30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مرید تھیں ۔(ملخصاً نسبت کی بہاریں ص ۱۱ )
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلیٰ مُحَمَّد
باب الاسلام (سندھ ) کے مشہور شہر سکھر کے ایک اسلامی بھائی نے ایک مکتوب بھیجا ۔جس میں کچھ یوں تحریر تھا کہ میری ہمشیرہ کم وبیش ۱۲ سال سے بیمار تھی، طویل عرصہ بیمار رہنے کی وجہ سے اس کی حالت انتہائی نازک ہوچکی تھی ۔جس کی وجہ سے ہم سخت ذہنی اذیت میں مبتلاء تھے ۔ اسی دوران ۲۵ صفر ۱۴۲۳ھ 9 مئی 2002 ء بعد نماز عصْر شہزادۂ عطّار حاجی اَحمد عبید ِرضا قادری عطّاری رَضَوی مُدَّظِلُّہُ العَالِی کی سکھر تشریف آوری ہوئی۔
میں ان سے ملاقات تو نہ کرسکا البتہ مجھے ان کی زیارت کرنے کا شرف ضرورحاصل ہوگیا ۔میں نے ان کے ساتھ آنے والے مبلغِ دعوت اسلامی کواپنی ہمشیرہ کی بیماری سے متعلق بتایا اور دعا کی درخواست کی۔انہوں نے بڑی شفقت فرمائی اور مجھے دلاسہ بھی دیا ۔ اُن کے مشورے پر میں نے اپنی ہمشیرہ کا نام امیرِ اہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مرید کروانے کے لئے لکھوا دیا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ چند ہی دنوں بعد امیرِ اہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی جانب سے مرید کرلینے کے بِشارت نامے کیساتھ عِیادت نامہ بھی بصورتِ مکتوب آپہنچا۔ میں اُن دنوں ضَروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہواتھا ۔واپسی پر جب مجھے مکتوبات کی آمد کا پتہ چلا تو میں نے ہمشیرہ سے پوچھا ، کیاآپ نے مکتوبات پڑھ لئے؟ ہمشیرہ نے جواب دیا کہ ’’ابھی تک کسی نے پڑھ کر نہیں سنایا ۔‘‘وہ خود ہی پڑھ لیتی لیکن بیماری کی وجہ سے مجبور تھی ۔
میں نے اسے فوراً دونوں مکتوبات پڑھ کر سنائے۔وہ مرید ہوجانے اور مکتوبات کی آمد پر بے حد خوش تھی۔چنانچہ وہ بار بار مکتوبات کو عقیدت سے چومتی اوراپنی آنکھوں سے لگاتی۔ عیادت نامے والے مکتوب میں شرح الصدور کے حوالے سے روایت نقل تھی کہ جو کوئی بیماری میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنّیِ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن چالیس بار پڑھے اور اس مَرَض میں مر جائے تو شہید ہے اور اگر تندُرُست ہوگیا تو مغفِرت ہوجائے گی۔
میری ہمشیرہ نے فوراً ۴۰ مرتبہ مذکورہ وظیفہ پڑھ لیا۔ دوسرے ہی دن یکم ربیع الاول ۱۴۲۳ھ 14 مئی2002ء کو صبح فجر کے وقت اس کا انتقال ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے وہ صرف زمانے کے ولیِ کامل امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے دامن سے وابستہ ہونے کے انتظار میں تھی۔
الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ولیِٔ کامل کی مریدنی ہونے کی ایسی بَرَکت ملی کہ میں نے خود آخری وقت میں اسے با آوازبلند دو یا تین مرتبہ کَلِمَۂ طَیِّبَہلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌُ رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پڑھتے سنا ۔پھر ہمشیرہ نے خود ہی ہاتھ پاؤں سیدھے کرلئے اور آنکھیں بند کرلیں ، اس وقت اذان فجر کی آواز آرہی تھی۔(ملخصاً نسبت کی بہاریں ص ۱۴ )
اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلیٰ مُحَمَّد
مرتے وقت کلمۂ طیبہ پڑھنے کی فضیلت
اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ایسا لگتا ہے کہ وقتِ موت کلمۂ طیبہ پڑھنے والے اسلامی بھائیوں اور بہنوں کی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول اور زمانے کے ولیِ کامل کے دامن سے نسبت رنگ لے آئی اور انہیں آخِری وَقْت کَلِمَۂ نصیب ہوگیا۔ اور جس کو مرتے وقت کَلِمَۂ نصیب ہوجائے اُس کا آخِرت میں بیڑا پار ہے۔ چُنانچہ نبّیِ رَحمت، شفیعِ امّت ، مالکِ جنت، محبوبِ ربُّ العزت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے، جس کا آخر کلام لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ (یعنی کَلِمَۂ طَیِّبَہ)ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (ابو داؤد ج ۳ ص ۱۳۲، رقم الحدیث ۳۱۱۶)
اب ان خوش نصیب اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کے ایمان افروز واقعات پیشِ خدمت ہیں جنہیں زمانے کے ولی کے دامن سے وابستگی کی وہ بہاریں نصیب ہوئیں کہ ان کی قبریں طویل مدت کے بعد کسی حاجت ِ شدیدہ کے باعث کھولی گئیں تو نہ صرف ان کے جسم اور کفن سلامت تھے بلکہ ان کی قبروں سے خوشبوؤں کی لپٹیں بھی آرہی تھیں ۔ اور ان خوش نصیبوں کیلئے کتنی بڑی بشارت ہے کہ نبی کریم رء ُوف رحیم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قبْر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔ ( ترمذی شرف ج 4ص 209)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ان خوش نصیبوں کے تروتازہ اجسام کا قبروں سے صحیح و سالم ظاہر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ان کی قبریں ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے کرم سے جنّت کا باغ ہیں ۔ان ایمان افروز واقعات کا بغور مطالعہ فرمائیں ۔
’’کرامات‘‘ کے چھ حُرُوف کی نسبت سےعاشقانِ رسول کی قبریں کُھلنے کے 6واقعات
۳ رَمَضانُ المبارَک ۱۴۲۶ھ (8.10.05) بروز ہفتہ پاکستان کے مشرقی حصّے میں خوفناک زلزلہ آیا جس میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے انہیں میں مُظَّفر آباد ( کشمیر)کے عَلاقہ’’ مِیرا تسو لیا ں ‘ ‘ کی مُقیم 19 سالہ نسرین عطاّؔریہ بنتِ غلام مُرسلین شہید ہو گئیں ۔ مرحومہ سلسلہ عالیہ قادِریہ عطاریہ کے عظیم بُزُرگ شَیخِ طریقت امیرِ اَہلسنّت ، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رَضَوری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے مُرید تھیں اور مرتے دم تک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہیں ۔دعوت ِاسلامی کے زیرِانتظام ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتِماع میں با قاعدگی کے ساتھ شرکت بھی فرماتی تھیں ۔ بعدِ تدفین مرحومہ نسرین عطاّؔریہ اپنے والِدین اور چھوٹے بھائی کے خواب میں مسلسل آتیں اور کہتیں ، ’’ میں زندہ ہوں اوربَہُت خوش
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع