Book Name:Allah Walon Ki Batain Jild 1
افسوس ہے ! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سواریوں کوپیشانی کا تکیہ اور مٹی کو پہلوؤں کا بچھونا بنا لیا ۔ قرآن پاک ان کے گو شت وخون میں ایسا بس گیا کہ انہیں بیویوں سے دور کر کے ساری رات سفر میں رکھا ۔ انہوں نے قرآن پاک کو اپنے دلوں پر رکھا تو وہ نرم ہو گئے ۔ سینوں سے لگایا تو وہ کشادہ ہوگئے ۔ اس کی برکت سے ان کی پریشانیوں اور غموں کے بادل چھٹ گئے ۔ انہوں نے قرآن پاک کو اپنی تا ریکیوں کے لئے چراغ ، اور ( قرآنِ پاک کی تلاوت کو اس طرح اپنے لئے لازم کر لیا جس طرح ) سونے کے لئے بچھونا لازم ہے ۔ اپنے راستے کے لئے رہنما اور اپنی حجت کے لئے کامیابی بنالیا ۔ لوگ خوشیاں مناتے ہیں جبکہ یہ غمگین رہا کرتے ہیں ۔ لوگ سو رہے ہو تے ہیں لیکن یہ بیدار رہتے ہیں ۔ لوگ کھاتے پیتے ہیں او ریہ رو زے رکھتے ہیں ۔ لوگ ( قبر و حشرسے غافل ہوتے اور ) بے خوف رہتے ہیں جبکہ یہ ( قبر و حشر کے معاملات سے ) خوفزدہ رہتے ہیں ۔ یہاللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے اوراس کی نافرمانیوں سے بچتے، گھبرائے رہتے اور نیک اعمال میں خوب مشقت اُٹھاتے ہیں ۔ عمل کے فو ت ہوجانے کے ڈر سے اسے جلدہی اداکرلیتے اورہر دم موت کے لئے تیاررہتے ہیں ۔ ان کے نزدیکاللہ عَزَّوَجَلَّ کے درد ناک عذاب کے خوف اوروعدہ کئے گئے عظیم الشان ثواب کی وجہ سے موت کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ قرآ ن حکیم کے راستوں پرگامزن اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے قربانی پیش کرنے کے معاملے میں مخلص ہیں ۔ یہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے نور سے منوراور اس بات کے منتظر ہیں کہ قرآن کریم ان کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں اور عہدوں کو پورا کرے ، اپنی سعادت کے مقام میں انہیں ٹھہرائے اور اپنی وعیدوں سے انہیں امن بخشے ۔ چنانچہ، یہ لوگ قرآن پاک کے ذریعے اپنی خواہشات اورخوبصورت حوروں کوپاکرہلاکتو ں اوربرے انجام سے مامون ہوگئے کیونکہ انہوں نے دنیاکی رونقوں کو غضبناک نگا ہوں سے ترک کر کے رضا مندی والی آنکھوں سے آخرت کے ثواب کی طرف دیکھا ۔ نیزفناء ہونے والی ( دنیا ) کے بدلے ہمیشہ رہنے والی ( آخرت ) کو خرید لیا ۔ انہوں نے کتنی اچھی تجارت کی، کہ دونوں جہاں میں نفع پایا اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں جمع کیں ۔ کامل طور سے فضیلتوں کو پانے میں کامیاب ہوئے ۔ کچھ دن صبر کر کے اپنی منزلوں تک پہنچ گئے ۔ عذاب والے دن کے خوف سے کم مال و زَر پرہی قناعت کر کے زندگی کے ایام گزار دیئے ۔ مہلت کے دنوں میں بھلائی کی طرف جلدی کی ۔ حوادثِ زمانہ کے خوف سے نیکیوں میں تیزی دکھائی ۔ اپنی زندگی کھیل کود میں گنوانے کے بجائے با قی رہنے والی نیکیوں کے حصول کے لئے مشقتیں اُٹھائیں ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم ! عبادت کی تھکاوٹ نے ان کی قوت کمزورکر دی اور مشقت نے ان کی رنگت بد ل ڈالی ۔
انہوں نے بھڑکنے والی ( جہنم کی ) آگ کویاد رکھا، نیکیوں کی طرف جلدی کی اور لہو ولعب سے دور رہے ۔ شک اوربد کلامی سے بری ہوگئے وہ فَصِیْحُ اللِّسَان گونگے اور دیکھنے والے اندھے ہیں ان کی صفات بیان کرنے سے زبان قاصر ہے ۔ ان کی بدولت مصیبتیں ٹلتیں اور برکتیں اُترتی ہیں ۔ وہ زبان وذوق میں سب سے میٹھے اورعہد وپیمان کو سب سے زیادہ پورا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ مخلوق کے لئے چراغ، شہروں کے منارے ، تا ریکیوں میں رو شنی کا منبع، رحمت کی کانیں ، حکمت کے چشمے اور اُمت کے ستون ہیں ، بسترو ں سے ان کے پہلو جدار ہتے ہیں ۔ وہ لوگو ں کی معذرت کو سب سے زیادہ قبول کرنے والے، سب سے زیادہ معاف کرنے والے اور سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ پس انہوں نےاللہ عَزَّوَجَلَّکے ثواب کی طرف مشتاق دلوں سے ٹکٹکی باندھی ۔ آنکھوں او رموافقت کرنے والے اعمال سے دیکھا ۔ ان کی سواریاں دنیا سے دور ہوگئیں ۔ انہوں نے دنیاسے اپنی اُمیدوں کو ختم کرلیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکے خوف نے ان کے مالوں میں ان کی کوئی رغبت و خواہش نہ چھوڑی لہٰذا تو دیکھے گا کہ انہیں نہ تو مال جمع کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور نہ ہی اون وغیرہ کے ریشمی لباس کی تمناکرتے ہیں ۔ نہ توعمدہ سواریوں کے دلدادہ ہوتے ہیں اور نہ ہی محلات کو پختہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں ۔ جی ہاں ! انہوں نےاللہ عَزَّوَجَلَّکی تو فیق سے دیکھا اوراللہ عَزَّوَجَلَّنے ان کی طرف الہام فرمایا ۔ ان کی معرفت نے انہیں صبرپر آمادہ کیا ۔ انہوں نے اپنے جسموں کو محرمات کے ارتکاب اور اپنے ہاتھوں کوانواع واقسام کے کھانوں سے باز رکھا ۔ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاکر سیدھے راستے پر گا مزن اورہدایت کے لئے آمادہ رہے اور دنیا والوں کے ساتھ ان کی آخرت بہتر بنانے کے لئے شریک ہوئے ۔ مصیبتوں پر صبرکیا ۔ امیدوں کا گلا گھونٹا ۔ موت اور اس کی سختیوں ، مصیبتوں اور تکلیفوں سے ڈر گئے ۔ قبر اورا س کی تنگی ، منکر نکیر اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ، سوال وجواب سے خوفزدہ رہے اوراپنے مالک رب عَزَّوَجَلَّکے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے رہے ۔ ‘‘
( ۱۰ ) … اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ السَّلَامتا ریکیوں کے لئے چراغ ، رُشد و ہدایت کے چراغ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خاص راز دار اورہر تصَنُّع و بناوٹ سے پاک مخلص بندے ہیں ۔ چنانچہ،
( 25 ) … حضرت سیِّدُناعبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ، حضرت سیِّدُنامعا ذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکے پاس سے گزرے اورانہیں روتا ہوا دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کی : میں نے رسول اللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکویہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکے محبوب ترین بندے وہ ہیں جو متقی و پر ہیز گاراور ایسے گمنام ہیں کہ جب لوگوں میں موجود نہ ہوں تو انہیں تلاش نہ کیا جائے اور اگرموجود ہوں تو پہچا نا نہ جائے ۔ یہی لوگ ہدایت کے امام اور علم کے چراغ ہیں ۔ ‘‘ ( [1] )
( 26 ) … رسول اللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے غلام حضرت سیِّدُناثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہروایت کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہ ، با عثِ نُزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت اَقدس میں حاضر تھا آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا : ’’ اخلاص والوں کے لئے بشارت ہو، یہی لوگ چراغِ ہدایت او رانہی کی بدولت تاریک فتنے چھٹ جاتے ہیں ۔ ‘‘ ( [2] )