Book Name:Buri Sohabat Ka Wabal

شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح ووضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں  اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مُشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دِین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اَسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے ،لہٰذا باوجودیہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلِّب(پختہ) ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے، اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا۔ چنانچہ

آدھا لفظ بھی نہ سنا

اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہاس بارے میں اَسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (حضرت )سَیِّدُنا سعید بن جُبَیْر شاگردِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔ کہا، کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔فرمایا: میں سننا نہیں چاہتا۔عرض کی ایک کلمہ۔(آپ نے) اپنا انگوٹھا چھُنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا:وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘(یعنی)آدھا لفظ بھی نہیں۔ لوگوں نے عرض کی، اس کا کیا سبب ہے؟ فرمایا:یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔

سَیِّدُنا امام ابنِ سیرین کی بدمذہبوں سے نفرت

(اسی طرح )امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے پاس دو بد مذہب آئے۔عرض کی، کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں!فرمایا:میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں !فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا: تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھ جاتا ہوں۔آخر وہ خائب و خاسر چلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی:اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے؟ فرمایا:میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل