30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حکم خوشبو کا ہوتا ہے، وہی اس کا بھی ہوگا۔ یعنی اگر قلیل ہے اور عضوِ کامل کو نہ لگے، تو صدقہ، ورنہ اگر کثیر ہو یا کامل عضو کو لگ جائے، تو دم ہے۔ اور اگر عَین موجود نہ ہو، بلکہ صرف مہک آتی ہو، تو اگر اس سے چہرہ وغیرہ پونچھا اور چہرے یا ہاتھ میں خوشبو کا اثر آگیا، تو کوئی ’’کفارہ ‘‘ نہیں کہ یہاں خوشبو کا عین نہ پایا گیا اور ٹشو پیپر کا مقصودِ اصلی خوشبو سے نفع لینا نہیں۔
ھندیہ ( عالمگیری ج ۱، ص ۲۴۱) میں ہے: لودخل بیتا قد اجمرفعلق بثوبہ رائحۃ فلا شیء علیہ لانہ غیرمنتفع بعینہیعنی اگر کوئی ایسے کمرے میں داخل ہوا جس کو دھونی دی گئی اور اس کے کپڑے میں مہک بس گئی ، تو کوئی کفارہ نہیں ، کیونکہ اس نے خوشبو کے عین سے نَفع نہیں اٹھایا۔
سیدی ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی نے شرح اللباب ( ص ۱۲۱) میں خوشبو کا جرم لگے بغیر، صرف مہک لگنے کے جواز کے بارے میں صراحت فرمائی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : ومسہ ای لمس الطیب ان لم یلتزق ای شیء من جرمہ الی بدنہ فانہ حینئذ نوع من استعمالہ بخلاف اذا تعلق بہ ریحہ وعبق بہ فوحہ فانہ لا تضرہ اھیعنی (احرام کے مکروہات میں سے) اس یعنی خوشبو کا چھونا ( بھی) ہے ۔ بشرطیکہ وہ چمٹے نہیں یعنی اس خوشبو کے جرم میں سے کوئی شے اس کے بدن کو نہ چمٹے کیونکہ اس وقت یہ خوشبو کے استعمال کی ایک قسم قرار پائے گی بخلاف اس کے کہ جب اس کے ساتھ خوشبو کی مہک متعلق ہوجائے اور ( بغیر جرم کے) خوشبو لگے اور بھڑ کے تو یہ اس کے لیے مُضر ( نقصان دہ ) نہیں ۔ اس کے بارے میں تفصیلی بیان ’’خوشبو کے استعمال سے مراد ‘‘ کے عنوان کے تحت گزر چکا ہے۔
(۷) سرمہ
سرمہ اگر بغیر خوشبو کا ہے توسنت یا ضرورت کی وجہ سے اس کے استعمال میں کوئی حرج ( گناہ ) نہیں لیکن محرم کے لیے بلا ضرورت ا س کا استعمال مکروہ ہے اور بظاہر ’’کراہتِ تنزیہی ‘‘ ہے اور عموماً سرمے میں خوشبو نہیں ہوتی ہیکما ھوالمشاھداور اگر سرمہ خوشبودار ہو، تو ایک یا دو بار استعمال میں ’’صَدَقہ ‘‘ ہے اور تین یا اس سے زائد میں ’’دم ‘‘ ۔
’’ شرح اللُّباب ‘‘ ( ص ۱۲۲) میں ہے: والاکتحال بما لا طیب فیہ ای عملا بالسنۃ وتقویۃ للباصرۃ لا قصد الزینۃیعنی ایسا سرمہ لگانا مُباح ( جائز ) ہے کہ جس میں خوشبو نہ ہو۔ یعنی سنت پر عمل کی نیت سے اور بصارت ( بینائی) کی تقویت کے لیے، نہ کہ قصد ِ زینت سے۔
عالمگیری ( ج ۱ ، ص ۲۴۱) میں ہے : عن محمد علیہ الرحمۃ فیمن اکتحل بکحل مطیب مرۃ او مرتین فعلیہ الصدقۃ وان کان مرارا کثیرۃ فعلیہ دم یعنی امام محمد علیہ رَحْمَۃُ اللہ الاحدسے، اس شخص کے بارے میں کہ جس نے خوشبو دار سرمہ ایک یا دو مرتبہ لگایا، مروی ہے کہ اس پر ’’ صدقہ ‘‘ ہے اور اگر کئی مرتبہ لگایا ، تو اس پر ’’دم ‘‘ واجب ہے۔
بہار ِ شریعت ( ص ۸۶ حصہ ششم) میں ہے : ’’خوشبود ار سرمہ ایک یا دو بار لگایاتو ’’صدقہ ‘‘ دے، اس سے زیادہ میں ’’دم ‘‘ ہے اور جس سرمہ میں خوشبو نہ ہو، اس کے استعمال میں حرج ( گناہ ) نہیں ، جب کہ بضرورت ہو اور بِلا ضرورت مکروہ۔ ‘‘
(۸) ٹوتھ پیسٹ
ٹوتھ پیسٹ میں اگر آگ کا عمل ہوتا ہے، جیسا کہ یہی مُتَبادِر ہے ، جب تو حکم کفارہ نہیں ، جیسا کہ ماقبل تفصیل سے گزر چکا۔ لیکن اس میں عموماً منہ کی بدبو دور کرنے اور خوشبو حاصل کرنے کا قصد ہوتا ہے، لہٰذا اس کا استعمال ’’کراہیت ‘‘ سے خالی نہیں۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع