصل سے آپس کی ملاقات کو جانا
(22) اگلے اموات کامُردہ نوکے استقبال کو آنا
(23) اس کا گزرے قریبوں کو دیکھ کر پہچاننا، ان سے مل کر شاد ہونا
(24) ان کا اس سے باقی عزیزوں دوستوں کے حال پوچھنا
(25) آپس میں خوبی کفن سے مفاخرت کرنا
(26) بُرے کفن والے کا ہم چشموں میں شرمانا
(27) اپنے اچھے یا برے اعمال کو دیکھنا
(28) تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا
(29) ان کی صحبت سے انس وفرحت یا مَعَاذَ اللہ خوف ووحشت پانا
(30) عالِمِ دین کا عِلمِ شریعت
(31) اہلِ سنّت کا مذہبِ سنّت
(32) مسلمان کے دل خوش کرنے والے کا اس سُرور و فَرْحَت سے صحبت دلکشا رکھنا
(33) تالیِ قرآن کاقرآنِ عظیم کی پاکیزہ طلعت سے صحبتِ دلکشا رکھنا
(34) دشمنانِ عثمان کا اپنی قبروں میں عیاذاً باﷲ دجال پر ایمان لانا
(35) نیک بندوں کا خدمتِ اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم و عباد اﷲ الصالحین میں حاضر ہونا
(36)اپنی قبور میں نمازیں پڑھنا
(37)حج کر نا لَبَّیْك کہنا
(38) بلکہ ملائکہ کا انہیں تمام وکمال قرآنِ عظیم حِفْظ کرانا
(39) اپنے رب سے باتیں کرنا
(40) جنّت کی نہروں میں غوطے لگانا
(41)بیل اور مچھلی کا لڑتے ہوئے ان کے سامنے آنا تماشا دیکھ کر جی بہلانا
(42) رب تبارک وتعالیٰ کا ان سے کلامِ جانفزا فرمانا
(43)جو تلاوتِ قرآن میں مشغول مرے قرآنِ عظیم کا ہر وقت ان کی دل جوئی فرمانا،ہر صبح و شام ان کے اہل و عَیال کی خبریں انہیں پہنچانا
(44) دودھ پیتے شہزادے کا انتقال ہوا،جَنَّت کی دائیاں مُقَرَّر ہونا،مدّت رَضَاعَت تمام فرمانا
(45) نیکوں کا شوق قیامت میں جلدی کرنا
(46) بدوں کا نام قیامت سے گھبرانا
(47) مقتولانِ راہِ خدا کے دل میں دوبارہ قتل کی آرزو ہونا
(48) مسلمانوں کا سبز یا سپید (سفید)پرندوں کے روپ میں جہاں چاہنا اُڑتے پھرنا
(49) جنّت کے پھل پانی کھانا پینا
(50) سونے کی قندیلوں میں عرش کے نیچے بسیرا لینا۔4
عالَمِ برزخ چونکہ ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہے، اس کے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا، بس ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جو کچھ اس عالم کے متعلق بتایا وہ حق ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں مومنوں کی جان، ہماری آن ہماری شان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:مردہ جب تخت پر رکھا جاتا ہے اور اُسے لے کرابھی 3 قدم ہی چلے ہوتے ہیں کہ وہ بولتا ہے اور اس کے کلام کو انسانوں اور جنوں کے علاوہ اللہ پاک جسے چاہتا ہے سنواتا ہے۔5
اب ان سننے والوں میں کون کون ہیں ان کے متعلق حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جس ولی پر حضور کا دستِ کرم پڑ جائے وہ عرش وفرش دیکھ لیتا ہے۔6نیز فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ اور اولیائے كرام عذاب قَبْر کو سنتے اور دیکھتے ہیں۔7
:مردوں کی باتیں سننا
حضرت عا ئشہ اَنْدَلُسِیَّہ رحمۃُ اللہِ علیہا جو کہ ایک نیک صفت اور صالحہ خاتون تھیں، فرماتی ہیں:میرا بیٹا انتقال کر گیا اور میں ہفتے میں ایک بار اس کی (قبر کی) زیارت8 کرنے جاتی۔ جب میں اس کی قبر کے قریب پہنچتی تو اس کے پڑوسی مُردوں کو کہتے ہوئے سنتی:اے فلا ں! یہ تیری ماں ہے، تیرے پاس آئی ہے۔ میں اپنے بیٹے کی قبر کو دیکھتی تو لگتا جیسے وہ ہنس رہا ہو، میں اس سے بہت خوش ہوتی۔9
1 …روض الریاحین، ص115
2 …روض الریاحین، ص329
3…بہارِ شریعت، حصہ اول، 1/ 98
4…فتاویٰ رضویہ،9/ 703
5…موسوعہ ابن ابی الدنیا، 6/61،حدیث:25
6…مراٰۃ المناجیح، 1/ 131
7…مراٰۃ المناجیح، 1/ 132
8…عورتوں کی قبروں پر حاضری کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے،حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: اسلم یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً منع کی جائیں کہ اپنوں کی قبور کی زِیَارَت میں تو وہی جزع وفزع ہے اور صالحین کی قبور پریا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ (بہارِ شریعت،حصہ چہارم ،1/ 849)
9…الروض الفائق، ص28
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع