(23)الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ یعنی حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ (ترمذی،5/426،حدیث:3793 )
شرح ِ حدیث
علامہ علی بن احمد عزیزی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:یعنی یہ دونوں ہر اس شخص کے سردار ہیں جو جوانی کی حالت میں فوت ہوکر جنت میں داخل ہو ۔(السراج المنیر،3/106)
خلد کے نوجوانوں کا سردار تُو
اور بھائی تِرا ،یا حسن مجتبیٰ
(24)اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز پڑھتے تو امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما آپ کی مبارک پیٹھ پر سوار ہوجاتے،لوگ ان شہزادوں کو روکنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشارہ کرکے انہیں منع فرمادیتے۔ نماز سے فارغ ہوکر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو گود میں لے کر ارشاد فرماتے: مَنْ اَحَبَّنِيْ فَلْيُحِبَّ هٰذَيْنِ یعنی جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔(السنن الکبری للنسائی،5/50،حدیث:8170)
(25)هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی یہ دونوں( حسن اور حسین رضی اللہ عنہما)دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (بخاری،2/547،حدیث:3753 )
شرح ِ حدیث
٭امام حافظ ابوبکر محمد بن عبداللہ المعروف ابنِ عربی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:
گویا کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ دونوں میرے بیٹے ہیں،میں ان کی خوشبو سونگھ کر اور انہیں سینے سے لگاکر راحت حاصل کرتا ہوں۔(عارضۃ الاحوذی،7/159)
٭شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شہزادگان کو پھول کہنا اس بنا پر ہے کہ جس طرح پھول کی طرف سب کی رَغبت ہوتی ہے،اُسے سبھی محبوب رکھتے ہیں،اسے سونگھتے ہیں اور چومتے ہیں،اسی طرح یہ شہزادے بھی مجھے محبوب ہیں،میں انہیں سونگھتا بھی ہوں بوسہ بھی دیتا ہوں۔(نزہۃ القاری،4/629)
کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حسن پھول
(26)حضرت سیدنا بُرَیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما سرخ(دھاری دار) قمیصیں پہنے ہوئے آئے۔دونوں شہزادے چلتے تھے اور گرتے تھے۔(یہ دیکھ کر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور دونوں شہزادوں کو اٹھاکر اپنے پاس بٹھالیا،پھر فرمایا:اللہ پاک نے سچ فرمایا ہے: اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہی ہیں ۔ (پ28،التغابن:15) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ یہ چلتے اور گرتے ہیں تو مجھ سے رہا نہ گیا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر ان دونوں کو اٹھالیا۔ (ترمذی،5/429،حدیث:3799)
شرح ِ حدیث
اس حدیث شریف کے تحت حضرت الحاج مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ کی شرح میں سے چند مدنی پھول ملاحظہ فرمائیے:
غالب یہ ہے کہ یہ خطبہ وعظ(بیان) نہ تھا بلکہ خطبہ جمعہ تھا،ان دونوں کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ جمعہ توڑا ۔ جب ان کے لیے نماز کا سجدہ دَراز (لمبا)کیا جاسکتا ہے
تو انہیں کے لیے خطبۂ جمعہ بھی توڑا جاسکتا ہے۔
ان دونوں فرزندوں کی قمیضوں میں سرخ دھاریاں تھیں ،خالص سرخ (قمیضیں)نہ تھیں کہ خالص سرخ کپڑا مردوں اور لڑکوں کو پہننا پہنانا ممنوع ہے۔
یہ دونوں فرزند بہت چھوٹے تھے، نیا نیا چلنا سیکھا تھا اس لیے برابر چل نہ سکتے تھے، چلتے گر جاتے پھر اٹھ کر چلتے گر جاتے تھے جیساکہ بہت چھوٹے بچوں میں دیکھا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاضرین میں سے کسی سے نہ منگایا نہ کسی اور کی گود میں بٹھایا بلکہ خود منبر شریف سے اتر کر خطبہ چھوڑ کر بچوں کے پاس گئے انہیں اٹھا کر لائے اپنے برابر بٹھایا ،یہ ہے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہائی محبت ان دونوں سے۔
اس آیتِ کریمہ (اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ )میں’’ فتنہ‘‘ بمعنی آفت یا مصیبت نہیں بلکہ محنت یا آزمائش ہے، الله تعالٰی ان (اولاد)کے ذریعہ مؤمن کو ثواب دیتا ہے۔
خیال رہے کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے لیے خطبہ قَطْع کرنا (روک دینا)حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خُصُوصِیّت (Specialty)ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،8/478)
(27)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا:اَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ یعنی جس سے تمہاری صلح ہے اس سے میری بھی صلح ہے اور جس سے تمہاری لڑائی ہے اس سے میری بھی لڑائی ہے۔ (ابن ماجہ،1/97، حدیث:145)
شرح ِ حدیث
یعنی جس نے ان( چاروں ) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔(شرح مصابیح السنۃ،6/465،تحت الحدیث:4817)
(28)حضرت سیدنا سعد بن ابی وقا ص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ یعنی آؤ !ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے ۔(پ3،آلِ عمران:61) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا ،امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو بلایا اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی: اَللّٰهُمَّ هٰؤُلَاءِ اَهْلِيْ یعنی اے اللہ!یہ میرے گھر والے ہیں۔ (مسلم، ص1006، حدیث:6220)
اس حدیث شریف میں جس آیتِ مبارکہ کا ذکر ہے وہ مکمل آیت یہ ہے:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ترجمۂ کنزالعرفان: پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آجانے کے بعد جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو: آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کواور اپنی عورتوں کواور تمہاری عورتوں کواور اپنی جانوں کواور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں پھر مُبَاہَلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔ (پ3،آلِ عمران:61)
شرح ِ حدیث
٭شِہابُ الملّۃ وَالدِّین حضرت علّامہ احمد بن محمد خَفاجی مصریحنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:نَجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن وہ مسلمان نہ ہوئے اور دعویٰ کیا کہ ان کا دین حق ہے جو منسوخ نہیں ہوا۔یہ سارا واقعہ تفسیر اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہے۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ،خاتونِ جنت اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ یہ دَستور تھا کہ لوگ مُبَاہَلےکے موقع پر اپنی اولاد اور گھر والوں کو جمع کرکے یہ دعا کرتے کہ( دونوں فریقوں میں سے) جو جھوٹا ہے اس پر اور اس کے گھر والوں پر عذاب نازل ہو۔جب عیسائیوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے مُبَاہَلہ نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(سچے )نبی ہیں اور اللہ پاک کسی نبی کے ساتھ مُبَاہَلہ کرنے والوں کو ہلاک فرمادیتا ہے، وہ لوگ جِزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر وہ مُبَاہَلہ کرتے تو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مَسْخ کردیئے جاتے اور جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا ۔
علّامہ خَفاجی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: مُبَاہَلہ کا حکم اب تک باقی ہے۔ (نسیم الریاض،4/500)
٭شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت کو آیتِ مُبَاہَلہ کہا جاتا ہے۔اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عیسائیوں کے ساتھ مُبَاہَلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو آپ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کوگود میں اٹھارکھا تھا، امام حسن رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا جبکہ خاتونِ جنت اور شیرِ خدا رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چاروں سے ارشاد فرمایا:اِذَا دَعَوْتُ فَاَمِّنُوْایعنی جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔(یہ منظر دیکھ کر) عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے ان سے کہا:اے عیسائیوں کے گروہ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ سے پہاڑ کو ہٹادینے کی دعا کریں تو اللہ پاک پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دے۔ ان سے مُبَاہَلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔(لمعات التنقیح،9/694،تحت الحدیث:6135)
اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مُبَاہَلہ یہ(ہے) کہ دو فریق جمع ہو کر اپنا اپنا دعوٰی بیان کریں اور ہر فریق دعا کرے کہ ان دونوں میں جو جھوٹا ہو اس پر لعنت الہٰی ہو، یہ جائز ہے۔ مُبَاہَلہ ہر اس صور ت میں ہوسکتاہے کہ اپنے قول کی حقانیت(سچائی) پر یقینِ قطعی ہو، مشکوک یا مَظْنُون بات پر مُبَاہَلہ سخت جُرأت ہے۔ (فتاوی رضویہ،21/189)
(29)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(ام المؤمنین)حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں موجود تھے کہ یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا یعنی اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب صاف سُتھرا کردے۔ (پ22،الاحزاب:33)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا اور حَسَنین کریمین رضی اللہ عنہم کو بلاکر اپنی مبارک چادر کے نیچے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جو آپ کے پیچھے موجود تھے انہیں بھی چادر تلے لیا اور بارگاہِ خداوندی میں عرض کی:اَللّٰهُمَّ هٰوُلَاءِ اَهْلُ بَيْتِيْ فَاَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا یعنی اے اللہ!یہ میرے اہلِ بیت ہیں،ان سے گندگی دور فرمادے اور انہیں خوب صاف سُتھرا فرمادے۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:اے اللہ کے نبی!میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ارشاد فرمایا:اَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَاَنْتِ عَلَى خَيْرٍ یعنی تم تو (پہلے ہی) اس مقام و مرتبے پر فائز ہو اور تم بھلائی پر ہو۔(ترمذی،5/141،حدیث:3216)
شرح ِ حدیث
حضرت علّامہ احمد بن محمد خَفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان حضرات کو اپنی مبارک چادر تلے لینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی قُرب و نزدیکی حاصل ہے اور اللہ پاک نے ان حضرات کو اپنی رحمت سے ڈھانپا ہوا ہے جیسے چادر نے ان حضرات کو ڈھانپا ہے۔
اللہ پاک نے مذکورہ آیت میں اہلِ بیت کو سُتھرا کرنے سے متعلق اپنے ارادے کی خبر دی اور اللہ پاک کے ارادے میں تبدیلی نہیں آسکتی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے یہ دعا فرمائی تاکہ لوگوں کے سامنے اہلِ بیت کی عظمت و شان ظاہر ہو یا پھر دعا سے مقصود یہ ہے کہ اہلِ بیت کو ہر قسم کی گندگی سے پاکی اور سُتھرائی پر اِستقامت و دَوام حاصل ہو۔
آیتِ مقدسہ میں گندگی سے مرادگناہ،نافرمانیاں اور تمام خلافِ شان کام ہیں۔(نسیم الریاض،4/500)
اے عاشقانِ رسول!یاد رکھیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس بیویاں بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں اور کثیر دلائل سے یہ بات ثابت ہے ۔
شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اہلِ بیت کے لُغوی اور عُرفی معنی ہیں :گھر کے لوگ،اس میں بیٹے،بہو،بیٹیاں،پوتے شامل ہوتے ہیں۔حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں جُملہ(تمام) ازواجِ مطہرات ،اُمَّہات ُالمؤمنین شامل ہیں۔اس پر آیتِ کریمہ (یعنی پارہ 22،سورۂ احزاب کی آیت :33)کا سِیاق و سَباق (یعنی اس سے پہلی اور اس سے اگلی آیات کا مفہوم)دلالت کرتا ہے۔یہ آیتِ کریمہ سورۂ احزاب کی ہے،آپ کسی بھی مُتَرجم(Translated) قرآن میں دیکھ لیں،آپ پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ آیتِ کریمہ ازواجِ مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت علی،حضرت سیدہ،حضرات حسنین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اہلِ بیت میں اس لیے داخل مانے جاتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ کے نُزول کے بعد حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سب حضرات کو جمع کرکے ایک کمبل اوڑھایا اور فرمایا:اے اللہ!یہ میرے اہلِ بیت ہیں،ان سے پلیدی دور فرما،انہیں خوب پاک و ستھرا کردے۔اگر لفظ اہلِ بیت اپنے معنیٔ لُغوی یا عُرفی کے لحاظ سے داماد،بیٹی اور نواسوں کو شامل ہوتا تو پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان سب کو ایک کمبل میں جمع فرماتے اور دعائے مذکور فرماتے۔یہ اس لیے حضور نے فرمایاکہ معنیٔ عرفی اور لغوی کے لحاظ سے یہ لوگ اہل بیت میں داخل نہ تھے،اب جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا کہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں، تو داخل ہوگئے۔ (فتاویٰ شارحِ بخاری،2/65)
سرکار ِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا کو چادر تلے لینے کے بجائے فرمایا: اَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَاَنْتِ عَلَى خَيْرٍ ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان مبارک الفاظ کا ایک معنی یہ بیان کیا ہے:
تم بھلائی پر ہو اور تم بھی میرے اہلِ بیت میں شامل ہو ،تمہیں چادر کے نیچے داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے،گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی کے باعث انہیں چادر کے نیچے آنے سے منع فرمایا۔(لمعات التنقیح،9/691)
امہات المؤمنین کے اہلِ بیت میں شامل ہونے سے متعلق تفصیل جاننے کے لئے لَمْعَاتُ التَّنْقِیْح ، جلد9، صفحہ 690 تا 693 کا مطالعہ فرمائیں:
اس حدیث شریف میں جس آیتِ مبارکہ کا تذکرہ ہوا ا س کی طرف اشارہ کرتے ہوئے برادرِ اعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیۂ تَطْہِیر سے ظاہر ہے شانِ اَہل بیت
(ذوقِ نعت،ص100)