30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دخل بیتا قد اجمر فیہ فتعلق بثیابہ رائحۃ فلا شئی علیہ لانہ غیرمنتفع بعینہیعنی اس میں کوئی فرق نہیں کہ محرم کے کپڑے کے ساتھ خوشبو کا عین متعلق ہو یا اس کی بو، اسی وجہ سے علماء نے صراحت کی کہ اگر کسی نے اپنے کپڑوں کو خوشبو سے دھونی دی اور اس کی وجہ سے کثیر خوشبو متعلق ہوگئی تو ’’ دم ‘‘ ہو گا اوراگر قلیل ہو تو ’’صَدَقہ ‘‘ کیونکہ یہ خوشبو سے نفع اٹھانا ہے، بخلاف اگر کوئی ایسے کمرے میں داخل ہوا جس میں دھونی دی گئی ہو اور اس کے کپڑے میں بو بس جائے تو کچھ نہیں کیونکہ یہ اس کے عین کے ساتھ نفع اٹھانا نہیں۔
یہی عبارت علامہ سید احمد طحطاوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے حاشیۃ الطحطاوی علی الدر (ج ۱، ص ۵۲۰) ، علامہ محمد بن سعید عبدالغنی علیہ رحمۃُ اللہِ الغنی نے اِرشاد السّاری ( ص ۳۱۲) اور علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے رَدُّالمُحتار ( ج ۳ ص ۴۹۶) میں نقل فرمائی۔
مبسوط للسرخسی (ج۴، ص ۱۲۳) میں ہے : عن محمد رحمہ اللہ ان المحرم اذا دخل بیتا قد اجمر فیہ فطال مکثہ حتی علق ثوبہ لا یلزمہ شیء ولو اجمرثیابہ بعد الاحرام فعلیہ الجزاء لان الاجمار اذا کان فی البیت فعین الطیب لم یتصل بثوبہ ولاببدنہ انما نال رائحتہ فقط بخلاف ما اذا اجمر ثیابہ فان عین الطیب قد علق بثیابہیعنی امام محمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الصَّمَد سے مروی ہے کہ اگر مُحرم ( احرام والا) ایسے کمرے میں داخل ہو جسے دھونی دی گئی ہو اور وہاں کافی دیر ٹھہرا رہا یہاں تک کہ بو اس کے کپڑوں میں بس گئی تو اس پر کچھ لازم نہیں اور اگر اپنے کپڑوں کو احرام کی نیت کے بعد دھونی دی تو کفارہ واجب ہے کیونکہ دھونی دینا جب کمرے میں ہو تو عین خوشبو نہ تو اس کے بدن سے متعلق ہوئی ہے اور نہ ہی کپڑوں سے بلکہ اس نے تو صرف بو پائی ہے بخلاف اپنے کپڑوں کو دھونی دینے کے کہ اس صور ت میں عین خوشبو اس کے کپڑوں میں بس گئی ہے۔
علامہ سید احمد طحطاوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ( جلد ۱، ص ۵۱۹) میں فرماتے ہیں : ولا بأس ان یجلس فی حانوت عطار او موضع یتبخر فیہ الا انہ یکرہ ان کان الجلوس ھناک لاشتمام الرائحۃ یعنی عطر فروش کی دکان یا ایسی جگہ جہاں دھونی دی جارہی ہو بیٹھنے میں حرج نہیں ، لیکن اگر وہاں بیٹھنا خوشبو سونگھنے کی نیت سے ہو تو مکروہ ہے۔
واضح ہوا کہ علماء نے جہاں یہ فرمایا کہ ’’ خوشبو میں قصد اور عدم قصد برابر ہیں ‘‘ وہاں مراد خوشبو کا عین یا اس کی ذات کا لگنا ہے، جبکہ خوشبو کے اثر یعنی بو کے لئے اس کا قصد یا خوشبو کا عادۃً اسی طرح استعمال کیا جانا ضروری ہے جیسا کہ عود کی دھونی بے قصد خوشبو بس جائے تو کچھ نہیں۔ یہ فرق واضح رہے کہ خطا کا مقام ہے۔
بدن پر استعمال ہونے والی اشیاء
مَلِکُ العلماء ابوبکر کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّورَانِی بَدَائِع الصَّنَائع (ج ۲، ص۱۹۰ مطبوعہ کوئٹہ) میں علامہ سید احمد طحطاوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ( ج ۱، ص ۵۲۰) میں اور فتاویٰ عالمگیری ( ج ۱، ص ۲۴۰) میں ہے : قال اصحابنا ان الاشیاء التی تستعمل فی البدن علی ثلاثۃ انواع نوع ھو طیب محض معد للتطیب بہ کالمسک والکافور والعنبر وغیرذلک وتجب بہ الکفارۃ علی ای وجہ استعمل حتی قالوا لوداوی عینہ بطیب تجب علیہ الکفارۃ لان العین عضوکامل استعمل فیہ الطیب فتجب الکفارۃ و نو ع لیس بطیب بنفسہ ولا فیہ معنی الطیب ولا یصیرطیبا بوجہ کالشحم فسواء اکل اوادھن اوجعل فی شقاق الرجل لاتجب الکفارۃ ونوع لیس بطیب بنفسہ لکنہ اصل الطیب یستعمل علی وجہ الطیب ویستعمل علی وجہ الادام کالزیت والشیرج فیعتبر فیہ الاستعمال فان
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع