حضرت شاہِ آلِ احمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کا نکاح حضرت سیِّد شاہ غلام علی صاحب بلگرامی کی صاحبزادی’’ حضرتِ بی بی فضل فاطمہ رحمۃُ اللہِ علیہا ‘‘سےہوا،آپ بڑی نیک خاتون تھیں۔آپ سےایک صاحبزادہ اورایک صاحبزادی پیدا ہوئی۔صاحبزادی 11ربیع الاوّل 1196 ہجری کو انتقال فرماگئیں اورصاحبزادے حضرتِ سید آلِ نبی رحمۃ اللہ علیہ مادرزا د(یعنی پیدائشی) وَلی تھے (بچپن کی عمر میں) جومنہ سے نکل جاتااللہ پاک پورافرمادیتا ( )آپ کی رسمِ بسم اللہ شریف کے بعد بُخار آیا اِسی سبب سے 13 ربیع الاوّل 1196ہجری کو فوت ہوگئے۔ (تذکرہ مشائخِ قادریہ ، ص 364) ایک قول کے مطابق صاحبزادے کے انتقال شریف کے 28دِن بعد 11ربیع الآخر کو صاحبزادی صاحبہ فوت ہوئیں۔(احوال وا ٓثار حضرتِ اچھے میاں، ص27) اللہ ربُّ العزّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
حضرت اچھے میاں رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ کے قریب ہے۔(تاریخ مشائخِ قادریہ، ص 364) خاندان ِ برکاتیہ میں آپ کےچندخلفاء کے نام یہ ہیں:
(1) حضور اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کے چھوٹے بھائی حضرتِ سیِّدآلِ بَرَکات المعروف ستھرے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ جو آپ کے بعد سلسلۂ برکاتیہ کےسجادہ نشین ہوئے۔
(2)حضو ر اچھے میاں کے چھوٹے بھائی حضرتِ سیِّدشاہ آلِ حسین سچے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ
(4) حضرتِ سیِّد شاہ آلِ رسول رحمۃُ اللہِ علیہ ،آپ ہی وہ مبارک شخصیت ہیں جن سے سیِّدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے بیعت کی اورآپ کا مشہور فرمان ہے کہ اگر قیامت کے دِن میرے رَبّ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا لائے ہو؟ تو میں ’’احمد رضا‘‘کو پیش کردوں گا کہ مولا ! یہ لایا ہوں۔( انوارِ رضا، ص 378 )
(4، 5) حضرت سیِّدشاہ اولادِ رسول قادری مارِہروی اور حضرت سیِّدشاہ غلام محیُ الدّین رحمۃُ اللہِ علیہما ،یہ دونوں حضرات حضوراچھے میاں رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔
اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
حضور اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کے منظورِ نَظَرخلیفہ حضرت مولانا شاہ عبدُالمجیدعینُ الحق رحمۃُ اللہِ علیہ کے سلسلۂ بیعت میں داخل ہونے کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے۔آپ ایک عرصے سے پِیر کی تلاش میں تھے لیکن کسی پر دِل نہ جمتاتھا۔ کسی نے حضرت اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کا مبارک نام بتا دیا۔ آپ مارِہرہ شریف پہنچے اور کچھ دنوں تک آپ کی خدمت میں حاضر رہے لیکن آخر کاریہاں بھی دل مطمئن نہ ہوا۔دل ہی دل میں کہنے لگے کہ یہ سب کھانے کمانے کے ڈھکوسلے ہیں، بندہ ایسی فقیری کا قائل نہیں۔بالآخر وہاں سے اپنے وطن بدایوں کو روانہ ہوئے۔بدایوں کے ساتھ خواجۂ خواجگان حضرتِ خواجہ حسن شیخ شاہی المعروف بڑے سرکار رحمۃُ اللہِ علیہ کے آستانے پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ حضورِ غوث پاک اور شیخ شاہی رحمۃُ اللہِ علیہما تشریف لائےاور اِن سے فرمایا: عبدُالمجید ! ساری دنیا میں چراغ لے کر ڈھونڈو گے تب بھی سیِّد آل ِاحمد سے اچھا پیر نہ ملے گا۔اَبھی واپس جاؤ اور سیِّد آل احمد کے مُرید ہوجاؤ۔آپ وہیں سے اُلٹے پاؤں مارہرہ شریف حاضر ہوئے اور بیعت کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا ”میاں ! تم مولوی ہو، مُرید ہو کر کیا کرو گے؟یہ تو کمانے کھانے کے ڈھکوسلے ہیں“۔ (وسوسۂ دِلی جان لینے پر) مولوی صاحب قدموں پر گر پڑے اور اپنے قصور کی معافی چاہی ، اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ نے داخلِ سلسلہ قادریہ فرمایا اور مثالِ خلافت اور خرقۂ خلافت سے بھی سرفراز کیا اور فرمایا کہ تم راستے میں تھے کہ پیرانِ پیر،پیرِدستگیر رحمۃُ اللہِ علیہ تشریف لائے اور مجھے فرمایا: مولوی عبدالمجید آتے ہیں تم ان کو مرید کرو اور مثالِ خلافت دو ۔(برکاتِ مارہرہ، ص 80بتغیر)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا اُونچے اُونچوں کے سَروں سے قدَم اعلیٰ تیرا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضور اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں ایک مرتبہ ایک بَرْص زَدَہ سپاہی حاضر ہوا اور دُورہی کھڑا رہا ۔آپ نے فرمایا:’’بھائی آگے آؤ؟‘‘وہ عرض کرنے لگا:حضور !میں اِس قابل نہیں ہوں ۔پھر فرمایا:آگے آؤ۔وہ شخص آگے آیا تو جس جگہ سفید داغ تھا حضرت نے اپنے مبارک ہاتھ کو رکھا اور ارشاد فرمایا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے ۔جب سپاہی نے اس جگہ دیکھا تو سفید داغ بالکل غائب تھا ۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ، ص 362 بتغیر)
اے مرے اچھے کے اچھے مجھ کو بھی اچھا بنا
صدقۂ اچھے میاں احمد رضا خاں قادری
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(نوٹ : حضرت سید آلِ احمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کے ارشادات اور کرامات پر مشتمل اس رسالے کا دوسرا حصہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔)
… کم عمری میں منہ سے نکلی بات کا پورا ہوجانا کئی بزرگوں سے ثابت ہے بلکہ جس عمر میں بچہ بول بھی نہیں سکتا اس عمر میں بھی کئی بچوں کا بولنا ثابت ہے ۔