30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حدیث (31) مِسواک کی فضیلت
اُمُّ المومنین حضرتِ سیِّدُتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا روایت کرتی ہیں کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اَلسِّوَاکُ مَطْہَرَۃٌ لِلْفَمِ مَرْضَاۃٌ لِّلرَّبیعنی مِسواک میں منہ کی پاکیزگی اور اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی خوشنودی کا سبب ہے۔ (سنن النسائي، أبواب الطہارۃ وسننھا، باب السواک، ج۱، ص۱۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شریعت میں مِسواک سے مُراد وہ لکڑی ہے جس سے دانت صاف کئے جائیں ۔سنّت یہ ہے کہ یہ کسی پھول یا پھلدار درخت کی نہ ہو کڑوے درخت کی ہو ۔موٹائی چھنگلی کے برابر ہو ، لمبائی بَالِشْت سے زیادہ نہ ہو ۔ دانتوں کی چوڑائی میں کی جائے نہ کہ لمبائی میں ۔بے دانت والے اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں مسوڑھوں پر انگلی پھیر لیا کریں ۔ مسواک اتنے مقام پر سنّت ہے : وضو میں ، قراٰن شریف پڑھتے وقت ، دانت پیلے ہونے پر ، بھوک یا دیر تک خاموشی یا بے خوابی کی وجہ سے منہ سے بدبو آنے پر ۔ (مراٰۃ المناجیح ، کتاب الطہارۃ، باب السواک، ج۱، ص۲۷۵ )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حدیث (32) جماعت کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ صَـلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَـلَاۃَ الْفَذِّ بِسَـبْعٍ وَعِشْـرِیۡنَ دَرَجَۃً یعنی باجماعت نمازادا کرنا، تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، الحدیث ۶۴۵، ج۱، ص۲۳۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عام روایات میں یہی ہے کہ نماز باجماعت بہ نسبت تنہا کے ۲۵ درجے زائد ہے ۔مگر بعض روایتوں میں ستائیس درجے بھی آیا ہے۔بلکہ ایک روایت میں ۳۶ درجے بھی وارد ہے۔بعض میں ۵۰ بھی۔علماء نے اس کی مختلف تو جیہات کی ہیں۔سب میں عمدہ توجیہ یہ ہے کہ یہ نمازی اور وقت اور حالت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج۲، ص۱۷۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
امام اعظم ابو حنیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے شاگرد حضرتِ سیِّدُنا محمد بن سماعہ رَحْمَۃُ للہ تعالیٰ عَلَیہ نے ایک سو تیس برس کی عمر پائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ روزانہ دو سو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ مسلسل 40 برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی تکبیر اُوْلیٰ فوت نہیں ہوئی ۔جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا۔ اس دن ایک وقت کی جماعت چھوٹ گئی تو میں نے اس خیال سے کہ جماعت کی نماز کا ۲۵ گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ اس نماز کو میں نے اکیلے ۲۵ مرتبہ پڑھا۔ پھر مجھے کچھ غنودگی آگئی۔ تو کسی نے خواب میں آکر کہا، ۲۵ نمازیں تو تم نے پڑھ لیں مگر فرشتوں کی ’’ اٰمین ‘‘ کا کیا کرو گے؟ (تہذیب التہذیب، حرف المیم، من اسمہ محمد، الرقم۶۱۷۲، ج۷، ص۱۹۱)
حدیث شریف میں ہے کہ امام جب ’’ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾ ‘‘ کہے تو تم لوگ ’’ اٰمیۡن ‘‘ کہو، جس کی ’’ اٰمِیۡن ‘‘ فرشتوں کی ’’ اٰمِین ‘‘ کے ساتھ ہوتی ہے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، الحدیث ۴۴۷۵، ج۳، ص۱۶۴)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! شیخِ طریقت امیرِ اہلِسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتہُم الْعَالِیَہ کاشروع سے ہی باجماعت نماز پڑھنے کا ذہن ہے، جماعت ترک کردینا تو گویاآپ کی لُغَتْ میں تھاہی نہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ دَامَتْ بَرَکَاتہُم الْعَالِیَہ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت گھر میں دوسراکوئی مرد نہ تھا، آپ اکیلے تھے مگر والدہ محترمہ کی مَیِّت چھوڑ کرمسجد میں نماز پڑھانے کی سعادت پائی۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتہُم الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: ’’ ماں کے غم میں میرے آنسوضَرور بہہ رہے تھے، مگر اس صورت میں بھی الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جماعت نہ چھوڑی ۔ ‘‘
نمازوں میں مجھے ہرگز نہ ہو سُستی کبھی آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
پڑھوں پانچوں نمازیں باجماعت یا رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حدیث (33) چغل خور کی مذمت
حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَـتَّاتٌ یعنی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘ (صحیح البخاري، کتاب الآداب، باب مایکرہ من النمیمۃ، الحدیث ۶۰۵۶، ج۴، ص۱۱۵)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قَـتَّاتوہ شخص ہے جو دو مخالفو ں کی باتیں چھپ کر سُنے اور پھر انہیں زیادہ لڑانے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائے۔ اگر یہ شخص ایمان پر مرا تو جنت میں اولاً نہ جائے گا بعد میں جائے تو جائے اگر کفر پر مرا تو کبھی وہاں نہ جائے گا۔ (مسلم شریف میں نَمّام کا لفظ استعمال ہوا ہے) جو دو طرفہ جھوٹی باتیں لگا کر صلح کرادے وہ نمام نہیں مصلح ہے نمام وہ ہے جو لڑائی وفساد کیلئے یہ حرکت کرے۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۴۵۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع