Book Name:Nigahon ke Hifazat kijiye

کی ملاقات ہوئی،جب اُنہیں اُن کی  مَدَنی کاموں میں دلچسپی نہ ہونے کا عِلْم ہوا تو اُنہوں نے اِنْفِرادی کوشش کرتے ہوئے نہ صِرْف اُنہیں  مَدَنی کام کرنے کا ذِہْن دیا بلکہ صدائے مدینہ کی پابندی کرنے کی ترغیب بھی دلائی۔(مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے اُنہیں نمازِ فجر کے لئے جگانے کو دعوتِ اسلامی کے  مَدَنی ماحول میں’’صدائے مدینہ لگانا‘‘کہتے ہیں)اوراِس بارے میں اُنہوں نے شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کا فرمان’’صدائے مدینہ دکھائے مدینہ‘‘بھی سُنایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّاُن کا ذِہْن بن گیا اور حاضِریِ مدینہ کی اُمید پر اگلے ہی دن  اِس پر عمل شروع کر دیا۔صدائے مدینہ کیا لگانی شروع کی اُن پر تو اللہ کریم  اور اُس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا کرم ہو گیا، قسمت کا ستارا یُوں چمکا کہ اُسی سال اُنہیں بارگاہِ مُصْطَفٰے کی حاضِری کا شرف حاصل ہو گیا۔ کرم بالائے کرم یہ کہ صدائے مدینہ کی بَرَکت سے اُن کے بڑے بھائی کو بھی حج کی سعادت نصیب ہو گئی،دورانِ حج شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  سے بَیْعت  ہونے کا شَرَف بھی حاصِل ہوگیا۔

پڑوسی بَنا مجھ کو جنّت میں اُن کا                                       خدائے محمد برائے مدینہ

لگا فجر میں بھائی گھر گھر پہ جاکر                                       ذرا دل لگا کر ’’صدائے مدینہ‘‘

(وسائلِ  بخشش مُرمّم،ص۳۶۹)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کامِل مومن کی پہچان

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے! بدنگاہی انسان کو دنیاوآخرت میں کہیں کا نہیں چھوڑتی ، اس کی وجہ سے  بندہ اللہ پاک  کی  نافرمانیوں میں بڑھتا جاتاہے،ہر وقت اس کے دل و دماغ میں شیطان سمایا رہتا ہے، عجیب بےسکونی کا عالَم اس پر طاری رہتا ہے، نَفْسانی خَواہشات و خیالات اس پر غالب رہتے ہیں، نَفْس کی تسکین کے لیے وہ مزید ہلاکت خیز گُناہوں میں مبُتلا ہو جاتا ہے مثلاً بدکاری وغیرہ کے علاوہ اپنے ہاتھوں سے اپنی جوانی برباد کرنے سے بھی گُریز نہیں کرتا۔بدنِگاہی کرنے والے کو اگر پتا چل جائے