30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ز:کیا ایسا شخص امامت کروا سکتا ہے جس پر کسی گناہِ کبیرہ کی تہمت لگی ہو؟
ل: اِتِّہَام (کسی پر تُہْمَت لگانا)اور بدگمانی تو شرعاً جائز نہیں۔ اللہ پاک اِرشَاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ 26، حجرات:12)
ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو!بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑی جھوٹی بات ہوتی ہے۔
مگر جس بات کے معائنہ کے گواہان (عینی شاہدین) ثقہ (قابل اعتماد)بتائے جاتے ہیں وہی مُمانعت ِاِمامت کو بس (امامت نہ کرنے کو کافی) ہے بلکہ ایسے برے کاموں کی تہمت لگ چکی ہو اور طبیعتیں اس سے نفرت کرنے لگیں اگر ثبوت نہ بھی ہو تا ہم (تب بھی) اس امامت میں نمازیوں کی تعداد میں کمی ضرور ہے تو اس کی امامت کے مکروہ ہونے کے لیے اتنی کراہت ہی کافی ہے اگرچہ وہ واقع میں بے قصور ہو۔ لہذا ایسی صورت میں کہ جب قوم کسی شرعی وجہ سے اِس سے نفرت رکھتی ہے خود اسے امام بننا ناجائز۔(1)
ز:کیا ذاتی ناراضی کی وجہ سے امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز ہو جائیگی؟
ل: محض دُنیَوی کَدُورَت(یعنی دشمنی) کے سبب امام کے پیچھے نماز میں حرج نہیں اور اس کے واسطے جماعت ترک کرنا حرام، اگر کدورت اور ترکِ سلام کسی دُنیَوی سبب سے ہے تو تین دن سے زائد حرام اور کسی دِینی سبب سے ہے اور قصور مقتدی کا ہے تو سخت تر حرام اور قصور امام کا ہے تو مقتدی کے ذِمّے اِلزام نہیں امام خود مجرم ہے۔(2)
(1)...فتاویٰ رضویہ،6/553، ماخوذاً
(2)...فتاویٰ رضویہ،6/559
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع