تاجروں کے لئے/ تاجر کا اندازِ گفتگو

کھانا کھائے بغیر کمپنی سے کھانے کے پیسے وصول کرنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں غلہ منڈی میں کام کرتا ہوں میری تنخواہ طے ہے، نیز مجھے تین وقت کھانا کھانے کی سہولت موجود ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں تین وقت کا کھانا نہیں کھاتا اب جب ہفتے بعد حساب ہوتا ہے کہ جس نے جتنے کا کھانا کھایا ہے وہ اپنے پیسے لے لے تو کیا میں اس وقت کے پیسے لے سکتا ہوں جس وقت میں نے کھانا نہیں کھایا تھا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں اگر سیٹھ نے آپ کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ چاہے آپ کھانا کھائیں یا نہ کھائیں ہم آپ کو کھانے کے پیسے دیں گے تو اس صورت میں ہفتہ بعد جب حساب ہو تو آپ اس وقت کے کھانے کے پیسے بھی لے سکتے ہیں کہ جس وقت آپ نے کھانا نہیں کھایا تھا لیکن اگر سیٹھ کی طرف سے صرف یہ سہولت موجود ہو کہ کھانا کھائیں گے تو پیسے دیں گے اور اگر کھانا نہیں کھائیں گے تو پیسے نہیں ملیں گے تو اس صورت میں آپ کا اس وقت کے کھانے کے پیسے لینا کہ جس وقت آپ نے کھانا نہیں کھایا تھا جائز نہیں۔ اگر آپ اس وقت کے پیسے لیں گے تو یہ جھوٹ اور دھوکا ہوگا اور وہ پیسے آپ کے لیے حلال بھی نہیں ہونگے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

Goodwill کا عوض طلب کرنا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض اوقات شراکت داری میں اس طرح ہوتا ہے کہ اگر کاروبار نقصان میں جارہا ہو تو پرانے پارٹنر کاروبار کو بہتر بنانے کے لیے نئے پارٹنر کو شامل کرتے ہیں تو نیا پارٹنر پرانے پارٹنر سے کہتا ہے کہ مارکیٹ میں میری گُڈ وِل (Goodwill) زیادہ ہے اس لیے مثال کے طور پر اگر میں ایک لاکھ بزنس میں لاؤں تو مجھے ڈیڑھ لاکھ کا کیپیٹل دیا جائے یعنی اسکا حق پچاس ہزار اضافی بڑھایا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں محض گُڈ وِل (Goodwill) کی بنیاد پرکیپیٹل میں اضافہ کروانا شرعاً درست نہیں کیو نکہ گُڈ وِل (Goodwill) کی حیثیت ایک منفعت کی سی ہے یہ کو ئی مال نہیں ہے کہ جس کے عوض میں کچھ لیا جائے۔ لہٰذا نئے پارٹنر کا کیپٹل اتنا ہی شو (Show) کریں گے جتنا اس نے دیا ہے اگر ایک لاکھ کا کیپیٹل ہے تو ڈیڑھ لاکھ شو (Show) کرنا جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دفعِ ظلم کے لیے رشوت دینا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ڈرائیور ہوں ہم کسی جگہ سے گاڑی بھرتے ہیں تو چیک پوائنٹ پر ہمیں رشوت دئیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ایسے موقع پر رشوت دینا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے کسی ایسی جگہ سے مٹی یا بجری کی گاڑی بھری جہاں سے مٹی بھرنے سے گورنمنٹ نے منع کیا ہوا تھا لیکن پھر بھی آپ نے گاڑی بھری اور آپ کو چیک پوائنٹ پر روک لیا گیا جس کے نتیجے میں آپ کو رشوت دینا پڑی تو اس صورت میں آپ کا رشوت دینا اور ان کا لینا دونوں ناجائز اور حرام ہے۔ البتہ اگر کسی ایسی جگہ سے آپ نے گاڑی بھری جہاں سے گاڑی بھرنے پر کسی قسم کی کوئی قانونی پابندی عائد نہیں تھی اگر کسی حکومتی پرمٹ یا لائسنس کی ضرورت تھی تو وہ بھی آپ کے پاس موجود تھا نیز ڈرائیور اور گاڑی کے کاغذات بھی مکمل تھے الغرض آپ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی تھی لیکن پھر بھی آپ کو رشوت لیے بغیر نہیں چھوڑتے تو ایسی صورت میں آپ کو دفعِ ظلم کی وجہ سے رشوت دینا تو جائز ہے البتہ ان لوگوں کا رشوت لینا ناجائز اور حرام ہی ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دکاندار سے اس طرح کھاد خریدنا کیسا کہ نقد خریدیں  گے تو 500 روپے کی اور ادھار خریدیں گے تو 550روپے کی؟ نیز اس صورت میں جو اضافی پیسے دئیے گئے یہ درست ہے یا نہیں؟ اور اس طرح سے جو آمدنی حاصل ہوگی کیا وہ حلال ہوگی یا حرام؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں دکاندار سے اس طرح کھاد خریدنا بالکل جائز ہے کہ نقد فی بوری 500 روپے کی اور ادھار 550روپے کی۔ اس طرح خرید و فروخت کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں جبکہ قیمت کے یہ مختلف آپشنز صرف سودا مکمل ہونے سے پہلے بارگیننگ کرتے ہوئے دئیے گئے ہوں اور سودا کسی ایک قیمت پر ہی طے ہو۔ واضح رہے اگر یہ طے ہوا کہ مقررہ وقت سے تاخیر کرنے کی صورت میں اتنی رقم مزید دینا ہوگی تو یہ درست نہیں بلکہ ایسی شرط سودے کو فاسد کردے گی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہ ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ایڈوانس رقم دے کر پورے ماہ خریداری کرتے رہنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک صا حب نے ایک سبزی والا گھر لگوایا ہوا ہے وہ مہینے کے شروع میں اس کو پا نچ سو روپے دے دیتے ہیں اور پھر وہ سارا مہینا بغیر تولے ایک تھیلی سبزی کی تیار کرکے ان کے گھر دیتا رہتا ہے اب ان کا یہ سبزی لینا اور اسے استعمال کرنا کیسا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:مذکورہ طریقہ جائز نہیں۔ اول تو اس میں یہ ہی طے نہیں کہ کیا سبزی لی جائے گی اور کتنی لی جائے گی حالانکہ خریدی گئی چیز کا ریٹ طے کرنا اور مقدار طے کرنا ضروری ہوتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح پیشگی یا ایڈوانس میں رقم رکھوا کر پورے مہینے خریداری کرتے رہنے سے بھی فقہاء نے منع فرمایا ہے۔

چنانچہ صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:”پنساری کو روپیہ دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ روپیہ سودے میں کٹتا رہے گا یا دیتے وقت یہ شرط نہ ہو کہ سودے میں کٹ جائے گا مگر معلوم ہے کہ یونہی کیا جائے گا تو اس طرح روپیہ دینا ممنوع ہے کہ اس قرض سے یہ نفع ہوا کہ اس کے پاس رہنے میں اس کے ضائع ہونے کا احتمال تھا اب یہ احتمال جاتا رہا اور قرض سے نفع اٹھانا ناجائز ہے۔“(بہارِ شریعت،ج3،ص481)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  دار الافتا اہلِ سنّت نورالعرفان ، باب المدینہ کراچی

 


Share

تاجروں کے لئے/ تاجر کا اندازِ گفتگو

کامیاب تاجِر کے لئے جہاں دِیانتداری،سچائی،محنت اور تجارت کے اُصولوں سے واقِف ہونا ضَروری ہے وہاں اس کے لئے خوش اَخلاق، مِلَنسار اور باکردار ہونا بھی ضَروری ہے۔  حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خانعلیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: یوں تو ہر مسلمان کو خُوش خُلق ہونا لازِم ہے مگر تاجِر کو خصوصیت سے خُوش خُلقی ضَروری ہے۔مسلمان تاجِروں کی ناکامی کا ایک سبب ان کی بَدخُلقی بھی ہے کہ جو گاہک ان کے پاس ایک بار آ گیا وہ ان کی بَدخُلقی کی وجہ سے دوبارہ نہیں آتا۔ ہم نے بعض غیر مسلم تاجِروں کو دیکھا کہ جب وہ کسی محلّہ میں نئی دکان رکھتے ہیں تو چھوٹے بچوں کو جو سودا خریدنے آئیں کچھ نہ کچھ مٹھائی وغیرہ دیتے رہتے ہیں تاکہ بچے اس لالچ میں ہمارے ہی یہاں سے سودا خریدیں۔ بڑے سوداگرخاص گاہکوں کی کھانے وغیرہ  سے بھی تَواضُع کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں گاہک کو پَکّا کرنے کے لئے ہیں۔اگر تم یہ کچھ نہ کر سکو تو کم ازکم گاہک سے ایسی میٹھی بات کرو اور ایسی محبت سے بولو کہ وہ تمہارا گرویدہ ہو جائے۔(اسلامی زندگی ،ص153ملخصاً)

بات بات پر قسم نہ کھائیں

تاجِر کو چاہئے کہ دَورانِ گفتگوبات بات پر قسم نہ کھائے، اگر بوقتِ ضَرورت قسم کھانی ہی پڑے تو صِرف سچّی قسم کھائے۔عموماً تاجِر حضرات گاہک کو گھیرنے کے لئے جھوٹی قسم کھاتے ہوئے اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ”اللہ کی قسم ابھی تم سے پہلے ایک گاہک اس سے زیادہ پیسے دے  رہا تھا  لیکن میں نے نہیں دی“ ایسوں کے لئے حدیثِ پاک میں بڑی سخت وعید آئی ہے چنانچہ مکی مدنی سُلطان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:تین شخص ایسے  ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ  نہ کلام فرمائے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظرِ رَحمت فرمائے گا:(ان میں سے )ایک وہ ہے جو کسی سامان پر قسم کھائے کہ مجھے پہلے اس سے زیادہ قیمت مل رہی تھی حالانکہ وہ جھوٹا ہو۔(بخاری،ج2،ص100،حدیث:2369) یہ بیماری عام دُکانداروں کو ہےکہ جب کوئی خریدار ان کے مال کی قیمت لگاتا ہے تو کہتے ہیں رب کی قسم! ابھی تم سے پہلے ایک گاہک اس سے زیادہ پیسے دیتا رہا میں نے نہ دی اور سچے ایسے ہوتے ہیں کہ جب گاہک چل دیتا ہے تو پکارتے ہیں اچھا اتنے میں ہی لے جا۔ خیال رہے کہ جھوٹ بولنے سے تقد یر نہیں بدل جاتی بلکہ تجرِبہ یہ ہے کہ سچا دُکاندار خُوب کماتا ہے۔ (مراۃُ المناجیح،ج4،ص341)

جھوٹی تعریف نہ کریں

یوں ہی تاجِر کو چاہئے کہ دَورانِ گفتگو اپنے مال کی نہ تو جھوٹی تعریف کرے اور نہ ہی اپنی چیز کی عمدگی ظاہر کرنے کے لئے ذِکْرُاللہ وغیرہ کرے جیساکہ بہارِ شریعت میں ہے:گاہک کو سودا  دِکھاتے وَقت تاجِر کا اِس غَرَض سے دُرُود شریف پڑھنا یا سُبْحٰنَ اللّٰہ کہنا کہ اس چیز کی عُمدَگی خریدار پر ظاہرکرے، ناجائز ہے۔ (بہارِ شریعت ،ج1،ص533)

دوسرے تاجروں کی بُرائیاں بیان نہ کریں

اِسیطرح تاجِر کو چاہئے کہ چند پیسوں کے حُصُول کی خاطِر دوسروں کی غیبتیں کر کے”اپنی نیکیوں کی سخاوت“ بھی نہ کرے کہ فُلاں دکاندار ملاوٹ والا مال بیچتا ہے، سامان تولنے میں گڑبڑ کرتا ہے وغیرہ ۔حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم بن اَدہم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم غیبت کرنے والے کی سَرزَنِش کرتےہوئے فرماتے ہیں:اے جھوٹے انسان! تُو اپنے دوستوں کو تو دُنیا کا حقیر مال دینے سے بُخْل کرتا رہا مگر آخرت کا مال (یعنی نیکیوں کا خزانہ) تونے اپنے دُشمنوں پر لُٹا دیا ! نہ تیرا دُنیوی بُخْل قابلِ قبول، نہ غیبتیں کر کر کے نیکیاں لُٹانے والی سخاوت مقبول۔ (تنبیہ الغافلین، ص87)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دارشعبہ مدنی مذاکرہ،المدینۃ العلمیہ،  باب المدینہ کراچی

 


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code